ڈاکٹر عمرفاروق احرار ’’برق وباراں‘‘
گزشتہ دنوں جناب وجاہت مسعود نے اپنی ویب سائٹ ’’ہم سب ڈاٹ کام‘‘پرایک مضمون بعنوان’’مظہر برلاس، گورداسپور اور جماعت احمدیہ‘‘ تحریر کیا ہے جو مظہربرلاس کے کالم کی اس سطرکا کہ’’مخصوص مکتبہ فکر کے ان علما اور قادیانیوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا‘‘جواب ہے۔وجاہت مسعود نے لکھا کہ: ’’قادیانی گروہ پر پاکستان کی مخالفت کا الزام بالکل غلط ہے ۔ پاکستان کے قیام کی جو مخالفت کرتے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد اپنے دیرینہ مؤقف پر دُھول ڈالنے کے لئے قادیانیوں پر پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا۔ اس الزام کی تائید میں کوئی ایک ثبوت کبھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ ایک دلیل گورداسپور کے الحاق کے ضمن میں دی جاتی ہے ۔ ‘‘اس کے بعد انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے کے موقع پر پنجاب کی تقسیم کے لیے بنائے گئے پنجاب باؤنڈری کمیشن اورپاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سرظفراﷲ قادیانی کی مساعی کاتفصیلی تذکرہ کیااورآخر میں وجاہت مسعود نے مجلس احراراسلام پر بھی ’’نگاہِ کرم‘‘کی ہے اورمجلس احراراسلام کے مؤقف کو پیش کرکے اُس پر بحث کرنے کی بجائے یہ تحریرکیاکہ’’ قیام پاکستان کے بعد ماضی روایت کے عین مطابق ظفراﷲ خان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے کہ ان کی نااہلی اور بدنیتی کے باعث بہت سے علاقے پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ الزام تراشی کی اس مہم میں مجلس احرار کے شعلہ بیاں مقررین پیش پیش تھے جو سرے سے تقسیم ہند کی مخالف جماعت تھی۔‘‘
عجیب بات ہے کہ وجاہت مسعودنے ایک مقدمہ پیش کیا اورخودہی منصف بن گئے اور اپنی مرضی کا فیصلہ بھی صادرکردیا۔جب تاریخ پر بات کی جائے تو ضروری ہوتا ہے کہ تاریخ کے دونوں رُخ سامنے رکھ کرکوئی فیصلہ کیا جائے۔وجاہت مسعود نے اپنے مضمون میں سرظفراﷲ خان کی باؤنڈری کمیشن میں’’ خدمات‘‘ کے لیے کسی مستند ماخذ کی بجائے خودظفراﷲ خان ہی کی خودنوشت’’تحدیث نعمت‘‘کے طویل اقتباسات نقل کرنے پر ہی اکتفاکیاہے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ظفراﷲ خان پر اعتراضات کی صفائی میں اُن کی اپنی گواہی کی بجائے کسی غیرجانبدار ماخذکی مدد سے اپنے کیس کو مضبوط کیاجاتا۔تاکہ کھراکھوٹانکھرکرسامنے آتااوراپنافیصلہ سنانے کی بجائے قاری کو کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے آزاد چھوڑدیاجاتا،چونکہ متحدہ پنجاب کی تقسیم ایک بہت ہی اہم مرحلہ تھا۔اس لیے اس پر ٹھوس دلائل کے ساتھ سنجیدہ گفت گو کی اشدضرورت باقی ہے ،کیونکہ تقسیم پنجاب کے وقت گورداس پورکے انڈیاکی تحویل میں چلے جانے سے پاکستان کے وجودکو شدیدنقصان پہنچااورہماراملک دریاؤں کے پانی روک دینے جیسے مسائل سے آج بھی دوچار ہے ، اس لیے اس اہم علاقے کو بھارت کے سپردکرنے میں ملوث کرداروں کا تعین بہت ضروری ہے۔
قادیانی جماعت جسے میرے فاضل دوست محب وطن اورتحریک پاکستان کی حامی جماعت ثابت کرناچاہتے ہیں۔مگر تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ قادیانیوں کے سربراہ مرزابشیرالدین محمودنے اپریل 1947 کو اخباری نمائندوں کے اس سوال پرکہ ’’کیاپاکستان کا قیام عملی طورپرممکن ہے؟‘‘ جواب میں کہاتھا کہ ’’سیاسی اورمعاشرتی نکتہ نگاہ سے یہ ممکن ہوسکتا ہے، تاہم میں ذاتی طورپر سمجھتاہوں کہ ملک کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (قادیانی اخبار: ’’الفضل‘‘، قادیان، 12؍اپریل 1947)قادیانی اکھنڈ بھارت کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں ۔اسی لیے مرزابشیرالدین نے کہا تھا کہ ’’یہ خداکی مرضی ہے کہ ہندوستان متحد رہے۔ اگر ہم ہندوستان کی تقسیم پر راضی ہوئے توخوشی سے نہیں،بلکہ مجبوری سے اورپھریہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائیں۔‘‘ (’’الفضل‘‘، قادیان۔ 16؍مئی 1947) رہی بات مجلس احراراسلام کے ظفراﷲ خان کے خلاف پروپیگنڈے کی توگزارش ہے کہ یہ درست ہے کہ مجلس احراراسلام تحریک پاکستان میں شریک نہ تھی ،لیکن ظفراﷲ خان کے باؤنڈری کمیشن میں کردارکے بارے میں میرے پیش کردہ حوالہ جات کسی احراری رہنماکے نہیں،بلکہ خودقادیانیوں کے روزنامے، کمیشن کے مسلمان اراکین اورمسلم لیگی رہنماؤں کے ہیں۔اس معاملے میں تمام ملبہ احرارپر ڈالناحقیقت سے آنکھ چرانے کے مترادف ہے۔احرارنے ظفر اﷲ خان کے بارے میں اگرکوئی بات کی تو آنے والے وقت میں کمیشن کے ارکان اورلیگی رہنماؤں نے احرارکے دعووں کی تائیدکرکے قادیانیوں کی پاکستان اور اسلام سے بے وفائی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔علاوہ ازیں جناب وجاہت مسعود نے اپنے مضمون میں قادیانیوں کو ’’احمدیہ مسلمان‘‘لکھ کرمسلمانوں کے جذبات اورآئین کی توہین کی ہے۔ انہیں احرارکی اوٹ میں قادیانیوں کی نمائندگی اور ترجمانی کی بجائے اسلامیانِ پاکستان کے عقائد ونظریات کا دفاع کرنا چاہیے۔ قادیانیوں کی ملک دشمنی سے پردہ سرکانا ضروری ہے اوراُن کی اصلیت کا پول تو علامہ اقبال نے 1935میں پنڈت نہرو کے نام اپنے خط میں یہ لکھ کرکھول دیاتھا کہ ’’قادیانی ملک اوراسلام دونوں کے غدارہیں۔‘‘
جب تین جون1947کو مسلم لیگ نے تقسیم پنجاب وبنگال کے منصوبے کو مان لیا تو تیس جون 1947کو سرریڈکلف کی سربراہی میں تقسیم کے لیے حدبندی کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔کمیشن کے پنجاب کے اراکین میں دوغیرمسلم ممبران کے علاوہ جسٹس محمدمنیراورجسٹس دین محمد شامل تھے۔جبکہ مسلم لیگ کی طرف سے سر ظفر اﷲ خان وکیل تھے ۔ظفراﷲ خان اگرچہ مسلم لیگ کے نمائندے تھے ،مگر وہ اوّل وآخر سکّہ بندقادیانی بھی تھے۔اس لیے وہ بہرصورت اپنے قادیانی سربراہ کی ہدایات کے پابندتھے۔جب قادیانی سربراہ مرزابشیرالدین محمود نے حدبندی کمیشن کے قیام کے بعدحدبندی کی تقسیم کی اکائی ضلع کی بجائے تحصیل کو قراردینے پر زور دیا تھا (’’الفضل‘‘، قادیان۔19؍جون1947)تو ظفراﷲ خان نے بھی اسے حکم جان کر باؤنڈری کمیشن میں حدبندی کے لیے تحصیل ہی کو ایک اکائی منتخب کر لیا تھا۔ جس کا بظاہر یہ جوازتراشاگیاتھا کہ ’’مجھے [مسلم لیگی رہنماؤں میں سے ]کوئی بھی گائیڈ لائن دینے پر تیارنہ ہواتوخودہی اپنے ساتھی وکلاکی مشاورت سے تحصیل کو حد بندی کی اکائی کے طورپر منتخب کرلیا۔‘‘( سرظفراﷲ:’’تحدیث نعمت‘‘،صفحہ:505) ظفر اﷲ نے مسلم لیگ کی یادداشت میں تحصیل کو حدبندی کی اکائی بنانے پر زور دیا۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پٹھان کوٹ ایک ہندواکثریتی تحصیل ہے اوروہ اس طرح مغربی پنجاب کی بجائے مشرقی پنجاب کی جھولی میں جاگرے گی ۔جس کی بدولت مستقبل میں ہندوستان کوجموں وکشمیرتک رسائی ملنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ اس عاقبت نااندیشانہ فیصلے کا مقصدکشمیرجنت نظیرکا چوراسی ہزارمربع میل کا خِطہ ہندوستان کاحصہ بنادینے کے سواکچھ نہ تھا۔سیدنوراحمدکے بقول ’’تحصیل کو بنیادی اکائی قراردینے کے فیصلے نے پٹھان کوٹ کی قسمت کا فیصلہ مشرقی پنجاب کے حق میں کردیا۔‘‘(’’مارشل لاسے مارشل لاتک‘‘،صفحہ 318)ضلع گورداس پور ایک مسلمان اکثریتی ضلع تھا۔اس کی تحصیل پٹھان کوٹ میں غالب آبادی ہندو تھی۔ اگر ضلع کی بنیاد پر حدبندی کی جاتی تو ضلع گورداس پورپاکستان میں شامل ہو جاتا اور انڈیا کو کبھی کشمیر کا راستہ نہ ملتا۔اس طرح ہندوستان کو پاکستان میں آنے والے دریاؤں کے پانی کامنبع مفت میں ہاتھ نہ آتا اورنہ پاکستان کو بھارت سے جنگ کرنا پڑتی۔قادیانیوں کا رُوحانی مرکزقادیان بھی گورداس پورکی تحصیل بٹالہ کاایک قصبہ تھا۔قادیانی چاہتے تھے کہ قادیان ہندوستان میں شامل رہے۔اس آرزو میں ان کا اکھنڈ بھارت نظریہ کارفرماتھا۔باؤنڈری کمیشن کے ممبرجسٹس محمدمنیر کا یہ سوال قابل غور ہے کہ ’’کیا گورداس پورکو اِس لیے بھارت میں شامل کیاگیا کہ اس وقت بھی بھارت کو کشمیرسے منسلک رکھنے کا عزم وارادہ تھا۔(جسٹس محمد منیر: ڈیز ٹُورِی ممبر۔پاکستان ٹائمزلاہور۔24؍جون 1964) حدودبندی کمیشن کے تین فریق تھے:ہندو،سکھ اورمسلمان،مگرقادیانیوں نے مسلم لیگ کے کیس کو کمزورکرنے کے لیے ایک الگ فریق کی حیثیت سے کمیشن کو مسلم لیگ سے علیحدہ ایک میمورنڈم پیش کیاتھا۔جس پر باؤنڈری کمیشن کے رکن جسٹس محمدمنیربھی حیرت زدہ ہوکررہ گئے ۔ان کا کہنا تھاکہ ’’ گورداس پورکے متعلق احمدیوں نے اس وقت ہمارے لیے سخت پریشانی پیداکردی۔‘‘ (جسٹس محمد منیر:ڈیزٹُورِی ممبر۔پاکستان ٹائمز لاہور۔24؍جون 1964) پنجاب کی حدبندی کے لیے مسلم لیگ کا جو کیس سر ظفر اﷲ خان کے سپردکیاگیاتھا۔ظفراﷲ خان اسے جیتنے میں ناکام رہے۔جس کے پس پشت ان کی قادیان سے وفاداری کا عنصرغالب تھا۔باؤنڈری کمیشن کے رکن جسٹس دین محمد کا اس ضمن میں کہناتھاکہ ’’سرظفراﷲ نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا ہے،لیکن انہیں پوری طرح بری الذمہ قرارنہیں دیا جاسکتا،کیونکہ وکیل تو بہرحال وہی تھے اوردعوے کی کمزوریوں اورخامیوں کی نشاندہی کرنا ان کا فرض اوّلین تھا۔جس میں وہ بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔‘‘(ماہنامہ’’ سیارہ ڈائجسٹ‘‘ لاہور۔ جنوری 1976)ظفراﷲ خان کے رویے اورکردارنے مسلم لیگ کے سنجیدہ حلقوں میں بھی سراسیمگی کی لہردوڑا دی تھی۔تحریک پاکستان کے اورمسلم لیگ کے ممتاز رہنمامیاں امیرالدین کوکہناپڑا کہ ’’ظفراﷲ کی تعیناتی لیگی قیادت کی فاش غلطی تھی۔ جس کے ذمہ دارلیاقت علی خان اورچودھری محمدعلی تھے۔(ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور کو انٹرویو:06؍اگست 1984)جناب وجاہت مسعودکی خواہش پر قادیانیوں کی پاکستان سے غداری کے شواہد پیش خدمت کردیے گئے ہیں،کیونکہ ان کے بقول’’ یہ شواہد تاریخ کی امانت ہیں۔‘‘