تحفظ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کی تیاری کی جارہی ہے ، سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر قیادت تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کی سفارشات کو ایک مرتبہ پھر کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے ،ذرائع کے مطابق کمیٹی کے اجلاس میں توہین کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمے کا اندارج مشکل اور گستاخوں کے لئے معافی کی تجاویزپر غور کیا جائے گا، واضح رہے کہ اس سے قبل کمیٹی کے ایجنڈے میں اس معاملے کو غازی ممتاز قادری کو سپریم کورٹ سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد شامل کیا گیا تھا ۔ کمیٹی نے اپنے اجلاسوں میں ممتاز قادری کو سنائی گئی سزا پر اطمینان کا اظہار کرنے کے بعد تحفظ ناموس رسالت قانون میں مزید ترامیم کی سفارشات کابیڑا اُٹھایا تھا ، اس سلسلے میں کمیٹی اب تک تین اجلاس کر چکی ہے ، کمیٹی کی کوشش ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمے کا اندارج آسان نہ رہنے دیا جائے او ر مقدمے کے اندراج سے پہلے ’’تحقیقات‘‘ کر کے یہ جان لیا جائے کہ آیا یہ الزام درست ہے یا غلط۔ نیز یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ توہین رسالت کے تحت درج کئے گئے مقدمات کی تفتیش سینئر پولیس افسران کے ذمے ہو ۔’’ امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق توہین رسالت کے مرتکب مردوں اور خواتین کے لئے معافی کے امکان کو یقینی بنانے کے لئے تجاویز زیر غور ہیں ۔ تاہم سینیٹ کمیٹی کے 1990ء کی دہائی میں سربراہ رہنے والے راجہ ظفر الحق کی وجہ سے پیش رفت میں تاخیر ہے کہ وہ کمیٹی کے بلائے جانے کے باوجود ابھی تک کمیٹی میں حاضر نہیں ہوئے اور انہوں نے اس دور میں اس ضمن میں کئے گئے کام سے کمیٹی کو آگاہ نہیں کیا، واضح رہے کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کے لئے معافی ممکن بنانے کا فائدہ سب سے پہلے ملعونہ آسیہ بی بی کو بھی ہو سکتا ہے ، جسے بچانے کے لئے سابق صدر آصف زرداری نے اپنے دور صدارت میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ٹاسک دیا تھا ۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق سلمان تاثیر نے آصف زرداری کی ہدایت پرہی گورنر ہاؤس سے ملعونہ آسیہ کی درخواست ٹائپ کرائی تھی ، اور اس درخواست پر آسیہ کے دستخط کرانے کے لئے شیخو پورہ جیل گئے تھے ،جہاں انہوں نے نہ صرف ملعونہ آسیہ سے ملاقات کی بلکہ میڈیا سے گفتگو میں تحفط ناموس رسالت کے قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہا، جس پر اُن کے اپنے ہی سرکاری گارڈ نے انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔
کمیٹی کے ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم جس کے ارکان اور عہدیدار وں پر بلدیہ ٹاؤن کراچی کی فیکٹری میں اڑھائی سو سے زائد مزدوروں کے بھتہ نہ ملنے پر زندہ جلا دینے کا الزام ہے ، اور جس کے ارکان کا نام بارہ مئی کے سانحہ کے ذمہ داروں میں بھی شامل ہے ، اسی پارٹی کی رکن نسرین جلیل، سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی چیئر مین ہیں، جبکہ سابق صدر آصف زرداری جنہیں سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ’’بیک فٹ‘‘ پر جانا پڑا تھا ، اب اُن کے انتہائی معتمد ساتھی سینیٹر فرحت اﷲ بابر اِس معاملے میں سب سے زیادہ متحرک ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اگلے الیکشن سے پہلے ملک کے اندر اور باہر سیکولر لابیز کوا پنے ساتھ جوڑنے اور ان کی سوشل میڈیا میں موثر حمایت حاصل کرنے کے لئے ملک کی بڑی جماعتیں اورا ُن کے قائدین بڑھ چڑھ کر کوششیں کر رہے ہیں ۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے 16جنوری کو متوقع اجلاس کے ایجنڈے میں لاپتہ ہونے والے بلاگرز اور طیبہ کیس کے علاوہ یہ ایشوبھی اہم ترین نکات میں شامل ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا1990ء کی دہائی میں اس کمیٹی کے سربراہ رہنے والے راجہ ظفر الحق کی وجہ سے کام میں ابھی تک بامعنی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے،کیونکہ 90ء کی دہائی میں اس کمیٹی نے اس معاملے پر کام ادھورا چھو ڑ دیا تھا ۔ تاہم فرحت اﷲ بابر کے مطابق راجہ ظفر الحق کو اِس سے پہلے بھی کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا تھا کہ وہ کمیٹی کو پرانی پیش رفت سے آگاہ کریں، لیکن وہ نہیں آئے ،اب بھی اگر وہ نہیں آتے تو اِس بارے کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ اس نے اپنے ایجنڈے کو کیسے آگے بڑھانا ہے ، اس سوال پر کہ اس موضوع کو اَیجنڈے پر لینے اور اس میں ترامیم پیش کرنے کا محرک کون ہے؟ فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ کوئی خاص فرد محرک نہیں، یہ کمیٹی نے خود ہی اپنے ایجنڈے میں شامل کیا تھا، جو اَب بھی ایجنڈے پر ہے ، واضح رہے کہ اس سے پہلے دودسمبر کو اِنسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کمیٹی نے اس معاملے کو ایجنڈے پر رکھتے ہوئے اس پر بات کی تھی ۔ ’
’’امت‘‘ نے سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کی عوامی نیشنل پارٹی کی رکن ستارہ ایاز سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہ ’’اس قانون کے تحت مقدمے کے اندراج ، تفتیش او ر معافی کے معاملات پر فوکس ہے ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم کتنی مضبوطی سے کوشش کرتے ہیں اور قانون کو کتنا مؤثر یا فعال بنا سکتے ہیں ، ایک سوال کے جواب میں ستارہ ایاز نے کہا کہ ہماری جماعت میں اس قانون کے بارے میں حتمی رائے منقسم ہے ، تاہم آج ہماری پارٹی کے اجلاس میں اس بارے میں واضح رائے اختیار کئے جانے پر بات ہو گی ، اسی کی روشنی میں میں کمیٹی میں اپنی رائے ظاہر کروں گی ۔دوسری جانب جمعیت علما ء اسلام (ف) کے رکن سینیٹ مفتی عبدالستار نے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’’میں بھی کمیٹی کا رُکن ہوں ، میں نے کمیٹی سے کہا کہ آپ غلطی کرر ہے ہیں ، بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ قانون کی اصلاح کا ایجنڈا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس قانون کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دینا چاہتے ہیں ، کمیٹی نے اس ایشو پر رَائے شماری کی بھی تجویز دی تھی ،اصل مسئلہ یہ ہے کہ نسرین جلیل اور فرحت اﷲ بابر اِس معاملے میں ہمراز بنے ہوئے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کے لئے معافی کی سہولت پیدا کر سکیں، لیکن انہوں نے ایسا کیاتو عوام قبول نہیں کریں گے ۔
(روزنامہ ’’امت‘‘، کراچی۔ 14؍جنوری2017)