طیب علی تگہ
(گذشتہ روزوں اردو بلاگنگ کی معروف آزاد خیال ویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ پر لطف الاسلام نامی ایک قادیانی لکھاری نے اسلام آباد فیض آباد دھرنے کے بعض شرکاء کی غیر محتاط گفتگو کے تناظر میں ایک مضمون گھسیٹا جس میں اپنی چوٹوں کو یاد کرتے ہوئے احرارِ اسلام پر اپنے پرانے کینے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور مفتریانہ تحریر کے جواب میں کچھ مسلمان اہلِ قلم نے جواب دیا تو موصوف جواب الجواب پر اتر آئے، زیر نظر تحریر ان تین اقساط پر مشتمل ہے جنھیں جناب طیب علی تگہ نے تحریر کیا اور لطف الاسلام کی ہذیانی کیفیت میں الاپے گئے راگوں راگنیوں کا تعاقب کیا۔ مضمون کا پہلا حصہ لطف القادیان کی پہلی بے سری استھائی کی تردید میں ہے اور دوسرا حصہ دوسرے آئٹم کے جواب میں ہیں۔ ان تینوں اقساط کو ہم سب کی ویب سائٹ سے ہی لیا گیا ہے۔ ادارہ)
سوشل میڈیا کے ایک معروف انٹلیکچول تھڑے ’’ہم سب‘‘ پر لطف الاسلام صاحب کا بازاری جگتوں اور پھبتیوں سے لیس کالم نظر سے گزرا۔ رائٹر موصوف نے بات آغاز تو خادم رضوی سے کی لیکن بہ یک زقند ہاتھ مرحوم بزرگوں کی دستار پر ڈال دیا۔ جی ہاں صاحب نے کچھ اس طرح سید عطاء اﷲ شاہ بخاری و شورش کاشمیری پرسبّ و شتم، الزام و دشنام کے تیر برسائے ہیں اور بے سروپا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ڈاکٹر گوئبلز کی روح انھیں ہاتھ باندھ کر پرنام کر رہی ہو گی! اگرموصوف شاہ جی اور شورش کاشمیری کی سیاست و خطابت اور دینی و قومی جدوجہد سے اتنے ہی بے خبر ہیں تو انھیں ایسے اذعانی لہجے میں ان بوریا نشین فقیروں پر اتہام باندھنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ بہ ایں صورت انھیں نرم سے نرم الفاظ میں تاریخ سے بے خبر اور علمی بددیانتی کا مرتکب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر تاریخ و سیاسیات سے موصوف اتنے ہی نابلد ہیں تو انھیں کوچہ صحافت میں آوارہ خرامی کرنے کی بجائے کوئی اور ڈھنگ کا کام کرنا چاہیے۔ یوں برسرعام تاریخی حقائق کا منہ چڑانا، اپنے من مرضی کے مطالب اخذ کرنا اور پھر خطابت و حریت کے لیجنڈز کا بوزنوں سے موازنہ، قلم سے ازاربند ڈالنے والے صحافیوں کا شیوہ ہوا کرتا ہے!
موصوف تحریکاتِ ختمِ نبوت کی بابت رقم طراز ہیں:
’’ختم نبوت کی تحریکیں ایک عرصہ سے ملک میں جاری ہیں اور اس سے وابستہ مولویوں کی کئی نسلیں اپنی روزی روٹی اسی فن تقریر پر چلاتی رہی ہیں۔‘‘
ملاحظہ کیجیے کہ ایک سانس میں صاحب کیا کچھ کہہ گئے۔ ختمِ نبوت کی تحریکیں اپنے اپنے وقت کے جید علمائے کرام کی نگرانی و سرپرستی میں چلتی رہی ہیں جن کے تقوی و تدیّن، درویشی و سادگی کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں، ان رجالِ علم پر یہ اتہام کہ انھوں نے تحریکاتِ ختم نبوت سے اپنی نسلوں کے لیے روزی روٹی کا سامان بہم پہنچایا ہے، انتہا درجے کی جہالت اور حقائق سے ناواقفیت ہے!
یادش بخیر! ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ میں جب مفکرِ احرار چودھری افضل حق اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری پر میاں امیرالدین کی سراپا کذب و افتراء تحریرات کا سہارا لے کراسی طرح کے الزامات لگائے تھے تو شورش کاشمیری نے اس کا جواب اپنے مخصوص انداز میں کچھ اس طرح دیا تھا:
’’چودھری افضل حق اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے بارے میں یہ سوچنا بھی گناہِ عظیم ہے کہ وہ ’’جلبِ منفعت‘‘ یا ’’حصولِ زر‘‘ کے آدمی تھے، یہ بکنے والے ہوتے تو خریدنے والے خود بِک بِک کر انھیں خریدتے! ایڈیٹر چٹان ان بزرگوں کے ساتھ برسوں رہا، انھیں قریب سے دیکھا۔ ربِ ذوالجلال گواہ ہیں کہ جن بزرگوں کے کفن کو ڈاکٹر صاحب نے میلا کرنا چاہا، وہ ’’صحابہ کی مثال‘‘ تھے۔ ان کی غیرتیں جوان اور حمیتیں بے داغ تھیں۔ ایک شخص جو مورخ بننے کے سفر کو نکلا ہو اس کو ان باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو صداقت کے چہرہ پر برص کا داغ ہیں اور جن کی روایت کا شعلہ کجلا گیا ہے۔ شورش کاشمیری مدتوں چودھری افضل حق اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے خوانِ رفاقت کا خوشہ چیں رہا ہے، ان سے غیرت و حمیت کے معنیٰ سیکھے، انھیں دیکھا اور بے اختیار ان کے سانچے میں ڈھلنا چاہا۔ وہ کون کباڑیے تھے جن کے مالِ غنیمت پر ان کی نگاہ تھی؟ یہ لوگ فقر و استغناء کا پیکر تھے، انھوں نے عمر بھی دولت سے نفرت کی۔ وہ لوگ جو ان کے اخلاص و استقامت پر حملہ زن ہوتے ہیں انھیں غالبا معلوم ہی نہیں کہ ان لوگوں نے ہمیشہ انھیں اس طرح سمجھا گویا بہ قولِ علامہ اقبال: ’’یہ لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے!‘‘
ایک منصف مزاج شخص جب کسی گروہ یا طبقے پر قلم اٹھاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس گروہ اور طبقے کے صرف ان لوگوں کو ہی مثال کے طور پر پیش نہ کرے جو عامی ہیں یا جن کا ظاہری حلیہ انھیں اس طبقے میں شمولیت کی سندِ جواز مہیا کرتا ہے۔ مذہبی حلقوں میں بھی یقینا اس طرح کے عامی موجود ہیں جو نہ تو دینی علوم میں رسوخ رکھتے ہیں اور نہ ہی مجتہدانہ نگہ و بصیرت! لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کس شعبہ میں ایسے افراد نہیں پائے جاتے؟ کیا ہمارے ہاں کے لبرلز اور سیکولرز اس سے مبرا ہیں؟ کیا ان میں موجود ہر لبرل نے جان لاک، مانٹیسکو، روسو، جے ایس مِل اور پھر جان رالز کو بالاستیعاب پڑھ رکھا ہے؟ کیا سائنس پر ایمان بالغیب رکھنے والے ہمارے جدیدیت پسندوں نے فلاسفی آف سائنس کے مباحث ازبرکر رکھے ہیں جو فائن مین، اے ایف چامر، لیکا ٹوش اور مارٹن ہائیڈیگر نے چھیڑے ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو ہدفِ تنقید صرف مُلا کیوں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس طرح بغیر امتیاز علماء کے خلاف جو باتیں عام طور پر کہی جاتی ہیں ان کی غرض و غایت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو ظاہری طور پر بیان کی جاتی ہیں!
آخر کالی بھیڑیں کس گروہ میں نہیں؟ لیکن زبانِ طعن دراز کرنے کے لیے علماء کو ہی مشقِ ستم بنایا جاتا ہے!
بقول شورش کاشمیری:
’’بعض شب کور نقادوں نے اپنی نفسی کوتاہیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے نہ صرف مُلا کو ہدفِ تنقید بنایا بلکہ اس کی آڑ میں ان صلحائے امت کو بھی رگیدا جن کا تنہا قصور یہ تھا کہ وہ انگریزی حکومت اور اس کی بیوروکریسی کے خلاف لڑتے رہے۔ جن علماء نے تکفیر المسلمین میں ظالمانہ حصہ لیا ان کے خلاف سیاست دانوں میں کبھی مزاحمت یا مدافعت کی کوئی آواز نہیں اٹھی مگر جن علماء نے قربانی و ایثار کی زندگی بسر کی یا یورپی دانشوروں کی اس کھیپ کو اس کے اعمال و افعال پر ٹوکا، ان کے خلاف سب و شتم کے بازار میں ہمیشہ ہی رونق رہی ہے‘‘
ملک بھر کی جامعات دیکھ لیجیے، ہر جگہ دوچار ماہرینِ فن کو چھوڑ کر باقی جو ڈھیر آپ کو ملے گا وہ علم کے نام پر بدترین جہل کی مثال ہے اور جہل بھی جہلِ مرکب و مختلط! خود ہمارے ہاں کے سیکولرز و لبرلز کو ہی دیکھ لیجیے، مجال ہے ان کے ’’جمِ غفیر‘‘ میں سے سوائے ایک آدھ کے کسی نے لبرلزم پر مغرب میں لکھی جانے والی دو سطریں بھی پڑھ رکھی ہوں، یہ صاحبان کسی تحقیق کے نتیجے میں لبرل ازم کے حلقہ بگوش نہیں ہوئے بلکہ اس معاملے میں یہ ’’مقلدِ محض‘‘ واقع ہوئے ہیں کہ دیکھا دیکھی مغرب کے اس دین پر ایمان بالغیب لے آئے ہیں۔ ان مقلدِ محض گھامڑوں کے نزدیک لبرل ازم محض ملا پر زبانِ طعن دراز کرنے اور دین و مذہب اور شعائرِ دین کا ٹھٹھا اڑانے کا نام ہے۔ ہمیں محترم کالم نگار کے علمی حدوداربعہ بارے معلوم تو نہیں تاہم جو لولوئے لالہ انھوں نے اپنی اس تحریر میں بکھیرے ہیں ان سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ علم و تحقیق سے ان کا تعلق اتنا ہی ہے جتنا گاندھی جی کا دو قومی نظریہ سے!
آگے چل کر موصوف کا قلم پھر گلکاریاں کرتا ہے، سو فرماتے ہیں:
’’شاہ جی کو گالی گلوچ کا ملکہ حاصل تھا اور پاکستان کی تحریک کی مخالفت میں شاہ جی نے کئی بار زبان دراز کی۔‘‘
موصوف کی ’’گلفشانی گفتار‘‘ ملاحظہ کی آپ نے! بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب کی بابت کس لہجے میں بہتان تراشا ہے! یہ الزام اس شخض پر لگایا جا رہا ہے، جو اپنے عہد کا فصیح البیان بھی تھا اور زبان جس کے گھر کی لونڈی تھی۔ احباب کو شاد عظیم آبادی تو یاد ہی ہوں گے، شاد عظیم آبادی پٹنہ میں حضرت شاہ جی کی نانی محترمہ سے اشعار اور زبان کی اصلاح لیا کرتے تھے! اردو زبان کا کون سا ایسا بڑا ادیب، شاعر، نقاد ہو گا جس کے شاہ جی سے نیازمندانہ مراسم نہ رہے ہوں اور اس نے شاہ جی کے حضور اپنی عقیدت کے چراغ نہ روشن کیے ہوں۔ نام گنوانے پر آؤں تو ایک طویل فہرست صرف برعظیم پاک و ہند کے ادباء و شعراء کی ہے جنھوں نے شاہ جی کی ہمہ جہت شخصیت کو اپنے اپنے انداز سے عقیدت کا خراج پیش کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ جی کا احترام یکساں طور پر ہر طبقے کے لوگوں میں پایا جاتا تھا، آپس کی نظریاتی بحثیں چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہوں، لیکن شاہ جی کے احترام میں ایک دوسرے کے نظریاتی مخالف بھی ایک صف میں نظر آتے ہیں، اقبال، فیض، حفیظ، ساحر، مہر و سالک، پطرس بخاری، ایم ڈی تاثیر، سبطِ حسن، عدم، سیف الدین سیف، عبداﷲ ملک۔ غرض کتنے ہی نام ہیں جنھیں پیش کیا جا سکتا ہے۔
رہی تحریکِ پاکستان کی مخالفت تو عرض یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان ایک سیاسی تحریک تھی، جس کی مخالفت ہرگز کفر و شرک نہیں اور نہ ہی کوئی انسان محض اس لیے قابلِ گردن زدنی ہو جاتا ہے کہ اس کا سیاسی موقف مسلم لیگ کے موقف سے الگ اور جدا تھا۔ شاہ جی ایک صاحبِ بصیرت سیاسی رہنما تھے جنھوں نے علیٰ وجہِ البصیرت مسلم لیگ سے اختلاف کیا اور سیاسی اختلافِ رائے کی بنیاد پر ستر سال گزر جانے کے بعد ایک جماعت یا شخص کو مطعون کرنا بذاتِ خود ایک انتہاپسندانہ رویہ ہے جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ حب الوطنی کی ٹھیکیداری کے جملہ حقوق صاحبِ مضمون یا ان ایسے دیگر ’’محققین‘‘ کے نام بہرحال نہیں ہیں!
آگے چل کر صاحبِ مضمون نے تحریکِ ختمِ نبوت 1953 میں شاہ جی اور احرار رہنماؤں پر منیر انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں جو تبرا کیا ہے۔ اس کی حقیقت بھی ملاحظہ کر لیجیے۔ واقعہ یہ ہے کہ منیر انکوائری کمیشن رپورٹ کی بنیاد پر شاہ جی اور دیگر احرار رہنماؤں کی سیرت اخذ کرنا اور پھر اس پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھنا ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ممدوح ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کی طرف سے پرانوں اور رگ وید سے توحید ’’برآمد‘‘ کرنا! طوالت کا خوف حائل نہ ہوتا تو ہم منیر انکوائری کمیشن رپورٹ پر ایک مفصل تجزیہ اپنے قارئین اور صاحبِ مضمون کی خدمت میں پیش کرتے۔ سرِ دست اتنا کہنے پر ہی اکتفا کریں گے کہ اس رپورٹ کا غالب حصہ جانبدارانہ آلائشوں کا حامل ہے اور کسی لحاظ سے بھی اسے کسی جج کا تجزیہ نہیں کہا جاسکتا لیکن ستم ظریفی تو یہی ہے کہ اس کے مرتبین جج تھے!
ڈاکٹر جاوید اقبال (پسرِ اقبال) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو اسلام کے خلاف خود مسلمان ججوں کے قلم سے نکلی ہے۔ اس کی اشاعت روک لی جائے بلکہ اس کتاب کو ضبط ہونا چاہیے۔ شورش کاشمیری روایت کرتے ہیں کہ ایک بار جسٹس ایم آر کیانی نے عندالملاقات انھیں کہا تھا کہ وہ اس کتاب کی اشاعت سے پریشان و پشیمان ہیں اور جو حصہ اس میں اسلام کے خلاف ہے وہ جسٹس منیر کے قلم سے ہے۔
شورش کاشمیری اس رپورٹ کی بابت لکھتے ہیں:
’’تمام رپورٹ میں ضروری شہادت کا مدار زیادہ تر سی آئی ڈی کی رپورٹوں پر ہے اور ان کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا سی آئی ڈی سے زیادہ ناکارہ عنصر ملک بھر میں شاید ہی ہو۔ ان رپورٹوں کا لب و لہجہ غایت درجہ معاندانہ بلکہ بڑی حد تک احمقانہ تھا۔سی آئی ڈی نے احرار کو شروع ہی سے ہدفِ مطاعن بنائے رکھا۔ اس نے اصل نزاع کو سمجھنے کی بجائے صرف احرار کو ملزم گرداننے کی کوشش کی۔ اس کا طریق فکر ایک ایسے ناول نگار کا ہے جو ایک خاص ذہنی فضاء تخلیق کر کے اچھے برے کردار پیدا کرتا ہے اور اپنے زورِ بیان کی نمائش کرتا ہے۔ احرار کے باب میں سی آئی ڈی کا قلم جراح کا نشتر نہیں، حلال و حرام سے بے نیاز قصاب کا چھرا ہے۔ اس نے فوٹو گرافی کے بجائے مصوری کے فرائض اپنے اوپر تھوپ لیے تھے اور جس طرح چاہا ویسی تصویر بنا کر بزعمِ خویش اپنے قلم کی داد حاصل کی۔نظر بہ ظاہر اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ قادیانی، حکومت کے مختلف صیغوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائض تھے اور افسرانِ مجاز ان کے شعوری یا غیر شعوری احترام یا خوف میں محصور تھے۔ دوسری طرف احرار سیاست میں ایک شکست کھائی ہوئی جماعت تھے۔ اس لیے جو بھی ثقہ و غیر ثقہ روایت مل گئی اس کو اس مفروضہ پر جوڑ بٹور لیا کہ تحریک پاکستان کے سلسلہ میں احرار سے لیگ کی ناراضی کا اجتماعی ذہن اس کی توثیق و تسلیم کے لیے کافی ہو گا۔‘‘
صاحبِ مضمون نے جس نکتے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ انکوائری رپورٹ کے حوالے سے شاہ جی کے مبینہ جھوٹ اور اشتعال انگیزی پر مبنی جملے ہیں جن میں ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ الزبتھ کا غیر محتاط الفاظ میں تذکرہ شامل ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لطف صاحب نے عین وہ نکتہ اعتراض کے طور پر اٹھایا ہے جو اس رپورٹ میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی اٹھاتے ہیں اور بار ہا اس پر اظہارِ خفگی بھی فرماتے ہیں کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ کا ذکر قابلِ اعتراض طریق سے کرتے ہیں۔ لیکن سی آئی ڈی کے اس ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی یاداشتوں میں اس سیاق و سباق کا ذکر سرے سے مفقود ہے جس کے تحت ملکہ کا ذکر کیا جاتا رہا، ہاں ’’صاحب بہادر‘‘ کو بہرحال اصرار تھا ملکہ معظمہ کی توہین کی جاتی ہے۔
شورش کاشمیری رقم طراز ہیں:
’’خلاصہ یہ کہ سی آئی ڈی کے افسران کو مرزا غلام احمد و سرظفراﷲ خان وغیرہ کے بارے میں احرار رہنماؤں کے لب و لہجہ پر اعتراض تھا لیکن اپنی یاداشتوں میں جو گندے الفاظ احرار بالخصوص سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے متعلق استعمال کیے اور ان میں ٹکسالی زبان کے جو نوادر ڈھالے، ان کے بارے میں غالبا کبھی غور نہیں کیا تھا۔‘‘
قصہ کوتاہ منیر انکوائری کمیشن رپورٹ مجموعہ اغلاط و تضادات ہے جس سے استدلال کی کوئی علمی حیثیت نہیں!
(۲)
شاہ جی اور شورش کی میراث …… چند حقائق
چند روز قبل‘‘ہم سب’’پر ایک صاحب نے اپنی ایک تحریر پر ہمارے ملاحظات کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ ہمیں بے اختیار یہ شعر یاد آیا:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
’’شاہ جی اور شورش کی میراث‘‘کے عنوان سے اپنے اس مضمون میں انھوں نے نہایت چابک دستی سے خود کو’’غیر جانبدار‘‘کی حیثیت سے پیش کیا اور بزعمِ خویش یہ نتیجہ نکالا
شاہ جی، شورش اور دیگر احرار رہنما مغلظات بکنے کے عادی تھے، بدزبان اور فحش گو تھے۔ مذہب کے نام پر پنجاب کے عوام کو بہکایا کرتے تھے۔ انگریز سرکار کے ڈر سے قتل کے فتوے جاری کرنے سے گریزاں رہتے، لیکن قاتلین کو غازی اور شہید کے تاج بھی پہنایا کرتے۔چندہ خور تھے اور مالی خرد برد میں ملوث تھے۔
ذیل میں ہم صاحبِ مضمون کے ان تمام دعاوی کی قلعی کھولنے کی کوشش کریں گے جو انھوں نے ’’شاہ جی اور شورش کی میراث‘‘ میں کیے ہیں اور تاریخی شواہد سے یہ ثابت کریں گے کہ
٭ مغلظات بکنے، فحش گوئی اور بدزبانی میں کون اُتارو تھا اور من حیث الجماعت یہ کس ٹولے کا طرہ امتیاز رہا؟
٭ مذہب کے نام پر پنجاب کے عوام کو کس نے بہکایا اور الو بنایا؟
٭ کون سا ٹولہ تھا جو انگریز سرکار کے عہد سے ہی اپنے مخالفین کو قتل کروا رہا تھا؟
٭ چندہ خور کون تھا، مالی معاملات میں خردبرد میں کون ملوث رہا، آف شور کمپنیاں کس کی نکلیں، شاہ جی و شورش اور ان کے خانوادے کی یا جماعتِ احمدیہ کے بزرجمہروں کی؟
موصوف نے اپنے سابقہ اور موجودہ مضمون میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور دیگر احرار رہنماؤں کی بابت جس نکتہ کو بطور اعتراض اٹھایا ہے وہ شاہ جی کی مبینہ ’’بدزبانی، گالم گلوچ اور فحش گوئی‘‘ ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں وہ ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی ان دونوں مضامین میں انھوں نے شاہ جی کی کسی ایک گالی کا حوالہ دیا ہے۔ اپنے حالیہ مضمون میں تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنے رخ سے نقاب بھی اتار دیا ہے
’’راقم کا تعلق جس طبقہ سے ہے اس کا اوڑھنا بچھونا ہی تحمل اور کشادہ دلی اور کشادہ خیالی ہے۔ جو دوست اس مغالطے کا شکار ہوں کہ ان اصحاب پر تنقید بے جا کی گئی ہے وہ تصحیح فرما لیں۔ اور یہ بھی دیکھ لیں کہ جماعت احمدیہ کا رویہ احرار کے لیڈروں سے نہ صرف مہذبانہ رہا ہے، بلکہ بوقت ضرورت ان سے احسان کا سلوک بھی رکھا گیا۔‘‘
چلیں ہم یہاں یہ مان لیتے ہیں کہ شاہ جی اور دیگر احرار رہنما برطانوی سامراج اور اس کے سیاسی و مذہبی لے پالکوں کے لیے زبان کے استعمال میں قدرے غیر محتاط واقع ہوئے تھے لیکن شاہ جی تو ٹھہرے چودھویں صدی کے ایک مسلمان، جن کا واحد آسرا خاتم المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت تھی اور بس! ہم نہ تو شاہ جی کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی عصمت و معصومیت کے قائل ہیں اور نہ ہی شاہ جی نے کبھی ایسا دعویٰ کیا۔
لیکن صاحبِ مضمون جن صاحب کومہدیٔ معہود اور مسیحِ موعود مانتے ہیں، جنھیں صاحبِ مضمون سمیت تمام احمدی’’سلطان القلم‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں، انھوں نے اپنے مخالفین نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ دین کی بنیادی ستون ہستیوں کے لئے جو زبان استعمال کی ہے، کیا وہ آئینِ شرافت کے عین مطابق ہے؟ کیا نبی کی زبان ایسی ہوا کرتی ہے؟ جو’’لولوئے لالہ‘‘مرزا صاحب نے اپنی تحریروں میں بکھیرے ہیں، واقعہ یہ ہے پڑھ کر ایک شریف النفس انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان کی بعض تحریریں تو اس قدر فحش اور بازاری ہیں کہ مجمع عام تو درکنار اکیلے پڑھنے میں بھی ندامت محسوس ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرزا صاحب کے ناوکِ دُشنام سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا! مرزا صاحب کی محبوب گالیاں تو بہت سی تھیں لیکن اپنے مخالفین و منکرین کے لیے ’’زانیہ عورتوں کی اولاد‘‘ان کی سب سے زیادہ محبوب گالی تھی۔ دوسری گالی جس سے مرزا صاحب کا نطق تسکین پاتا، وہ ’’حرام زادہ‘‘کا لفظ تھا۔ آپ کوشاہ جی، شورش اور دیگر احرار رہنماؤں کی مبینہ دشنام طرازی پر اعتراض ہے، چلیے وہ سب تو ٹھہرے اس دور کے مسلمان، لسانِ نبوت تو ایک عام گناہ گار مسلمان کی زبان سے بہرحال اعلیٰ و ارفع ہونی چاہیے نا!
جماعتِ احمدیہ کے مدار المہام اور استعماری ٹکسال میں ڈھلے ہوئے مرزا غلام احمد صاحب کی ’’کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی زبان‘‘ ملاحظہ کیجئے اور سر دھنیے!
’’یہ میری کتابیں ہیں جن کو ہر مسلمان دوستی اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میری تصدیق کرتا ہے اور ان کتابوں میں، میں نے جو معرفت کی باتیں لکھی ہیں، ان سے نفع اٹھاتا ہے، مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں) کی اولاد کہ وہ قبول نہیں کرتے۔‘‘(آئینہ کمالاتِ اسلام/ دافع الوساوس، روحانی خزائن جلد 5، ص 547)
بتائیے صاحب! یہ نبوی اخلاق ہیں؟ یہ معاذاﷲ نبوت کی زبان ہے؟ قارئین انصاف کیجیے کہ ہم مسلمانوں نے مرزا صاحب کا کیا قصور کیا تھا کہ اس شخص نے ہمیں’’ذریۃ البغایا‘‘کی گالی دی؟
لطف کی بات یہ ہے کہ خود مرزا صاحب ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔‘‘(ست بچن، روحانی خزائن، جلد 10، ص 346، مطبوعہ لندن)
اپنے اس ’’ارشاد‘‘کی روشنی میں مرزا صاحب اور ان کے پیروکار مرزا صاحب کے لیے کیا القابات پسند فرمائیں گے؟
مزید ملاحظہ کیجیے:
’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔ ‘‘
(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن، جلد 14، ص 53، مطبوعہ لندن)
کیا شاہ جی، شورش یا کسی احرار رہنما نے کبھی مرزا صاحب یا ان کے متبعین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے؟ قادیانی عورت کو ’’کتیا‘‘یا قادیانیوں کو’’جنگلوں کے سور‘‘ کہا؟ مرزا صاحب کے ماننے والوں کو کبھی کسی احراری نے کنجریوں کی اولاد کہا؟ نہیں اور ہرگز نہیں
مرزا صاحب کی ’’پاک صاف‘‘ زبان کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے:
’’اور (جو) ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔۔۔۔۔ ورنہ حرام زادہ کی یہی نشانی ہے سیدھی راہ اختیار نہ کرے۔‘‘
(انوار الااسلام، روحانی خزائن، جلد 9، ص 31، 32، مطبوعہ لندن)
مرزا صاحب کی ’’خوش اخلاقی و حسنِ گفتار‘‘ ملاحظہ کیجیے کہ انھوں نے جب اپنے ایک مخالف کے لیے لعنت کا لفظ استعمال کیا تو بجائے یہ کہنے کہ تجھ پر ہزار بار لعنت ہو، باقاعدہ لعنت کی بوچھاڑ کر دی اور تقریبا چار صفحات لعنت لعنت لعنت لکھتے چلے گئے اور گن کر ایک ہزار بار لعنت کا لفظ استعمال کیا! ستم ظریفی یہ ہے کہ صاحبِ مضمون اور ان ایسے مرزا صاحب کے گھامڑ مریدین پھر بھی ایسے شخص کو’’سلطان القلم‘‘ سمجھتے ہیں!
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
لعنت بازی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں:نور الحق، روحانی خزائن، جلد 8، ص 158-162، مطبوعہ لندن۔
معاف کیجئے! شاہ جی اور ان کے رفقاء نے کبھی مرزا صاحب یا ان کے ٹولے کے لیے اس طرح لعنت لعنت لعنت کی گردان نہیں کی۔ حالانکہ مرزا صاحب کے لیے سخت سے سخت زبان بھی استعمال کی جاتی تو شاید پھر بھی کمی رہتی۔ اب ایسے شخص جو نبی ہونے کا مدعی ہے، کے بارے میں کیا زبان استعمال کی جائے؟ انسانیت کے کس مقام پر اس کو درجہ دیا جائے اور کیا درجہ دیا جائے؟ کیا یہ کسی شریف آدمی کی زبان ہے؟ کیا ایسے آدمی کو شریف کہا جا سکتا ہے؟
یہ تو تھا برطانوی استعمار کے بغل بچے، پنجابی نبی کا لہجہ و دشنام طرازی، اب ایک جھلک شاہ جی کے ایک خطیبانہ شہ پارے کی طرف بھی، جعلی نبی اور حلقہ بگوشِ محمدِ عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان کا فرق صاف دیکھا جا سکتا ہے:
’’تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا، قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریری و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے۔۔۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا، چھاتی 45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتا نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، مردِ میدان ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپئیر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟۔۔۔۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر علیؓ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی نے دی، سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انھیں نبی مان لیتا؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی ایسا انسان نہیں جو تختِ نبوت پر سج سکے اور تاجِ امامت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔‘‘
(خطاب: امیرِ شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، ستمبر 1951، کراچی)
لیجیے صاحب! مرزا صاحب کی تحریریں اور شاہ جی کی تقریر کا اقتباس پڑھنے کا بعد خود فیصلہ کر لیجیے کہ مغلظات کون بکتا ہے، گالم گلوچ کس کی فطرت اور خمیر کا حصہ ہے! ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کرتے، قارئین خود محسوس فرمائیں گے کہ مرزا صاحب کی تحریروں کے اقتباسات سے طبیعت میں جو یبوست و انقباض پیدا ہوا اور جس طرح طبیعت منغض ہوئی، شاہ جی کی رواں دواں، گنگا جمنی زبان سے وہ کیفیت جاتی رہی ہے!
یہاں یہ بات کافی اہم ہے کہ مرزا صاحب کی ہرزہ سرائی اور دریدہ دہنی یوں ہی بلا مقصد نہیں تھی، بلکہ یہ خوب سوچ سمجھ کر کی گئی تھی۔ اس باب میں مرزا صاحب اپنے آقا انگریز بہادر کے پے رول پر تھے۔ اس لیے استعماری حکومت مرزا صاحب کی اس زبان کا حوصلہ بڑھاتی۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:
’’واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق انتہائی نازیبا زبان استعمال کر کے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف عیسائی مشنریوں کی زبان کھلوائی اور مسلمانوں کی ذہنی زندگی کو ایک ایسے الجھاؤ میں پھنسا دیا جس کا بدیہی نتیجہ ان حالات میں انگریزی حکومت کی مصلحتوں کے لیے نفع آورتھا۔‘‘
اسی طرح راج پال اور بعض دوسرے شاتمان رسول کے فتنے کا سرِ آغاز بھی درحقیقت مرزا صاحب کے ہندو دھرم پر رکیک حملے تھے۔ ہندوؤں میں آریہ سماج ایک ترقی پسند فرقہ اپنی ابتداء میں تھا، سوامی دیانند اس کے بانی تھے، مرزا صاحب نے اس فرقہ کو ہدف بنا کر ہندو دھرم پر گھٹیا حملے کیے۔
شورش لکھتے ہیں:
’’نتیجتاً آریہ سماج نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن و اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا آغاز کیا اور عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا کہ اسلام میں پیغمبروں کی زبان یہی رہی ہے اور جو شخص خود کو محمدِ عربی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا’’ظل و بروز‘‘کہتا ہے، اس کی زبان اتنی غلیظ ہے، تو جس کا’’بروز و ظل‘‘ہے، اس کی زبان (خاکم بدہن) کیا ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدگوئی کی مہم کا سبب مرزا صاحب کے یہی مباہلے، مجادلے اور مناظرے تھے! نتیجتاً آریہ سماجیوں سے مناظروں میں بدگوئی کی سزا مرزا صاحب کے بجائے اسلام کو بھگتنی پڑی۔ چنانچہ’ ’ستیارتھ پرکاش‘‘کا پہلا ایڈیشن جو 1875 میں راجہ جے کشن داس سی ایس آئی کے زیر اہتمام بنارس میں چھپا تھا اور جس کے حقوق سوامی دیانند نے ان کے ہاتھ فروخت کر دیئے تھے، ابتدا میں بارہ ابواب پر مشتمل تھا۔ اس میں تیرہویں اور چودھویں باب کا اضافہ مرزا صاحب کی ان تحریروں کے بعد ہوا جن میں آریہ سماجیوں کے ’’نیوگ‘‘ ایسے معاشرتی مسئلے کو چھیڑ کر ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے بعض عقائد کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا تھا، سوامی دیانند 30 اکتوبر 1883 کو انتقال کر گئے تو مرزا صاحب نے ان کی موت بھی اپنی پیشین گوئیوں سے وابستہ کر لی، چنانچہ ان کی رحلت کے بعد ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ کا جو دوسرا ایڈیشن چھپا، اس میں تیرھویں اور چودھویں باب کا اضافہ تھا جن میں خدا اور رسول پر رکیک حملے کیے گئے تھے‘‘۔
ہمارے کچھ دوست مہاشے راجپال کے قتل کرنے کے غازی علم الدین شہید کے اقدام اور اس ضمن میں شاہ جی کی تقریر کا حوالہ تو خوب زوروشور سے دیتے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں’’ہم سب‘‘ پر ہی حاشر ابن ارشاد صاحب نے تین اقساط میں ایک مضمون بھی گھسیٹ ڈالا، لیکن انھوں نے بھی محض شاخوں اور پتوں کا تجزیہ کرنے پر ہی اکتفا کیا اور برعظیم پاک و ہند میں اس دریدہ دہنی، ہرزہ سرائی کی بنیاد ڈالنے والے مرزا غلام احمد قادیانی کو وہ بھی فراموش کر گئے کہ اسلام کو گالیاں بکنے کی جو روایت برعظیم میں عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں کے یہاں نظر آتی ہے، اس کی طرح ڈالنے والا کوئی اور نہیں بلکہ برٹش امپریلزم کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے!
صاحبِ مضمون نے شاہ جی کے بارے میں عبدالمجید سالک کی ایک روایت ذکر کی ہے، جو سالک کی ’’سرگزشت‘‘ میں موجود ہے۔ بات کچھ نہیں بس بے تکلف دوست احباب کی محفل میں ایک دوسرے پر کی جانے والی دوستانہ چوٹیں ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ایام اسیری کے دوران شاہ جی نے بطور لطیفہ ایک قصہ سنایا، جس میں ایک تحصیل دار صاحب کو چڑائے جانے کا ذکر تھا، تین چار دن کے بعد دوستوں نے طے کیا کہ شاہ جی کو چڑایا جائے اور انھوں نے اتنا چڑایا کہ زچ کر دیا تو شاہ جی نے پہلے تو انھیں ڈانٹا جب پھر بھی احباب باز نہ آئے تو شاہ جی نے غصے میں کچھ سخت سست بھی کہہ ڈالا۔ بات بس اتنی سی تھی، جس کو زیبِ داستاں کے لیے کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا۔ بارِ دگر عرض ہے کہ شاہ جی اس دور کے انسان تھے، انسانی کمزوریوں سے مبرا کیونکر ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی خوبیاں قدرت کی عطا تھیں اور کسی بھی شخصیت کو اس کی کلیت میں دیکھا جاتا ہے نہ کہ جزوی طور پر شخصیت کیcompartmentalization کر کے!
جہاں تک سالک صاحب کا احرار کی ’’ریشہ دوانیوں‘‘ کے نقاد ہونے کا تعلق ہے تو اس کے کچھ مخصوص سیاسی وجوہ ہیں۔ سالک کا سیاسی مسلک احرار سے الگ تھا، انھوں نے ’’انقلاب ‘‘ کے صفحات یونینسٹ پارٹی کے لیے وقف کر رکھے تھے۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ سالک مرزائیوں کے بارے میں بوجوہ نرم گوشہ رکھتے تھے جب کہ احرار مرزائی گروہ کے شدید ترین ناقد! پسرِ سالک نے تو اس ضمن میں بنا کسی لگی لپٹی مرزائیوں کی وکالت اور علمائے کرام پر جانبدارانہ تنقید کو اپنا شیوہ بنا لیا تھا۔
صاحبِ مضمون نے بڑے رسان سے سپیشل مجسٹریٹ گورداسپور کے 1935 کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے، لیکن اس کے مالہ و ماعلیہ کو وہ پھر شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس مقدمے کے تاریخی تناظر، شاہ جی کی تقریر، مقامِ تقریر، تقریر کی وجہ اور موقع و محل پر بھی روشنی ڈالتے اور پھر سپیشل مجسٹریٹ کے اس فیصلے کی جو تنسیخ مسٹر جی ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپورنے اپنے تاریخی فیصلے 6 جون 1935 کے ذریعے کی جس سے قادیانی امت بے نقاب ہو گئی، اس پر بھی خامہ فرسائی کرتے۔ لیکن وہ بھلا ایسا کیوں کرنے لگے! یہ تو بیچ چوراہے اپنے ’’پوتڑے‘‘ دھونے کے مترادف ہوتا!
سیشن جج گورداسپور مسٹر کھوسلہ نے شاہ جی کے جرم کو محض اصطلاحی قرار دے کر تااجلاسِ عدالت قیدِ محض کی سزا دی۔ مرزائیوں کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا انھوں نے اس فیصلے کے بعض حصوں کو محذوف کرانے کے لیے عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔ فی الاصل یہ پہلا عدالتی جائزہ تھا کہ قادیان میں مرزائیوں کی ’’ریاست اندر ریاست‘‘ کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا گیا اور بقول شورش کاشمیری
’’حکومت کو بھی غالبا پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اس کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘خودسر بھی ہے!‘‘
اپنے مضمون میں مضمون نگار نے ایک اور نکتہ پر اپنا زورِ قلم صرف کیا ہے، وہ ہے شاہ جی، شورش اور احرار کی مبینہ چندہ خوری، مالی معاملات میں خردبرد وغیرہ۔ درحیرتم کہ الزام لگانے والا خود جس صف سے ہے، اس کا اپنا ماضی و حال نہ صرف چندہ خوری بلکہ مالی معاملات میں غبن اور غریب مرزائیوں کے معاشی استحصال سے عبارت ہے۔ ایک انگریزی کہاوت کا مفہوم ہے کہ شیشے کے گھر میں رہنے والوں کو دوسروں پر پتھر پھینکنے سے احتراز کرنا چاہیے یا پھر بائبل میں مرقوم مسیح علیہ السلام کا وہ ارشاد کہ تم میں سے پہلا پتھر وہ پھینکے، جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو! ہم تیقن سے نہیں کہہ سکتے کہ فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون میں الفاظ کے جو طوطا مینا اڑائے ہیں، ربوہ کی نظارت اس سے کس حد تک واقف ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے نہایت بودے اور کمزور دلائل پر اپنے استدلال کی عمارت کا تاج محل کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مذکورہ الزام کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں پر چندے کھانے اور مالی معاملات میں بے قاعدگی کا الزام لگایا جا رہا ہے، خود ان کا رہن سہن اور میعارِ زندگی تاعمر کیسا رہا؟ ان کی رحلت کے بعد ان کی اولاد و احفاد کا میعارِ زندگی کیسا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ شاہ جی کے بدترین سیاسی مخالف بھی اس حوالے سے ان کے فقر و استغنا اور درویشی کے قائل ہیں۔ خود صاحبِ مضمون نے یہ الزام لگانے کے باوجود ایک جگہ پر یہ اعتراف کیا ہے:
’’بہت عرصہ بعد ایک احمدی عالم ان سے ملنے ملتان گئے۔ ان کی روداد پڑھ کر ترس آتا ہے کہ ہندوستان کا ایک مشہور مقرر کسمپسری میں اپنے آخری دن گزار رہا تھا۔‘‘
اگلی ہی سانس میں موصوف نے سید حبیب مدیر’’سیاست‘‘ کے گھسے پٹے الزام کو بھی دھرا دیا:’’عطا اﷲ شاہ بخاری کو امرتسر میں تین ہزار روپے کا مکان کس نے لے کر دیا؟‘‘
عرض یہ ہے کہ شاہ جی امرتسر میں اپنا ذاتی مکان خریدنے سے قبل پانچ مختلف کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر رہے، 1934 میں جب شاہ جی کے استاد زادہ و ہم سبق مولانا بہاء الحق قاسمی مرحوم (جو معروف مزاح نگار و کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے والد اور یاسر پیرزادہ کے دادا ہوتے ہیں) نے اپنا مکان فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو شاہ جی نے اپنی اہلیہ محترمہ کے زیورات بیچ کر اور کچھ اپنے والد صاحب سے پیسے لے کر مبلغ 3400 روپے میں گِلوالی دروازہ والا مکان خرید کیا، برعظیم کی تقسیم تک شاہ جی کی رہائش اسی مکان میں رہی اور بعد از قیامِ پاکستان متروکہ جائیداد کے کلیمز تک داخل نہ کیے اور 1948 سے 1961 تک اپنی حیاتِ مستعار محلہ ٹبی شیر خان ملتان میں کرایہ کے ایک مکان میں گزار دی۔
اس ضمن میں ایک مسلم لیگی دانشور کی شہادت ملاحظہ کیجیے:
’’پاکستان بننے کے بعد شاہ جی بحیثیت مہاجر ملتان تشریف لائے۔ آپ امرتسر میں اپنا مکان چھوڑ آئے تھے، مگر آپ نے دوسرے لیڈروں کی طرح یہاں کوٹھی، کوئی بنگلہ، کوئی کارخانہ اور کوئی مکان تک الاٹ نہ کرایا۔ مظہر نواز خان جو کہ شاہ صاحب کی لاعلمی میں ان کی رہائش کے لیے کوئی چھوٹا مکان الاٹ کرانے کی اپنے طور پر کوشش کرتا رہا، مگر نمائشی دینداروں نے اس کی کوئی پیش نہ چلنے دی۔ آخر مجبور ہو کر انھوں نے متحدہ ہندوستان کے اس خطیبِ اعظم کے لیے میرے عقبی محلہ ٹبی شیرخان کے ایک گوشہ میں تیس روپے ماہوار کرایہ پر ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے لیا۔ جس میں شاہ صاحب نے آخیر دم تک رہایش رکھی۔
یہ مکان عارضی طور پر لیا گیا تھا اور آپ کے شایانِ شان کوئی اچھا مکان تلاش کرنے کے لیے جب شاہ صاحب سے اجازت چاہی تو اس شیرِ خدا نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
’’میری جو حیثیت ہے، میں جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں۔ میری حیثیت سے تو یہ مکان بھی بڑا ہے۔ میرے بزرگوں نے تو کھجور کی عارضی چھتوں اور کچی دیواروں میں ہمیشہ گزارہ کیا جنھیں مکان کہنا شاید آپ لوگ گناہ سمجھیں اور یہ تو بہرحال مکان ہے اور مجھے اس واسطے بھی پسند ہے کہ آپ لوگوں نے اسے میرے لیے پسند کیا ہے۔‘‘
(منشی عبدالرحمٰن خان ’’چند ناقابلِ فراموش شخصیات‘‘ ص 129، مطبوعہ عالمی ادارہ اشاعتِ علومِ اسلامیہ ملتان)
شاہ جی کی زندگی کے آخری ایام میں جب آپ بسترِ مرگ پر تھے تو اس وقت کے معروف صحافی و کالم نگار کوثر نیازی، شاہ جی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ شاہ جی سے اپنی اس آخری ملاقات کو یوں قلم بند کرتے ہیں:
’’دوسری مرتبہ میرا ملنا ملتان میں ہوا۔ میں وہاں ایک اجتماع سے خطاب کرنے گیا تھا۔ پہنچا تو معلوم ہوا کہ شاہ جی بیمار ہیں۔ ان کی عیادت کی غرض سے ان کے آستانے پر حاضری دی، مگر یا للعجب! یہ کیا؟ ایک کچی بستی میں ایک کچا مکان، نہ کوئی نوکر نہ چاکر، پردوں کی جگہ دیواروں پر بوریاں لٹکی ہوئی، مجھ سے رہا نہ گیا۔‘‘شاہ جی آپ یہاں رہتے ہیں؟کہنے لگے،جی ہاں، یہی محل تو میں نے ہندوؤں کے سرمایہ سے بنوایا ہے!یہ اس الزام کی طرف اشارہ تھا جو بعض سنگدل لوگ انھیں کانگریس کا تنخواہ دار کہہ کر لگایا کرتے تھے۔ طبیعت تڑپ اٹھی…… میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر میں نے دیکھا اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی شاہ جی کے چہرے پر صبر و شکر کا نور بکھرا ہوا تھا۔‘‘
(روزنامہ جنگ راولپنڈی، 22 اگست 1982)
اس ضمن میں تیسری شہادت معروف شاعر سید ضمیر جعفری کی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ رقم طراز ہیں کہ انھیں ایک بار اپنے ایک دوست کے کام کے سلسلے میں ملتان شاہ جی کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا، ملتان پہنچ کر کافی تگ و دو کے بعد وہ شاہ جی کے آشیانہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’دل کو پہلا دھچکا مکان دیکھ کر لگا، ہمارے ملک کا بطلِ جلیل اور اتنے معمولی سے مکان میں رہائش پذیر! دروازے پر دستک دی تو ایک مولوی صاحب نکلے، وہ مجھے اندر لے گیے۔ شاہ صاحب پہلے ہی کمرہ میں تشریف رکھتے تھے جو خاصا کشادہ تھا۔ چٹائی بچھی ہوئی تھی، پاک و ہند کا شعلہ نوا خطیب اور جنگِ آزادی کا عظیم مجاہد ایک دیوار کے قریب ایک پرانے سے تکیے کی ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ چند کاغذات سامنے بکھرے پڑے تھے۔ ایک پلندہ تکیے کے نیچے دبا رکھا تھا۔ میں نے سلام کیا، آپ سلام کا جواب دے کر، جس میں تپاک کی گرمی تھی، پھر اپنے کاغذات پر جھک گئے۔ چند کاغذات تکیے کے نیچے سے نکالے اور چند تکیے میں رکھے۔ پھر خاکسار کو ایک نگاہِ بندہ نواز سے نوازا اور گویا ہوئے……‘‘
ان کے عرضِ مدعا کے بعد شاہ جی نے کالج کے پرنسپل کے نام ایک عجیب و غریب سفارشی خط تحریر کر دیا اور پھر آپ کی مجلس میں مختلف موضوعات کے علاوہ نظام تعلیم بھی زیرِ بحث آیا تو ان کے بقول:
’’امیرِ شریعت دو چار جملوں کے بعد جلال میں آ گئے۔ خطابت کا ایک دریا چڑھاؤ پر آ گیا، وہ باقاعدہ تقریر کرنے لگے جیسے ان کے سامنے میں اکیلا نہ بیٹھا تھا، حاضرین کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کیا نظامِ تعلیم پر تیر برس رہے تھے!یہ کیسا نظامِ تعلیم ہے جو بے چینی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا، جو دخترانِ ملت کو نچوانے پر تلا ہوا ہے۔حکومت کے پرزے اڑ رہے تھے!علم کم ہے، تحریص زیادہ ہے، پبلسٹی پر زور ہے، قلندری نے خواجگی کی قبا اوڑھ لی ہے۔‘‘
ایک ذاتی فہمائش جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی، یہ فرمائی:
’’بیٹا! محرومیوں کے باوجود اپنی ذات پر اعتماد قائم رکھنا۔ قوموں کی زندگی ایک تسلسل کا نام ہے، اس تسلسل کو زندہ رکھنا۔‘‘
شاہ صاحب کے ایک ایک لفظ سے اضطراب و جلال کا دریا چھلک رہا تھا، ان کی آواز دور دور تک جا رہی تھی، جیسے کوئی زخمی شیر دھاڑ رہا ہو!میں بلکہ سارا ماحول اس وقت شاہ صاحب کے سحرِ خطابت میں جھوم رہا تھا، حقائق دل میں ترازو ہو رہے تھے، ادب کا چشمہ ابل رہا تھا۔ وہاں سے اٹھنے کو جی تو کیا چاہتا مگر ساتھ ہی ڈر لگ رہا تھا کہ اگر سی آئی ڈی نے پہلے چشم پوشی سے کام لے ہی لیا تھا تو اب ضرور دھر لے گی۔ چنانچہ ایک مقام پر جیسے ہی ان کا آشوبِ دل ذرا دھیما ہوا، ہم اجازت لے کر آستانے سے باہر نکل آئے۔ مگر بہت دور تک قدم اور دل بوجھل رہے۔ یہ ملال کا بوجھ تھا کہ دیکھو جو شخص اس ملک کی آزادی کے لیے اپنے خونِ جگر سے چراغ روشن کرتا رہا، اس کے حجرے میں نہ بتی نہ دیا ہے۔
(امیرِ شریعت کا ایک خط از سید ضمیر جعفری مطبوعہ اردو ڈائجسٹ، دسمبر 1983)
اب ذرا الزام کنندہ کے ممدوح مرزا غلام احمد قادیانی، جماعتِ احمدیہ اور مرزا صاحب کی اولاد اور موجودہ جماعتِ احمدیہ کے موجودہ سربراہ کی تاریخ بھی ملاحظہ کر لیجئے۔
مرزا صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر ملازم تھے۔ خود لکھتے ہیں:
’’ہماری معاش کا دارومدار والد کی ایک مختصر آمدنی پر تھا اور بیرونی لوگوں میں ہمیں ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا۔ میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں کے زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، ص 211)
مرزا صاحب نے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں سے مناظرے کی آڑ میں مسلمانوں سے چندہ مانگنا شروع کیا تو تین لاکھ سے زائد روپیہ جمع ہو گیا۔ (حقیقۃ الوحی)
اپنے الہامات کو بنیاد بنا کر انگریزی حکومت کی تائید و حمایت میں اس قدر کتابیں لکھیں کہ وہ تمام کتابیں اگر اکٹھی کی جائیں تو ان سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔(تریاق القلوب از مرزا قادیانی، ص 15)
مرزا صاحب کا خاندان انگریزوں کا پشتینی وفادار خاندان تھا۔ خود مرزا صاحب نے بڑے فخر اور طمطراق سے اس بات کا جابجا کریڈٹ لیا ہے۔ مرزا صاحب اور ان کے آباء و اجداد کا وتیرہ یہی تھا کہ ہم وطنوں کی جاسوسی کرکے انگریز استعمار سے مراعات اور جاگیریں وصول کریں۔ مرزا صاحب کی چاپلوسی کا انداز ملاحظہ کیجیے:
’’میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیرخواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ 1857 میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جنگجو جوان بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ کی مدد کی تھی۔‘‘(تحفہ قیصریہ، ص 16)
مزید دیکھیے:
’’ہمارا جاں نثار خاندان سرکار دولت مدار کا خود کاشتہ پودا ہے، ہم نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنا خون بہانے اور جان دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات حصہ سوم جمع کردہ محمد صادق، ص 262، اشتہارنمبر 48 مرقومہ مرزا قادیانی 1898 خط بنام بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ)
مرزا صاحب اور ان کی جماعت ہندوستان پر غاصبانہ سامراجی تسلط کے بعد سامراج کے سیاسی جاسوس اور گماشتے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی جماعتِ احمدیہ مختلف حکومتوں کی آشیرباد سے سکوں کی جھنکار پر اپنے ضمیر کا سودا کرتی رہی۔ اس سلسلے میں 5 اگست 1965 کے روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر چھپنے والی خبر ملاحظہ کیجئے:
’’راولپنڈی: 4 اگست: مرکزی حکومت احمدیہ مشنوں کو افریقہ اور دوسرے ملکوں میں اپنے مذہبی نظریات کی تبلیغ کے لیے 1961 سے اب تک گیارہ لاکھ پچاس ہزار نو سو نناوے روپے دے چکی ہے۔ یہ بات پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ مسٹر محمد حنیف نے آج قومی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتائی۔ کیپٹن احمد خان نے پارلیمانی سیکرٹری سے دریافت کیا کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ احمدیہ مشنوں کو زرمبادلہ کی کثیر رقوم کی منظوری ملنے کی وجہ یہ ہے کہ زرمبادلہ کی منظوری دینے والے افسر پر احمدیوں کا اثر ہے؟ پارلیمانی سیکرٹری نے اس کے جواب میں کہا کہ معزز رکن اپنے طور پر جو رائے قائم کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔‘‘
ہم اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے بلکہ اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
اب ذرا جماعتِ احمدیہ کے چندہ سسٹم پر بھی کچھ بات کیے لیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ غریب سے غریب احمدی سے بھی مخصوص ریٹ کے مطابق چندہ وصول کرتی ہے جو مجموعی آمدنی کا کم از کم 8.25% (6.25% + 1% + 1%) پر مشتمل ہوتا ہے۔
سعید احمد خان، ایڈیشنل فنانس سیکرٹری ’’احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن یو-کے‘‘ کے مالی سال 2009-10 کے حوالے سے لکھے گئے ایک خط کی کچھ سطور ملاحظہ کیجئے:
We have been advised by Markaz to remind all members to ensure that their laazmi Chandas are being paid in accordance with the prescribed rates. And there are any shortfalls or arrears, then these should be paid immediately without delay.
صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ چندہ اکٹھا کرنے کا الزام صرف مولویوں یا اہلِ مذہب پر ہی نہیں عائد ہونا چاہیے بلکہ اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیا جائے کہ آپ کے گھر میں کیا ہو رہا ہے!
ایک طرف تو قادیانی کلٹ کے نام نہاد ’’خلیفہ‘‘ مرزا مسرور کی آف شور کمپنیاں اور اندرون و بیرون ملک جائیدادیں ہیں تو دوسری طرف جن صاحبانِ عزیمت پر صاحبِ مضمون نے گمراہ کن الزامات عائد کئے ہیں، ان کا اور ان کی اولاد کا رہن سہن سادگی سے عبارت ہے۔ برطانوی سامراج کے گماشتے اور اس کی اولاد کی جائیدادوں کا شمار نہیں تو دوسری طرف خانوادہ امیرِ شریعت کے پاس آج بھی ذاتی ملکیت میں دو گاڑیاں تک نہیں۔ شاہ جی کے فرزندوں اور ان کی اولاد کا رہن سہن آج بھی انتہائی سادہ ہے۔
’’شاہ جی اور شورش کی میراث‘‘ میں ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے:
’’انگریز سرکار کے ڈر سے ان میں جرأت نہیں تھی کہ سرعام قتل کے فتوے جاری کرتے لیکن اگر کوئی سادہ لوح قتل کا مرتکب ہو جاتا تو اس کو غازی اور شہید کے تاج بھی احراری ہی پہناتے تھے۔‘‘
لگتا ہے مضمون نگار احرار کو غلطی سے جماعتِ احمدیہ کی طرح فرنگی استعمار کا گماشتہ اور چاپلوس سمجھ بیٹھے ہیں جو انھوں نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ انگریز سرکار کے ڈر سے ان میں جرأت نہیں تھی کہ سرِ عام قتل کے فتوے جاری کرتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ احرار کا مزاج فتوی بازی کا کبھی رہا ہی نہیں، احرار بنیادی طور پر علماء کی جماعت ہی نہیں، بلکہ نچلے متوسط اور متوسط طبقہ کے مسلمانوں کی ایک اسلامی انقلابی جماعت ہیں جس کا خمیر ہی سامراج دشمنی سے اٹھایا گیا ہے، خود مضمون نگار نے اپنے دونوں مضامین میں اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قتل و غارت کا جو الزام مضمون نگار نے احرار پر لگایا ہے، اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ جب کہ ہم یہاں قارئین کی خدمت میں باحوالہ یہ بات پیش کریں گے کہ جماعتِ احمدیہ نے کس طرح تقسیمِ برعظیم سے قبل اور بعد غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا طوفانِ بدتمیزی برپا کیے رکھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل ’’قادیان‘‘ کی بابت قادیانی حضرات کا طریقہ واردات بالکل وہی تھا جو اسرائیل کے حوالے سے یہودیوں کا رہا۔ مرزا بشیرالدین محمود نے پنجاب بھر سے اپنی امت کے افراد بلوا کر قادیان میں بسا لیے تھے۔ قادیان کو انھوں نے اپنی ذاتی جاگیر اور سٹیٹ بنا لیا تھا جہاں ان کی اجازت کے بنا کسی کو پر مارنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قادیانیوں نے بٹالہ کے دو مسلمان بھائیوں حاجی عبدالرحمٰن اور حاجی عبد الغنی کی ’’شبان المسلمین‘‘ نامی تنظیم کے ارکان پر کئی قاتلانہ حملے کیے، حتیٰ کہ مرزا بشیر الدین محمود کی سازش پر حاجی عبدالغنی کو شہید کر دیا گیا۔ ’’شبان المسلمین‘‘ سال بھر میں ایک سالانہ جلسہ منعقد کیا کرتی تھی جس میں دیگر اضلاع سے بھی علماء شریک ہوتے۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:
’’ایک ایسے ہی جلسہ کے اختتام پر جب کچھ علماء قادیان دیکھنے گئے تو قادیانی شہ زوری کا حال یہ تھا کہ مرزا بشیرالدین محمود کے ایماء پر مرزائی نوجوانوں نے ان علماء پر ہلہ بول دیا۔ انھیں اس بری طرح پیٹا کہ پناہ بخدا۔۔ چونکہ مقامی پولیس اور دوسرے حکام مرزا بشیرالدین کی مٹھی میں تھے اس لیے کسی نے رپٹ تک نہ لکھی اور نہ کوئی دادرسی کی۔ اس کے بعد کئی سال تک صحیح العقیدہ مسلمان قادیان جاتے ہوئے ڈرتے۔ مجلسِ احرار نے اس دہشت کو توڑنے کے لیے اپنے چند رضاکار قادیان بھیجے کہ وہاں جا کر مسلمانوں کی مساجد میں اذان دیں کیونکہ مرزائی اپنے سوا کسی کو اذان بھی نہیں دینے دیتے تھے۔ احرار رضاکار وہاں پہنچے، اذان دی لیکن قادیانی ڈنڈے لے کر پل پڑے اور ان موذن رضاکاروں کو اتنا مارا کہ زخموں سے چور ہو گئے اور مدت تک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ اس بہیمانہ تشدد کے خلاف مجلسِ احرار نے بٹالہ میں کانفرنس منعقد کی اور حکومت کو پہلی دفعہ للکارا کہ وہ اپنی چہیتی امت کے منہ میں لگام دے ورنہ نتائج خطرناک ہوں گے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور نہ قادیانی ٹس سے مس ہوئے۔ وہ گویا قادیان کی ریاست کے راجواڑے تھے اور وہاں قانون ان کے اشارۂ ابرو پر حرکت کرتا تھا۔ اس کے بعد مجلسِ احرار نے 1935 میں قادیان میں احرار کا دفتر کھولنے کا اصولی فیصلہ کیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسٹر جی ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے الفاظ میں’’قادیانیوں کا تمرد اور شورہ پشتی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی تھی‘‘۔
جو لوگ قادیانی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کرتے انھیں نہ صرف قادیان سے باہر نکال دیا جاتا بلکہ بعض اوقات مکروہ تر مصائب کی دھمکیاں دے کر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی جاتی۔
آغا شورش لکھتے ہیں:
’’مرزا محمود نے عدالتی اختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے۔ قادیان میں دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کی جاتی۔ جو لوگ مخالف تھے، ان کے مکانوں کو جلایا گیا، کئی افراد کو قتل کیا گیا۔ مسٹر کھوسلہ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں اس کی مثالیں بھی دی ہیں۔ ان کے روبرو مرزا بشیرالدین محمود نے تسلیم کیا کہ قادیان میں عدالتی اختیارات استعمال ہوتے ہیں اور ان کی عدالت سب سے آخری اپیل کی عدالت ہے۔ اس غرض سے قادیانیوں نے اپنے اسٹامپ بھی چھاپ رکھے تھے۔ مرزا محمود قادیان میں قتل کرانے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس غرض سے وہ اپنے والد کی ’’پیش گوئیاں‘‘ اور اپنے ’’ذاتی الہام‘‘ استعمال کرتے۔ مولوی عبدالکریم ایڈیٹر ’’مباہلہ‘‘ شروع میں قادیانی تھے، جب انھیں قادیانیت کی صداقت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو اس سے تائب ہوگیے۔ ان پر ظلم و ستم شروع ہوا۔ مرزا محمود نے مولوی عبدالکریم کی موت کی پیش گوئی کی جو ’’الفضل‘‘ میں چھپی۔ نتیجتاً عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ بال بال بچ گئے لیکن ان کا ضامن محمد حسین قتل کر دیا گیا، جب قاتل کو پھانسی ہوئی تو اس کا جلوس نکالا اور قادیان میں بہشتی مقبرے میں دفن کرایا۔ مولوی عبدالکریم قادیان سے ہجرت کر کے امرت سر آ گئے، وہاں ان کا مکان نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ایک دوسرا قتل مرزائی مبلغ محمد امین کا تھاجس کو کلہاڑی کے وار سے قتل کیا گیا۔ ہلاک اس لیے کیا گیا کہ مرزا بشیرالدین محمود اس سے ناراض ہو گیا تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں کوئی کاروائی نہ کی۔ تب قادیان میں مرزائیوں کی دہشت اور غنڈہ گردی کا عالم یہ تھا کہ ان کے خلاف کوئی شہادت دینے کی جرات ہی نہ کر سکتا تھا۔ مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے الفاظ میں’’سرکاری حکام قادیانیت کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک مفلوج ہو چکے تھے۔‘‘
1937 کے انتخابات میں قادیانیوں کو عبرتناک شکست ہوئی تو مرزا بشیر الدین کے لیے یہ صورتحال سوہانِ روح تھی۔ انھوں نے راجندر سنگھ آتش نام کے ایک سکھ نوجوان کو دس ہزار روپے کے عوض شاہ جی کے قتل پر تیار کیا۔ اس غرض سے پانچ ہزار روپے پیشگی دیے اور پانچ ہزار قتل کے بعد ادا کرنے کے وعدہ کیا، لیکن راجندر سنگھ نے شاہ جی کو دیکھا، ان کی تقریر سنی تو اپنے ضمیر کو تیار نہ کر سکا۔ (یہی سکھ نوجوان جیل میں آغا شورش کے ساتھ بھی قید رہا) مرزا محمود راجندر سنگھ کے انکار سے پریشان ہوا، اس کو سازش کے منکشف ہونے کا خطرہ تھا۔ اس نے سی آئی ڈی سے سازش کر کے راجندر کو کلکتہ میں گرفتار کرا دیا اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ انقلابی پارٹی کا ممبر ہے۔ جب اس کو پنجاب لایا گیا تو اس نے مرزا محمود کی سازش کے انکشاف کا ارادہ کیا کہ وہ اس حقیقتِ حال سے عدالت کو مطلع کرے گا اور بتائے گا کہ اس کی گرفتاری مرزائی گروہ کی سازش سے ہوئی ہے۔ مرزا بشیرالدین کو خطرہ تھا کہ وہ شاہ جی کے قتل کی سازش آشکار کرے گا۔ جب راجندر سنگھ کا ارادہ پولیس کے علم میں آیا تو صوبائی گورنمنٹ کے حکم پر اس کو فی الفور رہا کر دیا گیا۔ لیکن شاہ جی کے خلاف مرزائی پولیس افسروں کی پخت و پز سے بغاوت وغیرہ کے جرم میں کئی مقدمات تیار کیے گئے!
احمدی جماعت اور اس کے ’’خلیفہ‘‘ کی غنڈہ گردی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، قیام پاکستان کے بعد مرزا محمود نے اپنے ناقوس’’الفضل ‘‘ میں کھلے بندوں پاکستان کے پانچ جید علماء کے قتل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ درج ذیل علماء سے خون کا بدلہ لیا جائے گا (1) سید عطاء اﷲ شاہ بخاری (2) ملا عبدالحامد بدایونی (3) ملا احتشام الحق تھانوی (4) ملا مفتی محمد شفیع (5) ملا مودودی (الفضل، 15 جنوری، 1952)
ہمارا خیال ہے کہ مضمون نگار قیامت تک ایسا کوئی حوالہ پیش نہیں کر سکتے جس میں شاہ جی، شورش یا کسی اور احرار رہنما نے کسی بھی مرزائی کو باوجود اس طبقے کی بوقلموں گستاخیوں کے، اس طرح سرِعام قتل کی دھمکی دی ہو یا قتل کا فتوی جاری کیا ہو۔ تاریخی حقائق کا یوں برسرِ عام مذاق اڑاتے ہوئے انھیں شرم آنی چاہیے کہ کون سا الزام کن لوگوں پر عائد کیا جا رہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد کا ایک مخصوص حلقہ ہر اس بات کو جو احمدی حلقوں کی جانب سے کی گئی ہو، خواہ مخواہ ہی مستند باور کرنے لگ جاتا ہے، چاہے وہ امرِ واقعہ سے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو! ہماری دانست میں یہ علمی رویہ نہیں، ہمارے ان روشن خیال دوستوں پر تو یہ ذمہ داری بدرجہ اولیٰ عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بات کو محض اس لیے شرفِ قبولیت سے نہ نوازیں کہ وہ احمدی حلقوں کی جانب سے آ رہی ہے، بلکہ اس بات کو اتنی ہی کڑی کسوٹی پر پرکھیں اور جانچیں، جس کسوٹی پر وہ اہلِ مذہب کی بات کو رکھتے ہیں۔