دُوالمیال میں میلاد النبی کے جلوس پر قادیانیوں کا حملہ
سیف اللہ خالد
اطلاعات کے مطابق پنجاب کے ضلع چکوال کے قصبہ دوالمیال جو تحصیل چوآسیدن شاہ میں واقع ہے، جہاں قادیانیوں کے 50 سے 60 گھر ایک ہی جگہ واقع ہیں اور یہ لوگ علاقہ میں غنڈہ گردی کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں، قریبی علاقوں کے مسلمان ان کی جارحانہ طبیعت کے سبب خائف دکھائی دیتے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ متنازع مسجد 1860 میں تعمیر کی گئی۔ بعد ازاں قادیانیت کے منظر عام پر آنے کے بعد جب انیسویں صدی کے اوائل میں یہاں کے کچھ طاقت ور لوگ قادیانی ہوگئے تو انہوں نے اس مسجد پر قبضہ کی کوششیں شروع کر دیں اور قادیانیوں نے اس مسجد پر قبضہ کرلیا، پاکستان بننے کے بعد چونکہ قانون واضح نہیں تھا او ر قادیانی طاقتور بھی تھے، اس لیے مسلمان خاموش رہے، لیکن اپنے طور پر اس مسجد کی واپسی کے کوششیں کرتے رہے۔ 1984 میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کا قانون آنے کے بعدمسلمانوں نے اس معاملہ میں عدالت سے رجوع کیا اور مقامی مسلمان سید معیّد حسین شاہ مدعی بنے ، 80 کی دہائی کے آخرمیں 90 کی دہائی کی آغاز میں ملک کے بڑے وکیل جن میں مسلمانوں کی جانب سے قاضی یعقوب اور چودھری ظفر اقبال او رقادیانیوں کی جانب سے مجیب الرحمن پیش ہوتے رہے ، قاضی یعقوب کابیٹا بعد میں ہائی کورٹ کا جج بھی بنا ۔ مقامی سطح پر معلوم ہوا ہے کہ دوبار اس کیس کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو ا مگر قادیانی اپنی بہتر حکومتی پوزیشن کے سبب اس کے عملدر آمد میں رکاوٹ بنے رہے ، اورمسجد مسلمانوں کے حوالے نہیں کی گئی ۔ اطلاعات کے مطابق پرویز مشرف دور میں کیس کافیصلہ ہو جانے پر قادیانیوں نے عدالت پر دھاوا بولا اور مقدمہ کا ریکارڈ غائب کردیا ۔جس کا مقدمہ بھی درج کیاگیا۔
بتایا گیا ہے کہ اس مسجد پر قادیانیوں نے مسجد کے بجائے ’’دار الذکر‘‘ لکھوایا اور یہاں ڈش انٹینا کے ذریعے قادیانی چینلز کی نشریات بھی دکھائی جاتی تھیں۔ جس کے سبب مسلمانوں میں مسجد کے احترام متاثر ہونے کی بنیا د پر اشتعال پایا جاتاتھا، مقدمہ کے مدعی سید معیّد حسین نے آئی جی پنجاب ، وزیر اعلیٰ پنجاب سے لے کر اعلیٰ عدلیہ یہاں تک کہ صدر پاکستان او روزیر اعظم کو بھی درخواستیں دے رکھی تھیں کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کیا جائے ،یا کم از کم اسے سِیل کیا جائے ،مگر کسی بھی سطح پر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا او رحادثہ رونما ہو کر رہا ۔ اطلاعات کے مطابق بارہ ربیع الاول کے روز صبح 8بجے مسلمانوں کا جلوس بابالال شاہ مسجد سے نکلا جو اسی رُوٹ سے جارہا تھا، جلوس جب متنازع مسجد کے قریب پہنچا تو شرکاء نے یارسول اﷲ کے نعرے لگائے،قادیانیوں نے جو عمارت کی چھت پربنے مورچوں میں بیٹھے ہوئے تھے، جلوس پر پتھراؤ کیا او ر ہوائی فائرنگ کی،جس سے مشتعل ہو کر جلوس کے شرکاء جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا، مسجد کی جانب بڑھے اور اس دوران قادیانیوں نے اوپر سے فائرنگ کی۔ جس کے نتیجہ میں 8 مسلمان گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔ ان میں سے ایک نوجوان محمد نعیم شفیق کو قادیانیوں نے گیٹ سے گھسیٹ کر اندر گرا لیا۔ بعدازاں اسے ٹانگ میں گولی مار کر قالین کے نیچے دبا دیا او رفائرنگ جاری رکھی ۔اس دوران پولیس بھی آگئی۔ پولیس کی موجودگی میں بھی قادیانی فائرنگ کرتے رہے ، ایک پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ وہاں انہوں نے کسی مسلمان کو مسلح نہیں دیکھا، لڑائی کی خبر سن کر مزید مسلمان بھی وہاں پہنچے اور قادیانیوں کو مسجد چھوڑ کر بھاگنا پڑا، جو اس دوران زخمی نوجوان کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ، پولیس کی کوشش کے باوجود اسے برآمد نہیں کروایا جاسکا ۔ اطلاعات کے مطابق فوج کے آجانے او رعلاقہ کا چارج سنبھالنے کے بعد قادیانیوں نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو جانے والے نوجوان کی لاش حوالے کر دی ، اس کے جسم پر کئی ایک گولیوں کے نشانات تھے،فوجی افسروں کی ضمانت پر مسلمانوں نے لاش وصول کی جو اُس کے آبائی گاؤں تترال میں سپر د خاک کر دی گئی ، سرکاری ذرائع نے قادیانی جماعت کے ا س الزام کی تردید کی ہے کہ مسجد کو آگ لگائی گئی ہے ، مسلمانوں نے مسجد کے کسی حصہ کو آگ نہیں لگائی، البتہ مسجد میں موجود قادیانیوں کے سامان، ارتدادی لٹریچر، ڈش ، ٹی وی اور دیگر اشیاء کو مسجد سے نکال کر باہر آگ لگائی اور قبضے کا اعلان کر کے نماز عصر بھی وہاں ادا کی۔ بعد ازاں فوج کے آجانے پر مسجد سیل کر دی گئی ۔
پولیس ذرائع کے مطابق کے مطابق قادیانی مربی خالد اِس موقع پر ہارٹ اٹیک سے مارا گیا،پولیس نے دونوں جانب کی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کر کے قادیانی قیادت اسحاق، اشتیاق، خالد، رشید طفیل اور ملک ریاض کو گرفتار کر لیا ہے ، مسلمانوں کی جانب سے سید معیّد شاہ ، حاجی رشید سمیت لاتعداد فعال کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔
(روزنامہ ’’اوصاف‘‘، اسلام آباد۔ 15؍ دسمبر 2016ء)
٭……٭……٭