مکالمہ کا مغالطہ
سیف اللہ خالد
نام نہاد دیسی لبرلز جن کی کل متاع علمی جھوٹ اور گالی پر مبنی ہے ،انہیں ان دنوں قادیانیت کی حمایت کا دورہ پڑا ہوا ہے ۔یقیناً اس کے پس پردہ ان کے مالی مسائل ہی ہوسکتے ہیں کہ مفت میں تو یہ اپنے باپ کی بھی نہیں سنتے ، اور اگر کوئی پیٹ بھرکر راتب اور آبِ تلخ کا بندوبست کردے تواُس کے اشارے پر یہ اپنے باپ کی بھی ایسی تیسی کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ خصوصاً جب سے پیمرا نے حمزہ علی عباسی نامی ایک اداکار کو پروگرام کرنے سے روکا ہے۔ تب سے ایک ایک صف ماتم بچھی ہوئی ہے ، آسمان کی جانب تھوتھنیاں اٹھا اٹھا کر چلا رہے ہیں کہ مکالمہ کیوں نہیں ہورہا ؟سوال یہ ہے کہ مکالمہ کے یہ شوقین کس بات پر مکالمہ کرنا چاہتے ہیں ۔کیا قادیانیت کے کفر واسلام پر؟یا اِس پر کہ قادیانیت کے خلاف فیصلے کا ریاست کوحق ہے یا نہیں ؟یا کوئی اور خیال ستا رہا ہے، یا کوئی ایسی مشکل آن پڑی ہے کہ اس قدر زور لگانا پڑرہا ہے ،کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ قادیانیت کا معاملہ دنیا کا واحد ایشو ہے ۔جس پر اب تک کا سب سے طویل مکالمہ ہوچکا اور یہ مکالمہ کسی ائر کنڈیشنڈکمرے میں نہیں ہوا۔ کسی ٹی وی چینل کے کسی جاہل اینکر کے سامنے نہیں ہوا۔ یہ مکالمہ مساجد و مدارس سے لے کر ، گلی کوچے ، بازار سے ہوتا ہوا عدالتوں کے کٹہروں اور عالمی ایوانوں میں بھی ہوا، یہ اخبارات کے صفحات سے لے کراَربابِ دانش کے دانش کدوں میں بھی پہنچا اور اس میں دیسی لبرلز جیسے کنفیوزڈ اور جاہل شریک نہیں تھے ، دونوں طرف سے اصل اور جید فریقین تھے ، یہاں تک کہ اس مکالمہ میں ہندو جواہر لعل نہرو بھی شریک ہوا اور پارسی فخرالدین جی ابراہیم بھی ، اس میں علامہ اقبال بھی شریک ہیں ،اور گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے وکلا اور جج بھی، یہاں تک کہ خود مرزا قادیانی ، اس کی اولاد اور اس کے بہترین دماغ اس مکالمہ میں شریک رہے ہیں ۔
مکالمہ کے ان شوقین بھاڑے کے دانشوروں کو شایدیہ معلوم نہیں کہ بھارت کے شہر قادیان سے شروع ہونے والا یہ مکالمہ صرف بر صغیر تک ہی محدود نہیں رہا ۔بلکہ دنیا کی 144تنظیموں نے اس پر مکہ مکرمہ میں مباحثہ کیا ، لندن کے کانفرنس ہالز میں،ہائیڈ پارک میں مکالمہ ہوا ، امریکہ کے کانفرنس ہالز میں بات ہوئی ۔افریقہ کی عدالتوں میں، افریقی ملکوں کی پارلیمانوں میں بحث ہوئی، دنیا کے ہر خطہ میں، ہر فورم پر بحث ہو چکی۔ اب اور کتنی بحث اور کتنا مکالمہ ؟
1889میں مرزا نے ظلی نبوت کا دعویٰ کیا تو سب سے پہلے علمائے لدھیانہ اورپھر علمائے اہلحدیث نے مکالمہ کا آغاز کیا اور مسلسل 1974تک یہ مکالمہ چلتا رہا اور 7ستمبرکو اِسی طویل ترین مکالمہ کا فیصلہ ذولفقار علی بھٹو کی قیادت میں اُس قومی اسمبلی نے لکھا جس میں مولویوں کی تعداد، دس سے زیادہ نہ تھی۔ کسی کو اب بھی شوق ہے تو جائے اسمبلی کے ریکارڈ سے جا کر دیکھے کہ “کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی۔”38ارکان اسمبلی کے دستخطوں سے جمع کرائی گئی قرارداد میں صرف 9مولوی ہیں ، بقیہ میں چودھری ظہور الٰہی،سردار شیر باز مزاری، عبدالحمید جتوئی،صاحبزادہ احمد رضا قصوری،مولا بخش چانڈیو، سردار شوکت حیات اور حاجی علی احمد تالپور جیسے لوگ شامل ہیں اور دوسری جانب سے مرزائی اور لاہوری قیادت ہے کہ جسے تشفی کا پورا موقع دیا گیا ۔ 42گھنٹے کی تاریخی جرح ہوئی ۔
آج حرص کے بندوں کو اگر معلوم نہیں تو بتا دیتے ہیں کہ یہ مکالمہ جس میں ہر موڑ پر مرزا کو کافر کہا گیا ، جس کی ہر مجلس کا فیصلہ وہی تھا جو قومی اسمبلی نے دیا ۔ اس کا آغاز خود مرزا نے کیا تھا اور اپنی زندگی میں مکالمہ ، مباہلہ، مناظرہ ہر میدان میں رسوائی اس کا مقدر بنی۔سب سے پہلے 1935میں بہاولپور کی عدالت نے اُن کے کفر پر مہر ثبت کی۔اس کے بعد بلکہ انہیں دنوں علامہ اقبال نے بھی ان کے کفر کے اعلان کا مطالبہ کیا ۔صرف اسمبلی نہیں پاکستان کی عدلیہ میں بھی یہ مکالمہ چلتا رہا،15جولائی1984سے لے کر12 اگست1984تک روزانہ سماعت ہوئی،اور میڈیا نے اس کا ایک ایک لفظ چھاپا،28؍اکتوبر1984کو وفاقی شرعی عدالت نے قادیانیوں کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے 247صفحات پر مشتمل فیصلہ ان کے منہ پر دے مارا۔اس اپیل کا سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ نے10جنوری 1988کو سماعت شروع کی۔11جنوری 1989کو فیصلہ ہوا۔ان کے خلاف ہوا،لاہور ہائیکورٹ،بلو چستان ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا یہ مکالمہ 1991میں سپریم کورٹ پہنچا اور3جولائی 1993کو وہاں سے بھی قادیانیت کے جھوٹ پر حتمی مہر ثبت ہوگئی ۔ ابھی کوئی کسر رہ گئی ہے مکالمہ کی ؟کیا کوئی نیا الہٰام ہوا ہے ؟کیا حمزہ عباسی یا دیسی لبرلز مرزا غلام احمد ، مرزا محمود ، مرزا ناصر سے زیادہ قادیانیت کو جانتے ہیں کہ مکالمہ کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیا ان میں قادیانی وکیلوں مجیب الرحمن اور کیپٹن (ر)عبدالواجد سے زیادہ لائق لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو مکالمہ کا پھر سے بگل بجایا جارہا ہے ؟
مکالمہ ہو چکا، فیصلہ ہو چکا۔صرف زبان سے نہیں،خون سے بھی۔ صرف ایک ہی سال(1953)میں 10ہزار مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے کر شہادت قبول کی ۔اگر اب بھی انہیں شوقِ مکالمہ ہے تو یہ اس شخص جیسا ہے ، جو جوتے کھاتا جا رہا تھا اور یہ بھی کہتا جارہا تھا کہ چل اب کے مار۔۔۔ان کا اصل مقصد سوسائٹی میں انتشار پھیلانا اور افراتفری پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔اگر واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ مکالمہ دوبارہ ہونا چاہئے تواُس کے لئے لازم ہے کہ پہلے یہ لبرلز بریگیڈ قادیانی سربراہ سے اپنے بارے میں اعلان جاری کرائے کہ وہ ان کے ہر فیصلہ کو تسلیم کریں گے اورانہیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج سے پہلے مرزاقادیانی سمیت جتنے لوگ بھی اس مکالمہ میں قادیانیوں کی جانب سے شریک ہوئے ،وہ جاہل تھے ، ان ہیں معاملہ کا علم ہی نہیں تھا، اس کے بعد ایک حد تک جواز پیدا ہوتا ہے کہ مکالمہ کو اَزسر نو شروع کیا جائے۔ گو کہ پھر بھی یہ کوئی حتمی جواز نہیں،کیونکہ ہمیں اپنے اکابر علما ، وکلا،ججز، ارکان پارلیمنٹ سے لے کرہر اُس کارکن پر اور اس کی بحث پر یقین ہے ، جس نے ان کے خلاف کبھی بھی کہیں بھی دلائل دئیے ، ہم ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔
اگر سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق مجروح ہو رہے ہیں تو اِس پر سپریم کورٹ 1993میں فیصلہ دے چکی،اگر یہ اعتراض ہے کہ اسمبلی کو حق حاصل نہیں تو قبلہ جب خود قادیانی اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسمبلی کے رکن نہ ہوتے ہوئے بھی دفاع کے لئے گئے تو آپ کا اعتراض ویسے ہی ختم ہو جاتا ہے اور اگر آپ کو شوق ہے گلی محلے اور چوک چوراہے کے مکالمے کا تو مسلمان اب تک دس ہزارسے زائد جانیں دے چکے ہیں ۔ اورآج بھی ہر مسلمان کی ایک ہی خواہش ہے کہ کاش اس کی جان آقا ئے دو جہاں، نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺکے دفاع میں چلی جائے اور سرمایہ جاں لگے ۔ اپنے دل و جاں کو ٹٹول لیجئے کہ قادیان کے کذابِ اعظم کے لئے جان دینے کو تیار ہیں؟
مقدمہ ختم ہو چکا ،مکالمہ تمام ہوا ، فیصلہ صادر ہو چکا ، اپیلیں خارج ہو چکیں۔ اب یہ صرف ایک دھوکہ ہے کہ مکالمہ نہیں کرتے ، ڈیڑھ سو سال کے مکالمہ میں کوئی ایک لمحہ، کوئی ایک فورم ایسا بتادو جس میں تمہاری جیت ہوئی ہو ۔ اب مکالمے کا نہیں، اس کے نتیجہ میں سامنے آنے والے فیصلہ پر عملدرآمد کا وقت ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ جدید اصولوں پر دوبارہ بات ہونی چاہئے ، اول تو یہ دلیل ہی بونگی اور بے بنیاد ہے،کسی بھی مقدمہ کا فیصلہ ہوجائے توقانون اوراسلوب بدلنے پر اسے دوبارہ نہیں کھولا جاتا، لیکن پھر بھی اگر یہ اعتراض ہے کہ اسمبلی کو حق حاصل نہیں کہ کسی کو کافر قرار دے تواگر پارلیمنٹ کسی گروہ کو ملک دشمن قرارد ے کراُس کے قتل کا فیصلہ کرسکتی ہے ،چاہے وہ خود کو کتنا ہی محب وطن کیوں نہ کہے تو کسی تنازع کی صورت میں یہ فیصلہ بھی اسی کا حق ہے کہ دو فریقوں میں سے مسلمان کہلانے کا حق دار کون ہے اور کافر کون۔ اگر فرض کرلیں کہ آپ کا موقف ٹھیک ہے اور پارلیمنٹ یہ حق نہیں رکھتی تو پھر کون ہے جو فیصلہ کرے گا۔علما ۔۔ ؟تو ڈیڑھ سو برس میں تمام مکاتب فکر کے علما متفقہ فیصلہ دے چکے ۔ اگر عدالت؟ تو 1935,1984,1989, 1993میں بہاولپور کی عدالت سے لیکر، پنجاب اور بلوچستان کے ہائی کورٹس، وفاقی شرعی عدالت، اور سپریم کورٹ اس پر فیصلہ دے چکی ہیں۔ اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر گلی محلے اور چوک ،چوراہے ہی باقی بچتے ہیں، لیکن کیا کریں کہ یہ بحث تو وہاں سے بھی فیصل ہوچکی، صرف زبانی نہیں ، لہو کی دلیل کے ساتھ، مسلمانوں نے خون دیا ، گولیاں کھائیں ، جانیں قربان کیں ۔ اور اپنی لاشوں سے اس فتنہ کے آگے بند باندھا۔اگر آج پھر کوئی اس بحث کو گلی کوچے میں لے جانا چاہتا ہے تووہ یاد رکھے کہ یہ 1953ء نہیں ،2016ء ہے ،اب اگر خون کی زبان میں مکالمہ کی غلطی کسی نے کرلی تو ماضی کی طرح نہیں ہوگا کہ لاشیں صرف ختم نبوت کے پروانوں کی گریں گی ، پھر کون جانے کہ بات کہاں تک پہنچے ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ڈیڑھ سو سال کی بحث کافیصلہ مان لیا جائے ۔
اگر اِس سب کے باوجود ڈالر چین نہیں لینے دیتے تو عدالتیں کس لئے ہیں ، آجائیں عدالت میں،کریں چیلنج 1974ء کی اسمبلی کا فیصلہ ،کرلیں کورٹ روم میں مکالمہ کا شوق پورا۔اگر عدالت اجازت دے تو۔
سچ یہی ہے کہ مکالمہ ہمیشہ سنجیدہ مقامات پر ہی ہوتا ہے اور وہ ہوچکا ، روز شام کو ٹی وی چینلزپر مداریوں کے حلقے تفریح طبع کا سامان تو ہو سکتے ہیں، مکالمہ کا میدان نہیں اور پھر طے شدہ اِیشوز پر دوبارہ سوال اٹھانا تو حماقت کے سوا کچھ نہیں۔اصل قصہ صرف اتنا ہے کہ امریکہ کوقادیانیت کی ضرورت ہے اور وہ اسے اسلام کی جگہ ترویج دینا چاہتا ہے ، مگر اس کی راہ میں وہ ڈیرھ صدی کی بحث کھڑی ہے ، پاکستان کی پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے کہ اسلام میں قادیانیت کی نقب کو قبول نہیں کر رہا ۔ وہ کسی بھی طرح اس فیصلہ کو مشکوک بنانے اور بحث کو اَز سر نو شروع کرنے کی خواہش رکھتا ہے ،لیکن شاید نہیں جانتا کہ مسلمانوں کی صفوں میں دیسی لبرلز انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں مگر اجتماعی ضمیر ابھی تک متحد ہے اور پاک وصاف ہے ۔ وہ کسی بہروپیے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا ۔ عام مسلمان آج بھی ختم نبوت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کو سعادت خیال کرتا ہے ۔اسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس وقت بحث یہ نہیں کہ ہم مرزا اور اس کے ماننے والوں کا کفر ثابت کریں،وہ ثابت ہوچکا۔اسمبلیوں میں ثابت ہوچکا ، آج کی بحث صرف اتنی ہے کہ طے شدہ مسئلہ ہم دوبارہ کیوں چھیڑیں ؟۔جن فتنوں کا دروازہ بند کر چکے اب اسے پھر سے وا کیوں کریں؟ یہ بھی مغالطہ ہے کہ مولوی ہی ختم نبوت کی بات کرتا ہے ، قطعاً نہیں،آج کا جدید تعلیم یافتہ نوجوان، اس کام کے سیاسی شعور اور حضرت محمدﷺکی عزت و ناموس کے حوالہ سے کسی بھی مولوی سے دو ہاتھ آگے ہے ، وہ از خود مطالعہ کرکے نتائج اخذ کرتا ہے اور مولوی سے بڑھ کر دین کا محافظ ہے ۔حالیہ بحث میں بھی اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بے ریش مسلمان مولویانہ حلیہ رکھنے والوں سے بہت آگے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی دلیل میں ندرت بھی ہے اور مطالعہ میں جدت بھی،وہ جدید دور کے علم الکلام سے آگاہ بھی ہیں اور نسبتاً زیادہ بے خوف بھی۔ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ ہمارے اکابر نے مصلحت کیوں دکھائی کہ انہیں صرف کافر قرار دلوایا۔ حالانکہ یہ تو مرتد اور زندیق ہیں ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ مکالمہ بازی کا شوق چرائے تو اسمبلی کی کارروائی نکال کر پڑھ لیا کریں ،ایسا نہ ہوکہ معاملہ جہاندیدہ اور مصلحت پسند مولوی کے ہاتھ سے نکل کر کالج یونیورسٹی کے جدید تعلیم یافتہ اور نوجوان دماغوں کے ہاتھ آجائے اور وہ اس اجتہادی غلطی کو دُور کردیں ، جسے 1974 ء میں دانستہ قبول کرلیا گیا تھا ۔
(روزنامہ ’’اوصاف‘‘،اسلام آباد۔20،21؍جون 2-016)