عبداللطیف خالد چیمہ
یوں تو سال مہینہ نہیں،پوری زندگی ہم نے تحریک ختم نبوت کے لیے اﷲ کی توفیق سے وقف کررکھی ہے ،لیکن تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت مارچ 1953ء کے دس ہزار شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مارچ کے مہینے میں ہم سرخ پوشانِ احرار ہر سال خاص طور پر شہداء ختم نبوت کا نفرنسز کا اہتمام کرتے ہیں ،قیام ملک کے بعد جب احرار نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد دفاع پاکستان اور تحفظ ختم نبوت پر اپنی تمام توانائیاں وقف کردیں تو مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو احمدی اسٹیٹ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے 1952ء کو احمدیت کا سال قرار دیا ،اور وزیر خارجہ آنجہانی ظفر اﷲ خاں نے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی ارتدادی مراکز میں تبدیل کردیا اور خود ظفر اﷲ خاں نے کراچی کے ایک جلسۂ عام میں احمدیت کو زندہ مذہب اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا ،ایسے میں جب یہ محسوس ہونے لگا کہ قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب ِ خون مارنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں تو حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اعلان کیا ،کہ مرزا بشیر الدین محمود 52ء تیرا ہے تو پھر 53ء ہمارا ہے، 31 ؍دسمبر 1952ء کو رات بارہ بجے کے بعد چنیوٹ کی احرار ختم نبوت کانفرنس میں شاہ جی نے فرمایاکہ ’’بشیر الدین ! تیرا 52ء گزر چکا ! اب ہمارا 53ء شروع ہوچکا ہے ،چنانچہ احرار کی میزبانی میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کو اکٹھا کیا گیااور حضرت مولانا ابوالحسنات قادری رحمۃ اﷲ علیہ کو قیادت کا فریضہ سونپا گیا ،لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے ،کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو علیحدہ کرنے اور ظفر اﷲ خاں سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لینے کے مطالبات ،حاجی نمازی حکمرانوں نے یہ کہہ کر رد کردیے کہ اس سے ’’امریکہ ہماری گندم بند کردے گا‘‘۔
راست اقدام کا فیصلہ ہوا تو پاکستان میں مارشل لا ء کا جبرسب سے پہلے ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ پر ہی آزمایا گیا اور لاہور کے مال روڈ سمیت ملک بھر میں دس ہزار فرزندان اسلام کے سینے اس لیے گولیوں سے چھلنی کردیے گئے کہ وہ شریعت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر حاصل کیے گئے خطے میں منصب رسالت وختم نبوت کا آئینی تحفظ چاہتے تھے ۔
احرار کو خلاف قانون قرار دیا گیا ،دفاتر سیل ہوئے ،ریکارڈ ضبط ہوا اور قیادت پابند سلاسل! سارا جبر سہہ کر بھی قیادت اپنے مؤ قف پر ڈٹی رہی اور حضرت امیر شریعت مرحوم نے فرمایا تھا کہ ’’ اس تحریک کے ذریعے میں ایک ٹائم بم چھپا کر جارہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا اور قادیانی اپنے انجام کو پہنچیں گے‘‘۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ شاہ جی کا خواب 7 ؍ ستمبر 1974ء کو بھٹو مرحوم کے ہاتھوں شرمندۂ تعبیر ہوا اور قومی اسمبلی نے لاہور ی وقادیانی مرزائیوں کو دستوری طور پر پاکستان کی ساتویں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ ہم تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کو جِلا بخشنے والوں کے مشن کو زندہ رکھنے میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ اسی نسبت سے 9 ؍مارچ 2018ء بروز جمعۃ المبارک بعد نماز ِ مغرب ’’ایوان اقبال ‘‘ایجرٹن روڈ نزد شملہ پہاڑی ،لاہور میں ’’امیر شریعت کانفرنس‘‘کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جس کی صدارت ابن امیرشریعت،قائد احرار حضرت پیر جی عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالیٰ کریں گے اور مہمان خصوصی ابن مفتی محمود،قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالیٰ ہوں گے،اس کانفرنس میں ملکی سطح کی دینی وسیاسی قیادت حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی’’ تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں خدمات‘‘ کو خراج تحسین پیش کرے گی ،کانفرنس کی مجلس منتظمہ، جماعت کے سنیئر رہنماء جناب میاں محمداویس کی سربراہی میں یہ کوشش کر رہی ہے کہ استعمار ،اس کے ایجنٹوں اور حاشیہ برداروں کے مکروہ کردار سے پردہ اٹھانے اور دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کو حوصلہ دینے کے لئے یہ کانفرنس اہم کردار ادا کرے ،ان شاء اﷲ تعالیٰ ۔
حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی، حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد، شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی، مولانا شاہ اویس نورانی، جناب پیر معین الحق گولڑہ شریف، حافظ عاکف سعید، مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اﷲ، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا عبد الرؤف فاروقی، حضرت مولانا اﷲ وسایا، مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا سید ضیاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا سید محمد انیس شاہ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جناب راجہ محمد ظفر الحق، جناب چودھری پرویز الہٰی، ڈاکٹر عتیق الرحمن، جناب محمود شام، جناب مجیب الرحمن شامی، جناب ڈاکٹر لعل خان اور کئی دیگر نمائندہ شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے۔ کچھ اسماء گرامی کنفرم ہوچکے ہیں ، باقی زیر رابطہ ہیں ،آپ سب حضرات سے درخواست ہے کہ 9 ؍ مارچ کی امیر شریعت کانفرنس لاہور میں اپنی شرکت کویقینی بنائیں اور دعا فرمائیں کہ یہ کانفرنس اپنا حقیقی پیغام دینے میں کامیاب وکامران ہو اور احرار زیادہ پختہ عزم لے کر اپنے مقصد کے لیے آگے بڑھیں۔آمین ،یارب العالمین!
یوم تاسیس جامع مسجد احرار چناب نگر
آج سے بیالیس سال قبل 27 ؍فروری 1976ء کو ’’ربوہ‘‘ میں احرار کا پہلا فاتحانہ داخلہ ہوا، پاکستان بننے کے بعد بانیٔ احرار حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور دیگر اکابر احرار اس کوشش میں لگے رہے کہ قادیان کی طرح ربوہ میں بھی مسلمانوں کا مرکز قائم ہوجائے اور شعبۂ تبلیغ کا دفتر بن جائے تاکہ قادیانی تسلط دم توڑ جائے، انھی اکابر کی دعاؤں اور جدوجہد کا ثمر تھا کہ 1975ء میں ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اپنے معاونین قاری عبدالحیٔ عابد رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا محمد اسحاق سلیمی رحمۃ اﷲ علیہ،مولانا راؤ محمد ارشاد، چنیوٹ کے کچھ ساتھیوں اور فیصل آباد کے معاونین کے ذریعے چناب نگر (ربوہ) کے ڈگری کالج کے ساتھ کچھ جگہ خریدنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں ایک تبلیغی جلسہ بھی کیا تاآنکہ 27 ؍ فروری 1976ء جمعۃ المبارک کو ربوہ میں پہلے مرکز احرار وختم نبوت کے باقاعدہ سنگ بنیاد اور خطبہ ونماز جمعہ کا اعلان کردیا گیا ،روزنامہ نوائے وقت لاہور میں اشتہارات دیے گئے ،پیپلز پارٹی کی رسوائے زمانہ حکومت اور سرکاری انتظامیہ دو روز قبل حرکت میں آگئی۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ایک روز قبل رات کے اندھیرے میں حیلے اور تدبیر سے متعینہ جگہ کے قریب ملفوف طور پر قیام پذیر ہوگئے، تحریک طلباء اسلام پاکستان کے ناظم اعلیٰ برادرم محمد عباس نجمی رحمۃ اﷲ علیہ کو رات فیصل آباد سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا، جب وہ ان ناروا پابندیوں کی بابت اعلیٰ سرکاری حکام کو ٹیلی گرام دینے ٹیلی گراف آفس فیصل آباد پہنچے، مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ نے فیصل آباد میں رہائش گاہ بدل لی۔
راقم الحروف تب گورنمنٹ کالج ساہیوال میں تھرڈ ائیر کا طالب علم تھا، 27 ؍فروری جمعۃ المبارک کو صبح سویرے فیصل آباد پہنچ کر اگلی بس پر سوار ہونے کی کوشش کی تو پولیس ربوہ جانے والے مسافروں کو سوار نہیں ہونے دے رہی تھی، میرے ساتھ میرے کلاس فیلو چودھری محمد ارشاد ہم سفر تھے، ہم نے سرگودھا کا ٹکٹ لیا اور ربوہ سے ذرا آگے جاکر اتر گئے اور پھرتے پھراتے ڈگری کالج کے قریب پہنچے تو ہر طرف دور سے روکے گئے شرکاء نماز جمعۃ المبارک نظر آرہے تھے اور مسجد کی جگہ جم غفیر پہنچنے میں کامیاب ہوچکا تھا، قبل ازاں صبح سویرے قائد احرار مولانا سید ابومعاویہ ابوذربخاری رحمۃ اﷲ علیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھ چکے تھے، مبادا پیش آمدہ صورتحال میں یہ رہ نہ جائے، ہمارے پہنچنے سے پہلے مولانا سید ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے تقریر کا آغاز کیا تو گرفتار کر لیے گئے، پولیس اسلحہ تانے چوکس کھڑی تھی اور ہراسمنٹ اپنے عروج پر تھی کہ بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ جو اس وقت ایم این اے بھی تھے پہنچ گئے، تب تحریک طلباء اسلام کے مرکزی صدر ملک رب نواز (ایڈووکیٹ) نے چند لمحے بیان کیا، اسی اثناء میں فاتح ربوہ حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ بھی پہنچ گئے، مجھے یاد ہے کہ ملک رب نواز نے کہا کہ وہ شاہ جی آرہے ہیں، تو حضرت ہزاروی مرحوم اپنے خاص لہجے میں فرمانے لگے کہ ’’نام نہیں لیتے ناں‘‘۔
حضرت ہزاروی رحمہ اﷲ کے بعد مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے تقریر شروع فرمائی تو پولیس افسر گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے …… امیر شریعت کے بیٹے نے جرأت اور بہادری سے کہا کہ میں پہلے تقریر کروں گا، خطبہ جمعہ دوں گا، پھر نمازپڑھاؤں گا، پھر گرفتاری دونگا۔
ایسی تقریر اور ایسا خطبہ …… واہ شاہ جی واہ …… فرمایا! یہ قطعہ زمین ہم نے قیمت ادا کرکے خریدا ہے، حکومت اور 6 ضلعوں کی پولیس یاد رکھے قیامت کے دن! ہمارا ہاتھ ہو گا اور تمہارا گریبان۔
شاہ جی نے ربوہ میں پہلے جمعۃ المبارک کی جماعت کرائی اور اپنے باپ کی سنت ادا کرتے ہوئے گرفتاری دے دی! پھر کیا ہوا کہ اہل حق کے لیے ربوہ کے راستے کھل گئے اور یہ سارا فیض احرار اور فرزندانِ امیرشریعت کا ہے، آج ربوہ چناب نگر ہے اور اس کے چاروں طرف توحید وختم نبوت کے نغموں اور ترانوں کی صدائیں قادیانیوں کو دعوت اسلام اور دعوت حق دے رہی ہیں، کوئی دیکھنا چاہے تو چناب نگر (ربوہ ) آجائے ہم ان شاء اﷲ تعالیٰ میزبانی کریں گے۔ 12؍ ربیع الاوّل کو ’’ایوان محمود‘‘ کے سامنے زعماء احرار، مجاہدین ختم نبوت اور سرخ پوشانِ احرار کے جوشِ ایمان کا نظارہ کرے، قادیان کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ
کانفرنسز کا سہ روزہ
امیر شریعت کانفرنس 9 ؍ مارچ 2018ء لاہور کا تعین ہوچکا تھا کہ یہ بات علم میں آئی کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے 10؍ مارچ 2018ء ہفتہ کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام ہورہا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ 11 ؍ مارچ 2018ء اتوار کو ایوان اقبال لاہور میں ہی انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کی جانب سے بھی ’’ختم نبوت کانفرنس ــ‘‘ کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔
سُبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا
لیکن الحمد ﷲ ہمیں یقین ہے یہ کہ منزل سب کی ایک ہے، ہم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے لیے بھی دعا گو ہیں اور مذکورہ دونوں کانفرنسز کو اپنے ہی اجتماعات تصور کرتے ہیں۔ مجلس احرار اسلام برصغیر میں تحریک ختم نبوت کی اولین اور بانی جماعت ہونے کا اعزاز رکھتی ہے، اسی ناتے اپنی برادر تنظیموں کے لیے ہمیشہ نیک تمناؤں کا اظہار کرتی رہی ہے۔ حلقۂ احرار 10,9 اور 11 مارچ کے مبارک اجتماعات کو کانفرسوں کا ’’سہ روزہ‘‘ قرار دیتے ہوئے دعا گو ہے کہ اﷲ تعالیٰ تحریک ختم نبوت کی تمام جماعتوں کو مزید ترقی عطافرماویں اور ہم سب کو مل جل کر اس محاذ کے جدید تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مشترکہ جدوجہد کی طرف کوئی قدم بڑھانے والے بنا دیویں۔ اﷲ تعالیٰ آپ اور ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین، یا رب العالمین!