سانحۂ دوالمیال:بلدیہ تلہ گنگ کا ایک مستحسن قدم
ڈاکٹرعمرفاروق احرار
سیاست کو ایک طرف رکھیں اوربلدیہ کے اچھے فیصلے کو دِل کھول کر،خوب داددیں۔سب سے مقدّم دین ہوتاہے۔صرف اورصرف سیاست تو دُنیا داروں کا کھیل ہے۔ہاں اگر اِس میں دین کی ماتحتی قبول کرلی جائے تو سیاست بھی عبادت بن جاتی ہے۔گزشتہ دنوں بلدیہ تلہ گنگ کا ماہانہ اجلاس ہوا۔جس میں برادرعزیززاہداعوان وائس چیئرمین بلدیہ نے دیگر قراردادوں کے علاوہ حسب ذیل قراردادپیش کرکے، سچی بات ہے کہ ختم نبوت کے پروانوں کے دل جیت لیے اور اپنا شمارمجاہدینِ ختم نبوت کی فہرست میں کرالیاہے۔قراردادسانحۂ دُوالمیال کے حوالے سے تھی۔اخباری رپورٹ کے مطابق’’میونسپل کمیٹی تلہ گنگ کے ماہانہ اجلاس میں12ربیع الاول کو ہونے والے سانحۂ دُوالمیال ضلع چکوال کے مسلمان متاثرین سے اظہارِیک جہتی کرتے ہوئے ایک متفقہ قراردادمیں حکومت پنجاب سے مطالبہ کیاگیاکہ اس افسوسناک واقعہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔بے گناہ مسلمانوں کو رہا کیاجائے اورقادیانیوں کی فائرنگ سے شہیدہونے والے مسلمان نعیم شفیق شہیدؒکے قتل کی ایف آئی آردرج کرکے، ضلع بھر میں پائی جانے والی کشیدگی واِشتعال کی فضاء ختم اورامن وامان کی صورت حال بحال کی جائے ۔نیزاِس واقعہ میں ملوث قادیانیوں کو قرارواقعی سزادی جائے۔قراردادمتفقہ طورپرمنظورکی گئی اورنعیم شفیق شہیدؒکے ایصال ثواب کے لیے اجتماعی دعابھی کی گئی۔‘‘
بلدیہ تلہ گنگ کے چیئرمین،وائس چیئرمین اورتمام ممبران مبارک بادکے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے اہم دینی مسئلہ کو اِیوان میں پیش کیاکہ جس پر ضلع چکوال کی تمام سیاسی جماعتیں،اراکینِ اسمبلی اورعوامی نمائندگی کے دعوے دارموسمی سیاست دان بالکل لاتعلق اور خاموش ہیں۔اُن کی زبانوں پر تالے لگ چکے ہیں اوروہ محض دنیاکے سیاسی مفادات اورمنکرین ختم نبوت قادیانیوں کی خوشنودی کی خاطر،جیلوں میں قیدبے گناہ مسلمانوں کی حمایت میں آوازاُٹھانے سے عاری ہیں۔اُنہیں اِتنی بھی توفیق نہ ہوسکی کہ وہ مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیتے یاکم ازکم شہیدہونے والے مسلمان کے گھر میں تعزیت ہی کرلیتے۔چندروزہ اختیارو اِقتدارکی خاطرگستاخانِ رسولﷺ کی طرف داری کرنے والے روزِ قیامت خاتم النبیینﷺکو کیامنہ دکھائیں گے؟خوش نصیب ہیں ،بلدیہ تلہ گنگ کے معززاَراکین، کہ جنہوں نے تحفظ ختم نبوت کے پروانوں کی صف میں اپناشمارکرالیاہے یقین ہے کہ حشرکے دن اُن کے نامۂ اعمال میں اُن کایہ عمل سب سے قیمتی اوربھاری ہوگا۔ناموسِ رسالت کا تحفظ اورجدوجہدخوش بختی اورخوش نصیبی کی بات ہے۔حضرت پیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان ہے کہ ’’جوشخص تحفظ ختم نبوت کاکام کرتاہے۔اُس کی پشت پرنبی کریمﷺکاہاتھ مبارک ہوتا ہے۔‘‘ مسلمان کے لیے اِس سے بڑی خوش قسمتی اورکیاہوسکتی ہے کہ اُسے اﷲ کے آخری رسولﷺکی پشت پناہی نصیب ہوجائے۔جسے یہ سہارامل جائے ،اُس کے لیے اِس سے بڑی سعادت وبلندبختی اورکیاہوسکتی ہے!درحقیقت بلدیہ تلہ گنگ نے ایک اہم دینی مسئلہ پر عوامی نمائندگی کا حق اداکیاہے اور سیاسی شخصیات اور جماعتوں کو یہ پیغام بھی دیاہے کہ سیاست دان جہاں عوام کے سماجی مسائل کوایسے پلیٹ فارم پر زیربحث لاتے ہیں ،وہیں اُن کو عوام کے مذہبی معاملات کی نمائندگی کا حق بھی اداکرناچاہیے اوراُن کے حل کے لیے اپنی مساعی کو بروئے کارلاناچاہیے۔
دُوالمیال کے ایک سوکے لگ بھگ مسلمان دوماہ سے جیل کی آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔اُن کا جرم یہ ہے کہ وہ تحفظِ ختم نبوت کے سپاہی ہیں۔ قادیانیوں نے 12ربیع الاول کو میلادکے پُرامن جلوس پر فائرنگ کرکے کئی مسلمانوں کو زخمی اورایک نوجوان کو شہیدکردیاتھا۔قادیانیوں کی اِس دن دیہاڑے کھلی دہشت گردی کے باوجوداُلٹانہتے مسلمانوں ہی کو گرفتارکیاگیا اور تین ہزارسے زائدمسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں نامزد کر دیا گیا۔ بلاشبہ یہ تکالیف اورمصیبتیں اُن مظلوم مسلمانوں کے لیے توشۂ آخرت ہیں،مگر سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اُن مسلمانوں کی مظلومیت کے لیے آواز اُٹھانے سے خوف زدہ اوراِحتجاج کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟ کیا ہم سے بھی میدانِ محشرمیں اِس کی بابت نہیں پوچھا جائے گاکہ ایک طرف تحفظِ ناموسِ رسالت کی پاداش میں اسیرانِ ختم نبوت جیلوں میں سُنت ِ یوسفی اداکرتے رہے اوردُوسری طرف تم اپنی انفرادی عبادت اوروقتی سیاست میں مگن رہے اور اُن کی اخلاقی مددسے بھی ہاتھ کھینچے رہے ؟یہ سوال یقیناپوچھاجائے گا ۔دل پر ہاتھ رکھ کرتصور کیجیے کہ اﷲ کے حضوراُس وقت ہمارے دامن میں ذلت ورُسوائی اورشرمندگی کے سواکیا جواب ہوگا!کوئی ہے کہ جو اِس پر سوچ سکے ،اے کاش کوئی توہو!
پوچھیں گے، جب رسول ہی، غمگیں، بچشمِ تر
محشر میں پھر جواب، سُجھایا نہ جائے گا