حامد میر
ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کے معاملے پر اسرار کے سائے لہرانے لگے ہیں۔ وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے باوجود یہ معاملہ آسانی سے ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ زاہد حامد سمیت مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے کئی وزراء کا شروع سے یہ کہنا تھا کہ ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی ایک کلیریکل غلطی تھی۔
بعد ازاں موقف تبدیل کرکے کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام ا رکان کو ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کا علم تھا لیکن اس وقت کسی نے اعتراض نہ کیا۔
اس کمیٹی میں شامل اپوزیشن ارکان کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کی اتحادی جے یو آئی (ف) کے ارکان کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے کسی بھی اجلاس میں ختم نبوت کا معاملہ کبھی زیر بحث نہیں آیا۔ جے یو آئی(ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور صاحبہ نے اپنی اتحادی جماعت کے تبدیل شدہ موقف پر حیرانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چند افراد کی غلطی سے ایک نان ایشو کو ایسا ایشو بنادیا گیا جس پر ملک بھر میں دھرنے اور گھیراؤ جلاؤ شروع ہوگیا۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی میں شامل حکومت اور اپوزیشن کے کئی ارکان سے استفسار پر معلوم ہوا کہ ان سب کی زیادہ توجہ انتخابی اصلاحات کے لمبے چوڑے بل کی اس ایک دفعہ پر مرکوز تھی جس کے تحت نا اہل شخص کو دوبارہ پارٹی صدر بنایا جانا تھا۔ اس سیاسی کشمکش کے ماحول میں کسی نے کاغذات نامزدگی میں موجود ختم نبوت کے حلف کا لفظ بدل دیا۔
جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ نے قومی اسمبلی میں یہ نکتہ اٹھایا تو شور شرابے میں کسی نے توجہ نہ دی۔ پھر سینیٹ میں جے یو آئی(ف) کے حافظ حمد اﷲ نے یہ معاملہ اٹھایا تو اراکین پارلیمنٹ کو پتہ چلا کہ ختم نبوت کا حلف بدل دیا گیا ہے، اگر یہ ایک کلیریکل غلطی تھی تو غلطی کی معافی مانگ لینی چاہئے تھی لیکن جب حکومت نے اس معاملے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ایک ۳۶رکنی کمیٹی پر ڈال دی تو معاملہ بگڑ گیا۔ اب مزید تحقیقات کا مطالبہ شدت پکڑ رہا ہے۔
یہ طے ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے اکثر ارکان کو ختم نبوت کے معاملے کی حساسیت سے آگاہی نہ تھی۔ ان ارکان نے ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی میں ختم نبوت پر ہونے والی بحث کی تفصیل پڑھی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ معاملہ صرف چند علماء نے نہیں اٹھایا تھا بلکہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے تمام ارکان نے بحث میں حصہ لیا تھا اور اتفاق رائے سے آئین کی دفعہ ۲۶۰میں ترمیم کرتے ہوئے احمدیوں اور بہائیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔
۳۰جون ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے جن ارکان نے ختم نبوت کا مسئلہ حل کرنے کے لئے قرارداد پیش کی ا ن کی تعداد بھی۳۶تھی۔ محرکین میں مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، چودھری ظہور الٰہی، سردار شوکت حیات، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، سردار شیر باز مزاری، عبدالحمید جتوئی، مولا بخش سومرو، علی احمد تالپور، رئیس عطاء محمد مری، صاحبزادہ صفی اﷲ، خواجہ جمال کوریجہ، محمد ابراہیم برق اور صاحبزادہ نذیر سلطان کے علاوہ دیگر شامل تھے۔ صاحبزادہ نذیر سلطان موجودہ قومی اسمبلی کے بھی رکن ہیں۔
قومی اسمبلی کے کمرہ بند اجلاس میں کئی روز تک اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد پر جرح کی اور آخر کار وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے ترمیمی بل پیش کیا جو منظور ہوگیا۔ آج کی پیپلز پارٹی کے اکثر رہنماؤں کو یہ معلوم نہیں کہ ختم نبوت پر ہونے والی بحث میں پیپلز پارٹی کے ایک بانی رکن اور وزیر ثقافت و سائنس ملک محمد جعفر نے بھرپور حصہ لیا۔ ملک محمد جعفر نے ختم نبوت کے مسئلے پر ۵ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی میں تفصیلی خطاب کیا جو قومی اسمبلی کی مطبوعہ کارروائی کی جلد پانچ میں موجود ہے۔ ملک محمد جعفر کا اپنا تعلق جماعت احمدیہ سے رہ چکا تھا۔ انہوں نے میٹرک قادیان سے کیا تھا لیکن بعدازاں انہوں نے احمدیت چھوڑ دی جس پر میجر جنرل عبدالعلی سمیت کئی احمدی رشتہ داروں نے ملک محمد جعفر کو چھوڑ دیا۔ ملک صاحب ایک سوشلسٹ تھے لیکن انہوں نے احمدیہ تحریک پر ایک کتاب لکھی جس میں احمدیوں کی تضحیک کئے بغیر دلائل کے ساتھ ان کے عقائد پر بحث کی گئی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بار بار اس کتاب کو شائع کرچکی ہے۔ اس کتاب کا ذکر میں نے ملک محمد جعفر کے بارے میں ایک کتاب’’جن روزوں درویش ہوئے ہم…..‘‘ میں پڑھا جو ملک صاحب کی صاحبزادی ساجدہ جعفر نے مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں آئی اے رحمان صاحب نے ملک محمد جعفر کے متعلق لکھا کہ ملک صاحب کی جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی آزادی رائے کی خاطر اپنا مسلک چھوڑ دیا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے صحیح کیا یا غلط لیکن جس آدمی میں اتنی جرأت ہو کہ اپنا آبائی مسلک چھوڑ دے میں اس کی بہت عزت کرتا ہوں۔ ملک صاحب نے آئی اے رحمان اور غنی جعفر کے ساتھ مل کر قائد اعظم کی اسمبلی میں کی گئی تاریخی تقاریر پر مشتمل ایک کتاب’’جناح ایز اے پارلیمنٹیرین‘‘ بھی مرتب کی۔ ملک صاحب کی فیض احمد فیض سے بڑی دوستی تھی۔ ساجدہ جعفر کی کتاب میں ملک صاحب کے بارے میں سلیمہ ہاشمی کا بھی ایک مضمون شامل ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اباّ اور انکل جعفر ایک ہی طرح کے انسان تھے۔
دونوں کا سیاسی نظریہ ایک ہی تھا۔ دونوں کا دھیما پن ایک ہی جیسا تھا۔ دونوں کے ذہنوں میں وسعت اور صبرتھا۔ فیض کے سیاسی نظریے پر یقین رکھنے والے ملک محمد جعفر نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ اور اسرائیل کے درمیان روابط اس ایوان کے سامنے آچکے ہیں، ان روابط کی تحقیقات کی جائیں۔واضح رہے کہ ۲۰ اگست ۱۹۷۴ء کو اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قومی اسمبلی میں مرزا ناصر احمد سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کا اسرائیل میں مشن موجود ہے۔ مرزا ناصر احمد نے جواب میں کہا وہاں ہماری جماعت موجود ہے کیونکہ اسرائیل میں بھی تو مسلمان رہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا فلسطینی مسلمان اسرائیل کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں لیکن آپ کے نمائندوں کی اسرائیل کے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے آپ پر اتنی عنایات کیوں؟ مرزا ناصر احمد نے کہا کہ ہمارے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جو لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ ۱۹۷۴ئمیں ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی جماعتوں کے دباؤ پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا وہ قومی اسمبلی میں ختم نبوت کی کارروائی کے علاوہ ملک محمد جعفر کی کتاب ’’احمد یہ تحریک‘‘ پڑھنے کی زحمت گوارا کرلیں۔
اس کتاب میں ملک محمد جعفر نے احمدیوں کے ساتھ ظلم و جبر کی بجائے نرم رویہ اختیار کرنے کی تجویز دی۔ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے آخر میں ملک محمد جعفر نے تجویز پیش کی تھی کہ پبلک سرونٹس کے لئے ایک خصوصی حلف ہونا چاہئے جس کے تحت وہ قسم اٹھائیں کہ وہ اپنے کسی مذہبی، فرقہ وارانہ، روحانی گروہ، تنظیم یامسلک وغیرہ کے مفادات کو پاکستان کے ریاستی مفاد پر ترجیح نہیں دیں گے۔
اپنی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک ادارہ قائم کرے جو اسلام کے بنیادی عقائد اور خصوصاً عقیدہ ختم نبوت کی تبلیغ و اشاعت کرے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان سے گزارش ہے کہ آج کل وہ پارٹی کی پچاسویں سالگرہ منارہے ہیں۔ اپنی پارٹی کے ایک بانی رکن کی کتاب اور قومی اسمبلی میں ختم نبوت پر ان کی تقریر کو ایک دفعہ پڑھ لیں اور باقی جماعتوں کے ارکان کو بھی پڑھائیں تو سب کو فائدہ ہوگا۔ ختم نبوت کا مسئلہ آئین میں طے کیا جاچکا ہے۔ احمدی غیر مسلم قرار دئیے جاچکے ہیں لیکن آئین کے تحت وہ پاکستان کے شہری ہیں اور ان کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عام مسلمانوں کو اسلام کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہئے یہ مطالعہ انہیں فتنہ پھیلانے والوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
(مطبوعہ: روزنامہ جنگ، ۳۰؍ نومبر ۲۰۱۷ء)