مکتوب نمبر: ۷
ڈاکٹر محمد آصف
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عزیز احمدی دوستو!
مرزا غلام احمد قادیانی 1893ء میں ایک کتاب لکھتے ہیں اور اس میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن کے اندر مہدی کے آنے کا ذکر ہے تُو خوب جانتا ہے کہ وہ تمام احادیث ضعیف اور مجروح ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف و معارض ہیں یہاں تک کہ ابن ماجہ اور دوسری کتابوں میں ایک حدیث یہ بھی موجود ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰؑ بن مریم پس احادیث کے اس شدید اختلاف، تعارض اور ضعف کے ہوتے ہوئے ان جیسی احادیث پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ ان احادیث کے راویوں پر بہت زیادہ کلام کیا گیا ہے جیساکہ محدثین پر مخفی نہیں۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ یہ تمام احادیث تعارض و تناقض سے خالی نہیں ہیں اس لیے ان سب احادیث کو چھوڑ دو اور حدیثی تنازعات کو قرآن پر پیش کرو اسے احادیث پر حکم بناؤ تاکہ تم رشد و ہدایت پانے والے ہو جاؤ۔ (حمامۃ البشریٰ روحانی خزائن جلد 7 صفحات 314 تا 315)
مرزا صاحب نے اپنی اس تحریر میں بلا استثناء ان تمام احادیث کو ناقابل اعتبار کہا ہے جن کے اندر ’’مہدی‘‘ کے آنے کا ذکر ہے اور اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ ایک تو یہ تمام احادیث ضعیف اور مجروح ہیں اور دوسرا ان احادیث کے اندر شدید اختلاف اور تعارض (تضاد) پایا جاتا ہے یعنی مرزا صاحب کا اصول حدیث یہ ہے کہ اگر مختلف روایات کے درمیان بظاہر تعارض (تضاد) نظر آتا ہو تو وہ تمام روایات ناقابلِ قبول ہو جاتی ہیں پھر مرزا صاحب یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ ان تمام احادیث کو چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع کیا جائے اور اس سے فیصلہ کیا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک میں دیکھا جائے کہ ’’مہدی‘‘ نے آنا ہے یا نہیں آنا؟ اس کا تعارف کیا ہے اس کی علامات کیا ہوں گی؟ وہ کس خاندان سے ہوگا۔ یہ سب باتیں ہمیں قرآن کریم سے پوچھنا ہوں گی۔
میرے محترم!
کیا قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت موجود ہے کہ جس میں یہ ذکر ہو کہ ’’ایک مہدی‘‘ نے آنا ہے؟ اس کی یہ علامات ہیں۔
الغرض! بتانا یہ مقصود ہے کہ حدیث مبارکہ بنفس نفیس حجت ہے مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی وہ قابل قبول نہیں ایک بے مطلب دعویٰ ہے۔ اور پھر وہ کرتے کیا ہیں کہ قرآن مجید کی آیات کی ایسی خودساختہ تشریح و تفسیر کرتے ہیں جو نہ صحابہ کرام نے کی اور نہ مرزا صاحب سے پہلے تیرہ سو سال میں کسی مستند اور مشہور مفسر نے کی، اس کے بعد یہ شور مچانا کہ فلاں فلاں حدیث چونکہ قرآن مجید کی فلاں آیت کے خلاف ہے لہٰذا یہ قابلِ قبول نہیں جبکہ حقیقت میں وہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ ان کی خود ساختہ تفسیر کے خلاف ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر مرزا صاحب نے امت مسلمہ کے اجماعی عقیدہ کے برعکس یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم فوت ہوچکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ نبی کریم نے تو خبر دی ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے تو مرزا صاحب نے کہ کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ ماننا قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن میں حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہوچکے ہیں اب انہوں نے کیا یہ کہ قرآن مجید کی مختلف آیات میں اپنی مرضی کی تفسیر پیش کرکے دعوے کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ (یہ الگ بات ہے کہ خود مرزا صاحب اپنی تقریباً 69 سالہ زندگی کے 52 سال حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتے تھے جو پوری امت اسلامیہ کا ہے) اور مرزا صاحب نے اپنی کتاب براہین احمدیہ (روحانی خزائن جلد نمبر۱، ص:۶۰۱) میں قرآن مجید کی آیات سے ثابت کیا ہے کہ (کوئی رسمی عقیدے کے طور پر وہاں بیان نہیں کیا) حضرت عیسیٰ دوبارہ نازل ہوں گے۔ اور مرزا صاحب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ براہین احمدیہ کی تالیف کے دوران سے مجھ پر وحی و الہام کا نزول شروع ہے اور براہین احمدیہ میں اپنی چند وحی و الہامات درج بھی کئے ہیں۔
والسلام علیٰ من التبع الھدیٰ