تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

منقبت امیر المؤمنین سیدنا مروان بن حکم رضی اﷲ عنہما

یوسف طاہر قریشی

اک پیکرِ شجاعت، مروان بن حکمؓ تھے

تصویرِ عزم و ہمت، مروان بن حکمؓ تھے
(۱)
کتنے ہی پاک طینت مروان حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
عم زاد اور داماد عثمانؓ کے تھے بے شک

اک بہترین قاری قرآن کے تھے بے شک
(۲)
اور اک فقیہِ اُمّت مراون بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
مہر و وفا کا نیّرِ تاباں کہوں میں اُن کو

اور شیفتۂ خواجۂ گیہاںؐ کہوں میں ان کو
عمدہ خطیب حضرت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
وہ خود بھی تھے صحابی والد بھی تھے صحابی

رکھتے تھے اپنے دل میں وہ حُبِّ ابُو ترابیؓ
(۳)
فرّخ نصیب حضرت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
مروانؓ سے محبت حسنینؓ خوب رکھتے

اور زینؒ قرض ان سے اکثر لیا تھے کرتے
(۴)
اک پیکرِ سخاوت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
اصحاب سے حدیثیں کرتے تھے وہ روایت

اور ان سے تابعیں نے روایت ہیں کی بکثرت
(۵)
بے شک پابندِ سنّت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
بہتان ان پہ باندھے اپنوں پرایوں نے کیا

کذّاب راویوں پہ اندھا کیا بھروسا!
رب نے دی جن کو عزت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکم تھے
مروانؓ نے نہ ہرگز قبضہ کیا فدک پر

الزام ان پہ دھرنا یوں ہی نہ تم بھڑک کر
(۶)
ایسی نہ کرتے جرأت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
باغِ فدک کے نگراں حضرت علیؓ بنے تھے

اور ان کے بعد بیٹے اور پوتے ہی بنے تھے
قطعاً امین فطرت مروان بن حکم تھے
کتنے ہی خوب سیرت مروان بن حکم تھے
باغی فسادیوں نے مکتوب خود لکھا تھا

مروان بن حکمؓ کا پھر نام لے دیا تھا
کرتے نہ ایسی حرکت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
’’کینہ رکھے جو دل میں اصحاب کا ، ہے ناری ‘‘

میں نے سنا تھا اک دن کہتے تھے یہ بخاری
(۷)
تصویر عزّ و غیرت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
مظلوم ہیں یہ سب سے اصحاب مصطفی میں

ان کا مقام ہے اک احبابِ مصطفی میں
طاہر خصال حضرت مروان بن حکمؓ تھے
کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے
﴿حواشی﴾
]۱[ حضرت مروان رضی اﷲ عنہ بڑے مدبر، معاملہ فہم، عمدہ منتظم اور جرأت مند انسان تھے۔ ان کی انھی خوبیوں کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت راشدہ میں انھیں مکہ مکرمہ اور طائف کا حاکم مقرر فرمایا تھا۔ (مسجدِ نبوی کے پاس مکانات صحابہ، ص: ۷۴، مؤلفہ: ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی)۔ بعد میں خلیفۂ راشد حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی طرف سے حضرت مروان رضی اﷲ عنہ کو ’’البحرین‘‘ کے علاقہ کا والی و حاکم مقرر کیا گیا۔ (تاریخ خلیفہ بن خیّاط، ج:۱، ص: ۱۵۹)۔ افریقہ کی جنگ میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن سعدؓ بن ابی سرح کی امداد اور کمک کے لیے مدینہ منورہ سے جو عظیم لشکر بھیجا تھا، اس میں حضرت مروان رضی اﷲ عنہ بھی (شجاعت کے جوہر دکھانے کے لیے) شامل تھے۔ (فتوح البلدان، ص: ۲۳۴)
]۲[ سیدنا مروان رضی اﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفّان رضی اﷲ عنہ کے چچا زاد بھائی، داماد اور کاتب بھی تھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی سیدہ اُمّ ابان رحمہا اﷲ حضرت مروان رضی اﷲ عنہ کے حبالۂ عقد میں تھیں۔ (نسب قریش، ص: ۱۱۲)۔ ایک موقع پر سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ان کی علمی عظمت اور فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’القاری لکتاب اللّٰہ، الفقیہ فی دین اللّٰہ، الشدید فی حدود اللّٰہ‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: ۸، ص: ۲۵۷۔ سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۷۷۴)۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے لکھا کہ علمی طور پر ان کا مقام اس قدر بلند تھا کہ : کان یعد فی الفقہاء‘‘ ان کا شمار فقہائے امت میں سے ہوتا تھا۔ (الاصابہ، ج:۳، ص: ۲۷۷)۔
]۳[سیدنا مروان رضی اﷲ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں اور صحابہ کے اس زمرہ میں شامل ہیں جن میں سیدنا عبداﷲ بن زبیر، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا عبداﷲ بن جعفر طیار، سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے: وہو صحابی عند طائفۃ کثیرۃ لانہ ولد فی حیاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم(البدایۃ والنہایۃ، ج:۸، ص: ۲۵۷) ۔ سیدنا مروان رضی اﷲ عنہ اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے آپس میں خاندانی تعلقات تھے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ بن ابی طالب کی ایک صاحبزادی سیدہ رملہ رحمہا اﷲ سیدنا مروان رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے معاویہ بن مروان کے نکاح میں تھیں۔ (جمہرۃ النساب العرب، ص: ۸۷) آپ رضی اﷲ عنہ کی ایک اور صاحبزادی امیر المؤمنین عبدالملک بن مروان کے نکاح میں تھیں۔
(البدایۃ والنہایۃ، ج:۹، ص: ۶۹)۔
]۴[امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت مروان رضی اﷲ عنہ کو اپنے عہدِ خلافت میں مدینہ طیبہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ آپ اس منصب پر کئی سال تک فائز رہے اور اس زمانہ میں ان کے خاندانِ نبوت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے۔ بعض دفعہ ایک لاکھ درہم سیدنا زین العابدین نے ان سے بطور قرض حسنہ لیے اور بعد میں وہ قرض حسنہ واپس نہ لیا گیا۔ (البدایہ والنہایہ، ج: ۸، ص: ۲۵۸)۔ اسی پر بس نہیں بلکہ قیامِ مدینہ کے دوران سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اﷲ عنہما ان کی امامت میں نمازیں بھی پڑھتے تھے اور انہیں لوٹاتے نہیں تھے بلکہ صحیح سمجھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ، ج: ۸، ص: ۲۵۸۔ سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۴۷۸۔ تاریخ صغیر بخاری، ص: ۵۷۔ بحار الانوار ملا باقر مجلسی، ج: ۱۰، ص: ۱۳۹)۔
]۵[آپ رضی اﷲ عنہ نے سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عبدالرحمن بن الاسود، سیدنا بسرۃ بن صفوان رضی اﷲ عنہم سے احادیث روایت کی ہیں۔ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی آپ کی کچھ روایات احادیث کی کتب میں مروی ہیں لیکن محققین کے نزدیک وہ روایات مرسل ہیں کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسم سے آپ کی رؤیت تو ثابت ہے لیکن روایت (سماع) ثابت نہیں۔ (الاصابہ، ج: ۳، ص: ۴۷۷)۔ سیدنا مروان رضی اﷲ عنہ سے صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سہل بن سعد الساعدی رضی اﷲ عنہ اور تابعین میں سے سعید بن المسیّب، علی بن الحسین، (زین العابدین)، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمن الحارث، عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ، مجاہد، ابو سفیان اور آپ کے بیٹے عبدالملک نے احادیث روایت کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب، ج: ۱۰، ص: ۹۱۔ الاصابہ، ج: ۳، ص: ۴۷۷۔ سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۳۷۶۔ تفصیل سے ملاحظہ کریں: پروفیسر قاضی محمد طاہر علی ہاشمی کی تالیف’’سیدنا امیر مروان بن حکم رضی اﷲ عنہ شخصیت و کردار۔
]۶[محقق العصر جید عالم مولانا محمد نافعؒ، فاضل دار العلوم دیوبند اپنی مشہور تالیف ’’رحماء بینہم‘‘ ج: ۱، ص: ۱۰۴۔۱۰۵ پر رقم طراز ہیں: ’’ناظرین کی خدمت میں گزارش ہے کہ جیسے رشتہ داران رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حصہ خمس خیبر (بشمولیت فدک) کے متعلق تفصیل سے یہ بات پیش کی گئی ہے کہ آلِ رسول کا حصہ خمس حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی نگرانی میں تقسیم ہو کر ملتا تھا ٹھیک اسی طرح مالِ فئی میں جو آل رسول کا حق تھا وہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور ان کی اولاد شریف کے ہاتھ میں دے دیا گیا تھا، ہاشمی حضرات مالِ فئی میں سے اپنے حصہ کو آپس میں خود تقسیم کرتے تھے۔ مسند ابو عوانہ اسفرائنی اور صحیح بخاری اور السنن الکبری، بیہقی، وفاء الوفا لنور الدین السمہودی میں یہ روایت طولانی مفصل مذکور ہے۔ اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ مدینہ کے اموال بنی نضیر وغیرہ میں بنی ہاشم و آل رسول کا حصہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دستِ تصرف میں تھا پھر یہ ان کے بعد امام حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کے ہاتھ میں تھا، پھر امام حسین بن علی رضی اﷲ عنہما کے ہاتھ میں تھا، پھر امام زین العابدینؒ کے ہاتھ میں تھا، پھر حسن بن امام حسن رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ میں تھا ، پھر زید بن حسن کے ہاتھ میں تھا۔ مالِ فئی کی آمدن اور وصولی کے مسئلہ کو شیعہ علماء نے ان کے زیر تصرف ہونا تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید۔ عثمان بن حنیف حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی طرف سے بصرہ کا عامل تھا، اس کو حضرت علی نے ایک خط میں لکھا اس کے الفاظ ہیں: ’’بلیٰ کانت فی ایدینا فدک الخ‘‘ ۔ اس متن کے تحت ابن ابی الحدید نے اپنی شرح نہج البلاغہ میں ’’فدک‘‘ کے لیے تین فصل قائم کیے ہیں۔ متعدد دفعہ اس نے یہ مسئلہ تسلیم کیا ہے کہ فدک وغیرہ کی آمدنی خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور ان کی اولاد شریف کے زیر تصرف تھی۔ چنانچہ لکھا ہے: فغلب علی عباسا علیہما۔ فکانت بید علی ثم کانت بید الحسن ثم کانت بید الحسین ثم علی بن الحسین ثم الحسن (مثنی) بن الحسن ثم زید بن الحسن (رحمآء بینہم، ص: ۱۱۱، مطبوعہ: دارالکتاب، لاہور)۔ اب عرض ہے کہ حضرت زید بن الحسن مثنیٰ نے ۹۰ سال کی عمر پا کر ۱۲۰ ھ میں وفات پائی جب کہ سیدنا مروان بن الحکم رضی اﷲ عنہما کی وفات رمضان المبارک ۶۵ھ میں ہوئی جب کہ فدک وغیرہ کی آمدن حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور ان کی اولاد شریف کی پشتوں تک نگرانی میں رہی حتیٰ کہ ۱۲۰ھ تک حضرت زید بن الحسنؓ کی نگرانی میں رہی، پھر حضرت مروانؓ اور ان کے بیٹوں عبدالملک اور عبدالعزیز کا قبضہ کب ہوا جبکہ حضرت مروانؓ ۶۵ ھ میں، عبدالملک بن مروان ۸۶ھ میں، عبدالعزیز بن مروان ۸۵ھ میں ہی اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اس لیے حضرت مروانؓ کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے فدک کی جاگیر پر قبضہ کر کے اپنے بیٹوں عبدالملک اور عبدالعزیز کو یہ جاگیر دے دی پھر ان کے پوتے عمر بن عبدالعزیز نے واپس لے لی یہ سب داستان جھوٹ کا پلندہ، جعلی اور وضعی ہے۔ تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں کتاب ’’رحمآء بینہم، ج:۱، ص: ۱۱۱۔ ۱۱۲) ۔
]۷[مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ

7 thoughts on “منقبت امیر المؤمنین سیدنا مروان بن حکم رضی اﷲ عنہما”

  1. رائے شبیر احمد says:

    پکے ناصبیوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دیکھاؤ گے۔ ان کی شان بیان کرو جو شان کے حقدار ہیں۔

  2. محمود حسین says:

    بخاری و مسلم کی ڈھیروں صحیح السناد احادیث تو مروان بن الحکم کے منفی کردار کی غمازی کرتی ہیں۔ آپ کا بڑا دل گردہ ہے کہ اجماع امہ سے مختلف رائے اور وہ بھی بخاری و مسلم کے مقابلے میں ظعیف روایات کا سہارا لے کر قائم کر رہے ہیں۔
    کٹر وہابی ہونے کے بوجود میں ال رسول سے بغظ و عناد رکھنے کو ظلم عظیم سمجھتا ہوں۔
    اللہ ہم سب کو قرآن و احادیث کا صحیح فہم اور حدایت عطا کرے۔
    آمین۔

    1. محترم المقام شاید آپ نے بخاری و مسلم کا نام سنا رکھا ہے ان کتب احادیث کا مطالعہ نہیں کیا…ان کتب احادیث کے راویوں میں جناب مروان بن حکم کا شمار ہوتا ہے…
      علامہ ابن حجر مکی رح نے اپنی مایہ ناز کتاب”الاصابہ فی تمیزالصحابہ”میں صغار صحابہ میں ان کا شمار کیا ہے..تو عجیب سے عجیب تر ہیں وہ دوست جو اہل سنت والجماعت کا فرد کہلوا کر بھی جناب مروان بن حکم پہ زبان طعن دراز کرتے ہیں.
      اگر بالفرض ہم ان کی صحابیت کا انکار بھی کردیں تو بھی کوئی وجہ نہیں کہ ہم تاریخی روایات کے بھروسہ پہ ان کے خلاف زبان طعن دراز کریں.اور جن راویوں کی اکثریت کو ائمہ جرح و تعدیل”کذاب.لاشئی.منکر الحدیث.غیر الثقہ.محرق رافضی”جیسے القابات دے چکے ہیں.تو ایسے راویوں کی روایات پر اگر جناب مروان بن حکم کے بارے میں غلط اعتقاد رکھا جاسکتا ہے تو معذرت کے ساتھ ایسی ہی روایات سیدنا ابوبکر صدیق.سیدنا عمر فاروق.سیدنا عثمان غنی.سیدنا علی المرتضی.سیدنا حسن المجتبی.سیدنا حسین شہید کربلا رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بھی کتب التواریخ کی زینت ہیں.ان کو بھی آپ بصد شوق تسلیم کریں.ہم تو بھائی قرآن وحدیث کے آئینہ میں ان مقدس شخصیات کو دیکھتے .پرکھتے ہیں…

      1. Abu Hafsa batool Ali says:

        السلام و علیکم و رحمة الله وبركاته
        محترم ابن کثیر نے مروان بن حکم کو صحابی کہا ہے مجھے اس حوالے کی سند چاہئے جس کا ذکر ابن کثیر نے کیا ہے.
        علامہ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے: وھو صحابی عند طائفۃ کثیرۃ لانہ ولد فی حیاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
        (البدایۃ والنہایۃ، ج:۸، ص: ۲۵۷)
        ایک دوست بضد ہیں کہ مروان بن حکم اچھا شخص نہیں تھا وہ علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا تھا۔براہ کرم اس موضوع پر مزید کچھ حوالا جات ہو تو عنایر فرما دیجئے۔

        1. عبدالمنان معاویہ says:

          محترم المقام جہاں تک بات جناب مروان بن حکم رضی اللہ عنہ کی سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے کی ہے تو یہ بھی سبائی و سبائیت زدہ راویوں کی خود ساختہ روایات ہیں…بلکہ صحیح روایات کے مطابق جناب مروان بن حکم رضی اللہ عنہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے.پھر اس دور کو جس کے بارے میں ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماگئے”خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم”یہ حدیث مبارکہ ہر جمعتہ المبارک کو منبر پہ خطبہ میں خطیب صاحب پڑھتے ہیں.جس کا مفہوم یہ ہے کہ:”سب سے بہتر زمانہ میرا ہے پھر میرے.بعد والوں کا،پھر ان کے بعد والوں کا”-
          ہمارےاستاذ مکرم فرمایا کرتے تھے کہ ایک قرن،ایک سو بیس برس کا ہوتا ہے.تو اس لحاظ سے جناب مروان کے دور کو آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہتر فرمائیں اور جناب مروان کا دور پہلا دور بنتا ہے.لیکن افسوس کہ افراد اہل سنت کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ذیشان کو دل و جان سے تسلیم کرنے کے بجائے طبری،ابن اثیر اور دیگر مورخین کی کتب میں موجود ابن ہشام کلبی،لوط بن یحیی ازدی،واقدی جیسے راویوں کی روایات کو دل و جان سے مان لیتے ہیں.واسفا
          باقی سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والی روایات،تو یہ نا ممکن ہے کہ آج تو محبان علی رضی اللہ عنہ ایسے فرد کو بالکل برداشت نہ کریں حتی کہ آپ نے ماضی قریب میں دیکھا کہ سلمان تاثیر کو اس کے ایک سیکورٹی گارڈ نے ہی انجام تک پہنچا دیا کیا اس وقت کے مسلمانوں میں ممتاز قادری جتنی بھی غیرت نہ تھی کہ کوئی شخص جناب مروان کی سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے سے منع کرتا یا انجام تک پہنچاتا.
          عزیزان من ! سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے بنو امیہ کو اختلاف رہا ہے،قاتلان عثمان کے معاملہ پر.بنو امیہ اور کئی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سمجھتے تھے کہ قاتلان عثمان سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود ہیں جب تک انہیں سزا نہیں ملتی.باہمی مفاہمت ناممکن ہے.!
          سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اسی معاملہ کو اپنے ایک خطبہ میں یوں ارشاد فرمایا::”ہمارا اور اہل شام کا خدا ایک،رسول ایک،کتاب ایک،نہ ہم ان سے ایمان میں زیادہ ہیں نہ وہ ہم سے،ہمارا باہمی اختلاف دم عثمان پہ ہوا،واللہ ہم اس سے بری ہیں”(نہج البلاغہ،مکتوب نمبر58)
          بس اسی اختلاف کی وجہ سے بعض بنو امیہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے نالاں تھے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ سب و شتم جیسا فعل بد کرتے تھے…
          اللھم انی اعوذبک من فتنہ السبائیتہ الملعونتہ..آمین

  3. عبدالحمید says:

    صحیح البخاری حدیث 956.ابو سعید الخدری نے مروان کو عیدین کی نماز سے پہلے خطبہ دینے پر سنت نبوی کو بدلنے پر اعتراض کی او کہا کہ ا تو مروان نے اسے کہا, وہ دور گزر گیا۔ہمارے دور مین لوگ نماز کے بعد نہی بیٹھتے اس لیے مین نے نماز سے پہلے خطبہ دیا،ابو سعید نے اسے کہا بخدا مین جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہی جانتا۔۔ یہ ہے مروان کا دور اور اسکی فقاہت۔۔۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
    صحیح البخاری کی حدیث 3605…,ابو ہریرہ مروان کے سامنے کہ رہے ہیں نےسچوں کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی۔مروان نے پوچھا۔نوجوان لڑکوں کے ھاتھ پر,,؟.,اس پر ابو ہریرہ نے کہا تم چاہو تو مین انکے نام بھی لے دوں کہ بنی فلاں اور بنی فلان۔۔۔۔۔
    صحیح البخاری ۔3703میں بھی مروان کے دور اقتدار مدینہ مین منبر پر ابو تراب کا نام لیکر برا یان بیان کی جاتی تھیں۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.