پروفیسر خالد شبیراحمد
کل ایک دانش ور سے سرِ راہ ملاقات ہوگئی میں خوشی سے جھوم اٹھا بڑی مدت کے بعد کسی دانشور کی شکل دیکھنی نصیب ہوئی تھی منت سماجت کر کے انھیں نزدیک ترین ہوٹل میں لے آیا۔ چائے کی پیالی ان کے آگے رکھ کر ان سے گوشہ نشینی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے:
کہ’’یہ ہمارا دور نہیں دانشوروں کے دور کی بجائے طاقت وروں کا دور ہے جو دلائل کی بجائے طاقت سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کے سامنے اپنی بات کرنا اندھوں کے سامنے ناچنا، بہروں کے آگے گانا یا پھر بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے لہٰذا کیا فائدہ؟ بس گوشہ نشینی ہی بہتر ہے۔‘‘
میں نے کہا بعض اوقات جھوٹ بولنے والے آدمی اتنا طاقت ور بھی نہیں ہوتا لیکن محض جھوٹ بول کر اپنی بات منوالیتا ہے کیا یہ جھوٹ بھی کوئی بڑی طاقت ہے؟ کہنے لگے ’’جس چیز کے سامنے بھی ہتھیار ڈالنے میں عافیت ہو اسے طاقت ہی کہا جائے گا۔ خواہ وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو‘‘
میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ایک تو جھوٹ ہوتا ہے اور ایک سفید جھوٹ دونوں میں کیا فرق ہے؟
’’فرمایا ابتداء میں ہر جھوٹ، جھوٹ ہی ہوتا ہے لیکن جب جھوٹ ذرا جوان ہونا شروع ہوجائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے لڑکپن کی رنگت سفیدی میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب جھوٹ مکمل جوان ہوجائے تو وہ سفید جھوٹ کہلاتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا ہمارے ملک میں کون سا جھوٹ چلتا ہے؟ جھوٹ یا پھر سفید جھوٹ؟کہنے لگے:
’’اب ہم جھوٹ بولنے میں اتنے پراعتماد اور اتنے خود کفیل ہوگئے ہیں کہ جھوٹ بہت پیچھے رہ گیا ہے لہٰذا اب ہمارے ملک میں سفید جھوٹ ہی چلتا ہے۔‘‘
میں نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ یہی جھوٹ یا پھر سفید جھوٹ اگر کوئی صنفِ ناز ک بولے تو کیا جھوٹ کی طاقت میں کچھ اضافہ بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟
دانش ور نے بڑی عجیب نظروں سے میری جانب دیکھا اور کہا :
’’کیوں نہیں حسن بذات خود ایک بہت بڑی طاقت ہے اور جب وہ اپنے ہاتھ میں جھوٹ کی طاقت کو لے گا تو جھوٹ کی طاقت اور شدت میں بھی اضافہ ہوگا‘‘
میں نے فوراً پوچھا کہ اس تیسری قسم کے جھوٹ کو آپ کون سا نام دیں گے کہنے لگے ’’یہ جھوٹ عموماً ماڈرن اور خوبصورت عورتیں بولتی ہیں لہٰذا اسے خوبصورت جھوٹ کہنے میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا جناب جھوٹ کے بارے میں ایک بات اور بتائیے پھر خدا جانے آپ سے کب ملاقات ہو؟
کہنے لگے پوچھو!
میں نے کہا ایک جھوٹ باپ بولتا ہے اس کے مرنے کے بعد وہی جھوٹ اس کی اولاد بڑے تواتر اور اعتماد کے ساتھ بولتی ہے تو یہ جھوٹ کی کو ن سی قسم ہوگی؟
جواب میں فرمایا:’’ایسا جھوٹ موروثی جھوٹ ہوگا۔‘‘
میں نے کہا کوئی مثال کہنے لگے:’’روٹی، کپڑا اور مکان والا جھوٹ‘‘
اس کے بعد میں نے کہا کہ اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ پچھلی بیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ کون سا ہے تو آپ کا جواب کیا ہوگا۔ انھوں نے ایک سرد آہ لی اور بولے ’’اس سرزمین پاک وہند پر بیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا گیا کہ ’’آؤ مل کر ایک الگ ملک بنائیں جس میں خلفائے راشدین کے دور کے نظارے ہوں گے غریبوں کی دنیا بدل دی جائے گی۔ اسلام کی حکمرانی ہوگی، امیر اور غریب کے درمیان فرق مٹ جائے گا۔ امیر غریب کا ہمدرد ہوگا۔ غریب امیر کو احترام کی نظر سے دیکھے گا۔ انسان کو تفکرات سے نجات مل جائے گی۔ تقویٰ،طہارت، پاکیزگی کی فضا میں انسان کو ایک روحانی تسکین میسر ہوگی۔ نفرت، حسد، کینہ، بغض، عداوت معاشرے سے یوں غائب ہوجائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عام شہری کو کم سے کم خرچ کرنے پر زیادہ سے زیادہ مراعات میسر ہوں گی۔ ہر طرف پیار، محبت، تعاون، شفقت،اتحاد و اتفاق کے نظارے ہوں گے، انفرادی طور پ رہر شہری مطمئن اور اجتماعی طور پر قوم پراعتماد ہو کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگی۔‘‘
میں نے کہا یہ جھوٹ کونسی قسم کاجھوٹ کہلائے گا؟
کہنے لگے:’’اسے تاریخی جھوٹ کہتے ہیں۔ جو تاریخ کے صفحات پر قیامت تک کے لیے محفوظ ہوگیا ہے‘‘
میں نے کہا اس جھوٹ کی چمک دمک کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو پھر اسے کون سا نام دیا جائے گا؟ فوراً جواب دیا ’’سنہری جھوٹ‘‘
سنہری جھوٹ سے میرے ذہن میں میرے ہی چند اشعار گونج اٹھے۔
اس سیاست کا یہی ہے اولیں اک سانحہ ہر سنہری جھوٹ کو ہم برملا لکھتے رہے
ہر غلط انسان کے در پر جبیں سائی کے بعد احتراماً واقعاتِ کربلا کہتے رہے
اہل فن حرص وہوس کے دوش پر ہو کر سوار جانے کیا پڑھتے رہے اور جانے کیا لکھتے رہے
~ میں نے کہا حضرت کچھ سرکاری، درباری جھوٹ کے بارے میں بھی ارشاد فرمایئے۔ جواب میں کہا کہ ’’وہ جھوٹ جو سرکار کی سرپرستی میں سرکاری اہل کار دن رات بولتے رہتے ہیں بلکہ سرکار کے تمام ذرائع ابلاغ اس جھوٹ کو پھیلانے اور عوام تک پہنچانے میں اپنا خون پسینہ ایک کردیتے ہیں، سرکاری اور درباری جھوٹ کہلاتا ہے۔ آج کل اسی جھوٹ کی حکمرانی ہے آپ اکثر اخبارات، ریڈیو، ٹیلی وژن اور نیٹ پر اس کا چرچا سنتے رہتے ہیں۔ کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے معیشت پہلے سے بہتر ہے۔ منصوبے بن رہے ہیں۔ ترقی کی راہ کاروان حیات چل نکلا، منزل قریب ہے، قدم بڑھائیے، ہمارا ساتھ دیجیے، آپ کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اقتدار عوام تک پہنچادیا ہے۔ عوام کو اپنی مرضی کا مالک بنادیا گیا ہے۔ مقامی حکومتیں قائم کر دی گئی ہیں۔ یہی اصل جمہوریت ہے۔ جو پچھلے ستر برسوں سے آپ تک نہیں پہنچی تھی۔ ہم نے پہنچا دیا ہے اسلام بھی قائم ہوگیا ہے۔ اب ہر شہری بآسانی نماز پڑھ سکتا ہے۔ حج کرسکتا ہے، روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ زکوٰۃ عام کر دی گئی ہے۔ خوشحالی پروگرام کے تحت ہمارا کام ہو رہا ہے۔ غربت مکاؤ سکیمیں اپنے پورے عروج پر ہیں ۔ بجلی ، ٹیلی فون، سوئی گیس کے بل عام اور سستے کردیے گئے ہیں۔ بینکوں پر عوام کی لمبی لمبی قطاریں اس بات کی دلیل ہیں کہ لوگوں کے پاس بل ادا کرنے کے لیے وافر رقم موجودہے۔ نہ جانے کیا کیا کہا جارہا ہے کہ آؤ ہمارا ساتھ دو کہ ترقی ہمارے ہی دم قدم سے ہوگی۔ ہم ہیں توپاکستان ہے۔ ہم نہیں تو پاکستان نہیں۔ سپریم کورٹ میں پانامہ کا مقدمہ بھی چل رہا ہے جو ہمارے منصوبوں پر اچھے تأثرات چھوڑے گا اور ہم ملکی ترقی کو آگے لے کر بڑھیں گے۔ جس سے عوام کو مزید فوائد حاصل ہوں گے۔‘‘
دانش ور یہ سب کچھ کہہ کر میرے سامنے والی کرسی سے یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا کہ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ ایک مدت بعد آپ نے مجھے سچ کہنے کا موقعہ فراہم کیا۔ میں نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور کہابس ایک آخر سوال باقی رہ گیا ہے۔اس کا جواب بھی دیتے جائیں آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔ کہنے لگے فرمائیے۔ میں نے کہا کہ کوئی تازہ ترین جھوٹ؟
فرمایا ’’کرپشن کا خاتمہ‘‘
یہ کہہ کر دانشور تو چلا لیکن میں سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کے رہ گیا پاکستان، علامہ اقبال، قائداعظم، مسلم لیگ، دوقومی نظریہ اور وعدہ نظامِ اسلامی وہ سب کہا ہوئے؟ بیٹھا سوچتا رہا اور تلملاتا رہا کہ آخر ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آن پہنچے ہیں۔ پچھلی ستر سالہ قیادت کا ایک ہی نقشہ میرے ذہن میں بار بار گردش کرتا رہا اور وہ ہے جھوٹ کا تسلسل، بے اختیار چند اشعار شدت جذبات کی وجہ سے نوک زبان پر آگئے۔ علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔ کہ اقبال نے اپنے ترانے میں کیا کہا تھا اور ہمارے سیاست دانوں کاترانہ کیا ہوگیا ہے۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو دعا دو ہر جھوٹ کو تم میرے ہی دامن کی ہوا دو
گر نقش کہن تم سے نہ مٹ پائے تو پھر تم جو حرف صداقت بھی نظر آئے مٹا دو
گرماؤں جیالو کا لہو چشم حسیں سے ہر شہر میں بستی میں میری دھوم مچا دو
میں نا خوش و بیزار ہوں اپنے ہی وطن سے میرے لیے لندن میں محل اور بنا دو
اس طور سے اب راہ سیاست یہ چلو تم ہر دل میں میرے جھوٹ کی ہیبت کو بٹھا دو
دولت سے نہ جھکتا ہو نہ جھکتا ہو تبر سے اس سر کو میرے جھوٹ کی طاقت سے جھکا دو
جس شخص کے ہاتھو میں بھی ہو جھوٹ کا پرچم اس شخص کو ہر شہر کی مسندِ یہ بٹھا دو
خالدؔ بھی اگر آئے مقابل تو کچل دو عبرت کا نمونہ ہو کڑی ایسی سزا دو
٭……٭……٭