تحریک ختم نبوت (1953)کے اسیروں کی رُوح پروریادیں
مولانا مجاہدالحسینی مدظلہٗ
برصغیر پاک وہند میں اگرچہ بڑی بڑی تحریکیں اُٹھی ہیں، اُن کی ہمہ گیری اور مقبولیت بھی مسلّمہ ہے، مگر جو وُسعت اور ہمہ گیری تحریک تحفظ ختمِ نبوّت ۱۹۵۳ء کو ملی ہے۔ وہ کسی بھی دوسری تحریک کو حاصل نہیں ہوسکی۔ اس تحریک میں صرف کسی ایک مسلک اور عقیدے یا کسی خاص جماعت سے وابستہ افراد نے حصہ نہیں لیا تھا، بلکہ حسبِ استطاعت ہر فرزندِ اسلام اور جاں نثارِ ختمِ نبوت ورسالت، ہر مسلک وعقیدہ کے مسلمان اور ہر مسلم جماعت کے افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اِس تحریک میں مجلسِ احرارِ اسلام داعی ومیزبان جماعت کی حیثیت سے شامل تھی۔ پیران طریقت اور مشایخِ عظام بھی شریک تھے اور سیاسی جماعتوں کے دینی ذہن وعقیدہ کے حامل حضرات بھی۔ حتیٰ کہ سرکاری محکموں کے افراد نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، یہ واحد تحریک تھی کہ جس میں حصہ لیتے ہوئے لاہور کے سیکرٹریٹ، محکمہ ڈاک اور ریلوے کے بعض مقامات پر بھی ہڑتال ہوئی تھی۔
٭٭٭
دیوانی احاطے کے اردگرد لاہور سینٹرل جیل کے تمام وارڈوں میں اسیرانِ ختمِ نبوت قید تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ امیرِشریعت سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ دیوانی احاطے میں قید ہیں تو اُنھوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل مہر محمد حیات اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ امتیاز نقوی سے ملاقات کی اجازت حاصل کی، چنانچہ تحریکِ ختمِِ نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں اسیرانِ ختمِ نبوت بغرضِ ملاقات جب دیوانی احاطے کی جانب آرہے تھے تو ہتھکڑیوں اور ٹانگوں میں کَسی بیڑیوں (لوہے کی سلاخوں) کی جھنکار سے جیل کے درودیوار میں عجیب ارتعاش پیدا ہوچکا تھا۔ قیدیوں کا قافلہ جوں جوں دیوانی احاطے کے قریب آرہا تھا جیل کا ماحول بھی ساتھ ساتھ کروٹیں لے رہا تھا۔ بیڑیوں کی جھنجھناہٹ سُن کر میں تیزی سے احاطے کے دروازے پر پہنچا تو قیدیوں کو دیکھتے ہی میں نے جلدی سے امیرِشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور دیگر حضرات کو اُن کی آمد سے مطلع کیا۔ شاہ صاحب یہ خبر سنتے ہی دیوانہ وار دروازے کی جانب دوڑے، اِتنے میں قیدیوں کے قدم دیوانی احاطے میں داخل ہوچکے تھے۔ امیرِ شریعتؒ نے جاتے ہی قیدیوں کی ٹانگوں میں لگی بیڑیوں اور اُن کی ہتھکڑیوں کو چومتے ہوئے فرمایا :’’تم لوگ ہمارا سرمایۂ نجات ہو، تم صرف عقیدۂ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تحفظ کی خاطر قید وبند ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جکڑ بندیاں برداشت کررہے ہو۔ جبکہ لوگ مادی مفادات اور حصولِ اقتدار کے لیے جیل خانوں کی سختیاں برداشت کرلیتے ہیں، تمہارا منشاء مادی مفادات اور حصولِ اقتدار ہر گز نہیں ہے۔ تم تو اَﷲ تعالیٰ اور اُس کے آخری رسول ﷺ کی خوشنودی اور رضا جوئی کی خاطر پسِ دیوارِ زنداں آئے ہو، اﷲ تمہیں اس کا اجرِ عظیم عطا کرے گا۔‘‘
امیرِشریعت سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ابھی اُن سے مخاطب تھے کہ ایک قیدی لڑکے نے شاہ صاحب کی خدمت میں تحریک کے دوران اپنے بھائی کی شہادت کا تذکرہ کردیا۔ سنتے ہی شاہ صاحب کی آواز گلوگیر ہوگئی، آپ نے اس لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’کاش! وہ گولی جو اُس نوجوان کے بھائی کا سینہ چھلنی کرگئی۔ وہ گولی میرے سینے میں پیوست ہوجاتی اور ناموسِ رسالت کے لیے شہادت کا درجہ میرے نصیب میں ہوتا۔ خوش نصیب ہے یہ خاندان !کہ جس کے بخت میں ناموسِ رسالت کے تحفظ کی خاطر شہادت کی سعادت لکھی گئی ہے۔‘‘
حضرت امیرِشریعتؒ کے ان اسیرانِ تحریکِ ختمِ ِ نبوت سے خطاب کے دوران سب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی اور دُعائیہ کلمات پر آمین کی پُرکیف صداؤں سے فضا میں تقدس کی لہریں بکھرتی جارہی تھیں۔
٭٭٭
حضرت امیر ِشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے قیدکے دوران ایک سال کے عرصے میں بریلوی مسلک کے ناموربزرگ مولاناسیّد ابوالحسنات محمداحمد قادری رحمۃ اﷲ علیہ کو بیت الخلاء جاتے وقت کبھی لوٹا اُٹھانے کا موقع نہیں دیا ، بلکہ پانی بھر کر دروازے تک لوٹا خود چھوڑ کر آتے۔ حتیٰ کہ ہمیں اصرار کے باوجود یہ خدمت انجام دینے کی ہرگز اجازت نہ دی،بلکہ امیرِ شریعت رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ:
’’ ہم لوگ تو مختلف تحریکوں میں حصہ لے کر مصائب برداشت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ قیدوبند کی صعوبتیں ہمارے لیے نئی اور انوکھی نہیں ہیں۔ ہتھکڑیوں اور آہنی بیڑیوں کی جھنکار تو ہمارے لیے قابلِ افتخار زیور کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن مولانا ابوالحسنات جس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔وہ اس وادیٔ پُرخار کے لوگ نہیں ہیں۔ اُنھوں نے جس صبر اور اِستقامت کا مظاہرہ کیا اور پاداشِ حق میں زینتِ زنداں بنے ہیں، لائقِ صد تحسین وآفریں ہے۔ پھر گھر میں کوئی دوسرا بچہ اور نرینہ اولاد موجود نہیں ہے جو اہلِ خانہ کو رَوزمرہ کی اشیائے خوردنی ہی بازار سے لاکر دے سکے۔ دونوں باپ بیٹا یہاں جیل خانے کی سلاخوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اُن کے سینے میں ناموسِ رسالت اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کا جذبۂ صادق موجود ہے۔ ہم اِس کا نہ تو حق ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی زبان والفاظ اس کے صحیح عکاس ہوسکتے ہیں۔ قلبی کیفیات گفتنی نہیں ہوا کرتیں۔ میرے دل میں مولانا کی بڑی قدر و منزلت ہے۔‘‘
٭٭٭
جیل سے رہائی کے بعد مولانا سید ابوالحسناتؒ نے بھی اپنی کئی مجالس اور بعض عوامی اجتماعات میں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے خلوص و محبت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے عظیم خدمات کا برملا اعتراف کیا اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’بخاری صاحبؒ کے بارے میں پہلے تو میری رائے درست نہ تھی، لیکن جب جیل میں اُن کو ہر لحاظ سے پرکھا تو اُن کے بارے میں میری رائے بدل گئی، وہ بہت مخلص اور بہادر آدمی ہیں۔ حضورِ اَنور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہیں۔ اسی وجہ سے میرے دل میں اُن کا بہت احترام ہے۔‘‘
٭٭٭
لاہور سینٹرل جیل میں شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ کی جب تشریف آوری ہوئی تو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل نے، جو اُن کا مرید بھی تھا، ہمارے وارڈ میں آکر اطلاع دی کہ شیخ لاہوریؒ بھی گرفتارہو کر آپ کے اِسی وارڈ میں تشریف لارہے ہیں اور اُن کے لیے میں چارپائی کا بندوبست کرتا ہوں، چونکہ جیل میں سارے قیدی زمین پر ہی اپنا بستر بچھائے شب و روز گزارتے تھے، وہاں چارپائی کا کوئی تصور نہ تھا، لیکن ایک مرید اپنے پیرو مرشد کے لیے چارپائی لے کر آگیا۔ میں نے اُس کے ساتھ مل کر وہ چارپائی بم کیس وارڈ کے سامنے والے بڑے کمرے میں بچھادی، اس پر چٹائی ڈال کر کمبل بچھایا اور کمبل کے اُوپر اپنی بیڈ شیٹ ڈال کر اُسے آرام دہ بنادیا۔ جب شیخ لاہوریؒ تشریف لائے تو آپ نے آتے ہی دریافت کیا:
یہ چارپائی پر بستر کس کے لیے ہے؟میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ آپ کی خاطر ہے!حضرت نے دریافت کیا: ’’کیاآپ سب لوگوں کے لیے چارپائیاں اسی طرح موجود ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’حضرت! باقی لوگ زمین پر ہی بستر بچھائے لیٹ جاتے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی شیخ رحمۃ اﷲ علیہ نے اُٹھ کر اپنا بستر زمین پر ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’محافظینِ ناموسِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم تو زمین پر لیٹے ہوں اور احمد علی چارپائی پر؟ یہ تو نہ صرف محبانِ رسول کی اہانت ہے، بلکہ مساواتِ اسلامی اور میرے ضمیر کے بھی منافی ہے۔‘‘ پھر شیخ لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ بھی تمام زمانۂ اسارت میں زمین پر ہی دوسرے قیدیوں کے ساتھ استراحت فرمایا کرتے تھے۔انہوں نے اپنی بیماری، ضعیفُ العمری اور کمزوری کے باوجود اپنے اوراد ووَظائف اور ذکر وفکر کا سلسلہ جیل میں بھی جاری رکھا۔بعد نمازِ فجر درسِ قرآن کے بعد شیخ لاہوریؒ کے ہمراہ راقم الحروف کو سیر کی سعادت نصیب ہوتی تھی۔ جیل کی بڑی دیوار کے ساتھ ساتھ چہل قدمی ہوتی تھی۔
٭٭٭
دیوانی احاطے میں زیادہ تر بزرگ اور مرکزی قائدین موجود تھے۔ ایک روز میں نے اُن بزرگوں کو دیکھا کہ یکجا ’’متفکرانہ‘‘ طورپر محوِ گفتگو ہیں۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ِاس جیل میں ہم کب تک محبوس رہیں گے؟ یہ مشایخِ عظام اگر ہمہ وقت اِس انداز میں تحریک کی کامیابی کے لیے متفکر رہے جواُن کی عظمتِ شان کا تقاضا بھی تھا تو رفتہ رفتہ اِن بزرگوں کی صحت ضرور متاثر ہوگی۔ اِس لیے اِن حضرات کی صحت کے پیشِ نظر چند لمحے خوش طبعی کی خاطر بھی مخصوص ہونے چاہئیں۔ اس فکر مندی کے ساتھ میں نے امیرِشریعت رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں رازدارانہ انداز میں عرض کیا کہ آپ ذرا اُس گراؤنڈ میں تشریف لائیں تو مہربانی اور شفقت ہوگی۔ شاہ جی نے فرمایا: بتاؤ !کیا بات ہے؟ میں نے پھر عرض کیا: ذرا تشریف تو لائیے۔ اتنے میں رُومال کو گول کرکے اُس کی گیند بنائی اور شاہ جی کی جانب پھینکتے ہوئے کھیل کا آغاز کیا۔ شاہ جی نے بھی مسکراتے ہوئے وہ گیند میری جانب پھینکی تو ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اس سے اچھا خاصا کھیل کھیلا جاسکتا ہے۔ میں نے تمام بزرگوں کی خدمت میں درخواست کی کہ آج سے نماز عصر کے بعد سب حضرات کے لیے گراؤنڈ میں کھیل لازم قرار پایا ہے اور کوئی بزرگ بھی مستثنیٰ نہیں ہوگا۔
اس پر مولانا سیّد ابوالحسناتؒ نے اپنے پاؤں کی تکلیف اور شیخ حسام الدینؒ نے گھٹنے کے درد کا ذکر کرتے ہوئے معذرت کی،چنانچہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ممتاز حسین صاحب کی معرفت ’’والی بال اور بیڈ منٹن‘‘ کا سامان ہمارے احاطے میں پہنچ گیا اورپھر دو ٹیمیں بن گئی تھیں۔ ایک جانب شاہ جی، مولانا محمد علی جالندھری، سیّد نور الحسن شاہ بخاری، مولانا محمد حیات، عبدالغفور انوری اور سائیں محمد حیات تھے۔ دوسری جانب مولانا عبدالحامد بدایونی، ماسٹر تاج الدین انصاری، سیّد سبط حسن، مولانا لال حسین اختر، صاحبزادہ سیّد فیض الحسن (رحمۃ اﷲ علیہم) اور راقم الحروف تھے۔ ہمارے اس پروگرام کی اطلاع جب بم کیس وارڈ میں پہنچی تو وہاں بھی ایک ٹیم تیار ہوگئی۔ جس میں جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کی اکثریت تھی ۔جن میں سے مولانا امین احسن اصلاحی، میاں طفیل محمد، ملک غلام علی، مولانا کوثر نیازی، شیخ فقیر حسین، نعیم صدیقی، عبدالوحید خاں اور چراغ الدین کے نام خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ایک روز ہماری ٹیموں کا میچ بھی ہوا تھا۔