وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر گستاخیوں کا اِرتکاب کرنے والے بلاگرز کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور تحقیقات سے روکے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد ڈالنے والوں کی تعداد میں خطرنا ک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ، اور گستاخانہ مواد وَالے پیجز اور اَکاؤنٹس دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں ۔ ایف آئی اے کو درخواستیں ملنے کے باوجود اِدارے کے اعلیٰ حکام گستاخانہ مواد ڈالنے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور تحقیقات کرنے سے گریزاں ہیں۔ جس سے اسلام، قرآن پاک اور شعائرِ اسلام کا کھلے عام مذاق اڑانے والوں کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے، ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل گستاخانہ بلاگرز کی گمشدگی کے بعد بند ہونے والے سوشل میڈیا پیجز اور اکاؤنٹس دوبارہ متحرک ہوچکے ہیں، ایف آئی اے کو اِن گستاخ بلاگرز کے خلاف دی گئی درخواستیں سرد خانے کی نذر ہو چکی ہیں۔ 21؍ اپریل کو اَیف آئی اے کو دی گئی درخواست جس کا ڈائری نمبر 491/16 ہے، میں شکایت کنندہ کی جانب سے ڈائریکٹر سائبر کرائمز سیل، این آر تھری سی، اسلام آباد کی توجہ فیس بک پر مفتی ضیاء وَن نامی ایک اکاؤنٹس کی طرف مبذول کرائی گئی۔ جس میں گستاخانہ مواد موجود ہے۔ درخواست کے ساتھ حضور نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کے خلاف شیئر کیے گئے گستاخانہ مواد کا حوالہ دیتے ہوئے، گستاخی کے مرتکب ملعون شخص کی تصویر اور وِیڈیوز اور پوسٹس کی تصاویر بھی ایف آئی اے کو فراہم کی گئیں، لیکن ایک سال بعد بھی اس کے خلاف نہ تو مقدمہ درج ہوا، اور نہ اسے گرفتار کیا جاسکا ہے۔ اسی طرح 24جون 2016 کو سائبر وِنگ کو دی گئی درخواست میں جس کا ڈائری نمبر750/16 ہے، ایف آئی اے کی توجہ وفاقی دار الحکومت کے ایک معروف عصری تعلیمی ادارے کے شعبۂ اُردو کے سربراہ کی جانب سے کلاس لیکچر کے دوران بچوں کو اسلام مخالف تعلیم دینے کی جانب مبذول کرائی گئی۔ جس میں سوشل میڈیا پر انوار احمد کی بنائی گئی آئی ڈی کی تفصیلات کے علاوہ، ویڈیو کے متعلق تفصیلات بھی دی گئیں ۔درخواست میں ایف آئی اے حکام سے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے کو جلد از جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی گئی ، لیکن آج تک اس کیس میں بھی نہ تو مقدمہ درج کیا گیا اور نہ نامزد شخص کو گرفتار کیا جا سکا ہے ۔2جون 2015 کو فیس بک پر گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے کے خلاف ڈائریکٹر اَیف آئی اے سائبر کرائمز وِنگ کو درخواست دی گئی۔ جس کا ڈائری نمبر 731/15 ہے، پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس پر ڈی جی ایف آئی اے کو 9؍ دسمبر 2015 کو درخواست میں گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے والے شخص کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی گئی، لیکن اس پر بھی قانون حرکت میں نہ آسکا۔ ذرائع کے مطابق رواں ماہ کے دوسرے ہفتے سے سوشل میڈیا پر بھینسا نامی اکاؤنٹ دوبارہ فعال ہوچکا ہے اور اس پر گستاخانہ تحریروں، خاکوں، تبصروں اور تصویروں کے علاوہ وڈیوز بھی پوسٹ کی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ چودھری نثار نے ایف آئی اے کے جانب سے گستاخ بلاگرز کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ادارے کو کارروائی سے روک دیا تھا۔ وزیر داخلہ کے ڈائریکٹر میڈیا سرفراز حسین کی جانب سے یکم فروری 2016 کو جاری ہونے والے بیان میں گمشدہ گستاخ بلاگرز کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بلاگرز اَوراُن کے خاندان گزشتہ کئی روز سے ایک مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں، کس نے ایف آئی اے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ان کی پریشانی میں اضافہ کرے، انہوں نے کہا تھا کہ کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ ایف آئی اے کیوں اس سلسلے میں غیر ضروری مستعدی اور بلا جواز فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہ رہی ہے۔
(روزنامہ ’’امت‘‘، راولپنڈی۔ 21؍ فروری 2017)