عبدالکریم قمر
تقریبا ایک صدی پہلے ہمارے شہر کمالیہ (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں میاں غلام حسین کھوکھر مرحوم کا خاندان اپنی نیکی،شرافت اور دین داری کی وجہ سے پوری برادری بلکہ شہر بھر میں اپنی مثال آپ تھا۔ان کے چار بیٹے تھے، میاں نور محمد، میاں فیض محمد، میاں الہی بخش اور میاں غلام فرید۔دونوں منجھلے بیٹے ہندوستان کی عظیم حریت پسند اور انقلابی جماعت مجلس احرار اسلام ہند میں شامل تھے۔ اس کے فعال کارکن اور باوردی رضا کار تھے۔ میاں غلام فرید1922کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ گھر میں ہر وقت جماعتی سرگرمیوں کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ اس لئے نو عمرغلام فریدکے کانوں میں’’ احرا راور امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ‘‘ کے نام سنائی دیتے رہتے تھے ۔ یہ نام ان کے شوق کومھمیزلگاتے رہے۔اور ان کے اپنے قول کے مطابق 1937میں انھوں نے بھی مجلس احرار کا فارم رکنیت پرُ کر دیا۔اور نا صرف کارکن بلکہ باوردی رضا کار بن گئے۔ان دنوں شہر میں جماعت بڑی فعال تھی۔جماعت کے صدر میاں محمد رمضان ؒاور سیکرٹری مولانا حکیم محمد رمضان ؒتھے اورکارکنوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔ باوردی رضا کارجب ایک جگہ اکٹھے ہو کر پریڈ کرتے تو نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔میاں غلام فرید پرائمری سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن وہ بلا کے ذہین تھے۔مذہبی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے جلسوں میں شرکت انکا معمول تھا۔جلسوں میں عوام کے دینی جذبہ کو بیدار کرنے کے لئے نعت خوانی ہوتی۔ اور جوش و خروش کو ابھارنے کے لئے انقلابی نظمیں پڑھی جاتیں۔ میاں غلام فریدکو اﷲ تعالیٰ نے خوش گلوئی سے نوازا تھا۔اس لئے وہ بھی نعت خوانی کرنے لگے اور نظمیں پڑھنے لگے۔ ان دنوں مدارس عربیہ کے سہ روزہ دینی و اصلاحی اجتماعات عام ہو ا کرتے تھے۔ اس لئے ان اجلاسوں میں شرکت کے لئے علاقہ اور اطراف و جوانب سے ان کو اصرار کرکے بلایا جانے لگا۔کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجودخداداد حافظہ کی وجہ سے انھیں بے شمار نعتیہ کلام اور نظمیں یاد تھیں۔ وہ اکثر خان محمد کمترؒ، سید امین گیلانیؒ، مرزا غلام نبی جانبازؒ،خواجہ عبدالرحیم عاجزؒاور مولانا محمد ابراہیم خادم ؒ کا اردو اور پنجابی کلام سنایا کرتے اور سماں باندھ دیتے۔
قیام پاکستان کے بعد1949میں مجلس احرار اسلام کا لاہور میں تاریخی اجتماع ہوا۔ جس میں جماعت کی مجلس عاملہ کے فیصلہ کے مطابق جماعت کی سیاسی حیثیت پرعارضی پابندی لگا دی گئی ۔ تاکہ مسلم لیگ کو ملک میں اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لئے موقع فراہم کیا جائے۔اور مسلم لیگ کوئی عذر بہانہ نہ کر سکے۔میاں غلام فریدنے اپنے دوست احباب،رشتہ داروں اور احرار ساتھیوں کے ساتھ اس تاریخی اجتماع میں بھرپور شرکت کی۔1953کی تحریک ختم نبوۃمیں دوسرے احرار کارکنوں کے ساتھ ان تینوں بھائیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مجلس احرار 1953سے 1962تک اکثر و بیشترپابندی کا شکار رہی۔لیکن میاں غلام فرید نے کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار نہ کی۔1968میں مولانا فضلسید الرحمن احرارؒ(سلانوالی)کی تحریک سے کمالیہ میں احرار کو از سر نو منظم کیا۔(مولانا فضل الرحمن احرارؒان دنوں مسجد جامعہ فاروقیہ کمالیہ میں نماز جمعہ پڑھانے آیا کرتے تھے)میاں غلام فریداور انکے دونوں بڑے بھائیوں نے پھر سے پوری تن دہی کے ساتھ جماعتی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔انھیں مقامی جماعت نے اپنا صدر منتخب کر لیا۔ اور ان کی سربراہی میں قافلۂ احرار پھر رواں دواں ہو گیا۔6-5مارچ1970کو احرار پارک بیرون دہلی دروازہ لاہور میں مجلس احرار اسلام کی ایک تاریخی کانفرنس ہوئی۔ہمارے شہر سے ایک بہت بڑے قافلہ نے اس میں شرکت کی۔ 1975میں مجلس احرار اسلام نے قادیان کی طرح
چناب نگر(ربوہ)میں مسجد و مدرسہ کے لئے اراضی خرید کی۔اور 27فروری 1976کوجانشین امیر شریعتؒ حضرت سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری ؒنے وہاں مسجد احرار کا سنگ بنیاد رکھا تو کمالیہ سے ایک بڑے وفد نے اس مبارک تقریب میں شرکت کی۔میاں غلام فریدبھی پیرانہ سالی کے باوجوداس قافلے میں شامل تھے۔چنیوٹ شہر سے پختہ سٹرک کی بجائے پیدل کھیتوں سے ہوتا ہوا یہ قافلہ دریائے چناب کے پرانے پل پر پہنچا۔جہاں پرپولیس کا کڑا پہرہ تھا۔خوش قسمتی سے یہ قافلہ وہاں سے آرام سے گزر گیا۔دوسرا پُل عبور کرنے کے فوراََبعد قافلہ تو مغرب کی طرف کھیتوں سے ہوتا ہواموضع چھنی کی طرف مڑ گیا۔لیکن وہ پختہ سڑک پر سیدھے آگے اڈا کی طرف پیدل چلتے گئے۔اور قافلے سے بچھڑ گئے۔ہم سب لوگ تو مسجد احرار پہنچ گئے لیکن وہ چناب نگر پہنچ کر بھی مسجد کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔جس کے لئے وہ بہت افسوس کیا کرتے تھے۔
1938میں ان کے مکان سے ملحق ایک قطعہ اراضی اولاد سے محروم ایک نیک دل خاتون نے مسجد کے لئے وقف کر کے اس پر جامع مسجد صدیقیہ تعمیر کروا دی۔نو عمری سے ہی میاں غلام فریدنماز اور تہجد کے پابند تھے۔پڑوسی ہونے کے ناتے اس مسجد کی صفائی کرنا ،اذان دینا اور خدمت کرنا انھوں نے اپنے ذمے لے لیا۔گویا وہ مسجد جامع صدیقیہ کے منتظم اور خادم سبھی کچھ تھے یہ ساری خدمت فی سبیل اﷲ تھی۔اور یہ ذمہ داری انھوں نے پون صدی زندگی کے آخری ایام تک نبھائی۔ان کی کوششوں سے اب یہ مسجد بہت خوب صورت اور دو منزلہ بن چکی ہے۔یہ مسجد شہر میں جماعتی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔جماعت کے تمام پروگرام اسی مسجد میں ہوتے تھے۔حضرت پیر جی سید عطاالمہیمن شاہ بخاری 1975میں تقریباََایک سال تک یہاں مستقل خطبہ جمعہ دیتے رہے ہیں۔
مشہور شاعر اکبر حسین اکبر الہ آبادی کا ایک شعر ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
میاں غلام فرید کو بھی اﷲ تعالیٰ کا نام لینے پرتھانے حوالات میں بند ہونا پڑا، ان کے خلاف پرچہ ہوا اور مقدمہ درج ہوا۔ہوا یوں کہ میاں غلام فرید نہ صرف خود تہجد کے پابند تھے ۔بلکہ اہل محلہ کو بھی تہجد کے لئے جگایا کرتے تھے۔ سردی ہو یا گرمی ،آندھی آئے یا مینہ برسے وہ تہجد کے وقت مسجد کا سپیکر کھول کر پہلے درود ابراہیمی پڑھتے اور پھر یہ دو شعر پڑھتے ۔
جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سایہ تلے حشر تک سوتا رہے گاخاک کے سایہ تلے
مانگنے والوں کوہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
یہ دو شعر پڑھ کر سپیکر بند کر دیتے لیکن میاں غلام فریداس جرم میں دھر لئے گئے۔اور ان پر لوگو ں کو بے آرام کرنے کا الزام لگاکر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔وہ کچھ عرصہ پہلے حج بیت اﷲ اور حاضری روضہ رسول ﷺ کی سعادت سے بھی بہرہ یاب ہوئے۔
تقریباََ 95سال کی عمر ہونے کے باوجود وہ دو تین ماہ پہلے تک اپنے تمام معمولات زندگی حسب معمول ادا کرتے رہے۔جنوری 2017سے کمزوری بڑھنے لگی ۔ دس پندرہ یوم پہلے وہ زیادہ نقاہت محسوس کرنے لگے اور چارپائی سے لگ گئے۔لیکن ہوش و حواس بفضلہ تعالیٰ آخر دم تک با لکل ٹھیک رہے۔سوموار23جنوری2017کو بعد نماز عصر طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور بوقت مغرب اس دنیا ئے فانی سے دارالبقاکو کوچ کر گئے۔اناﷲ و اناالیہ راجعون ۔میں نے سید کفیل بخاری مدظلّہ اور عبداللطیف خالد چیمہ کو وفات کی اطلاع دی سید کفیل بخاری مدظلّہ لاہور تھے۔جنازہ پڑھانے کے لئے وہ تشریف لائے۔ چیچہ وطنی سے عبداللطیف خالد چیمہ اور مولانا محمد منظور بھی انکے ہمراہ تھے۔ منگل 24جنوری 2017کو 11.30بجے دن عید گاہ نعمانیہ چیچہ وطنی روڈ میں سید کفیل بخاری مدظلّہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔اس موقع پر اپنے خطاب میں انھوں نے مرحوم کی جماعتی خدمات کا ذکر کیا۔اور انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔نمازہ جنازہ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے مجلس احرار کے ذمہ داران حافظ محکم الد ین اور حافظ محمد اسماعیل نے احباب احرار سمیت شرکت کی۔ علاوہ ازیں شہر کے دینی مدارس کے ذمہ داران ،سیاسی اور سماجی تنظیموں کے کارکنان، عمائدین شہراور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افرادنے نماز جنازہ میں شرکت کی۔امیرمجلس احرار اسلام پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلّہ نے مرحوم کے بیٹے محمد اجمل سے فون پر تعزیت کااظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا۔ مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ،بیٹا محمد اجمل اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔میاں غلام فرید نے 1937میں پہلی دفعہ مجلس احرار اسلام کا فارم رکنیت پرُ کیا تھا۔اور 2016کی تازہ ترین رکنیت سازی میں بھی انھوں نے اپنا فارم پرُ کیا تھا۔وہ تادم زیست احرار میں شامل رہے۔وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود جماعتی کاموں کے لئے ہر وقت آمادہ اور تیار رہتے تھے۔ان کا یہ جماعتی تعلق آٹھ دہائیوں پر مشتمل تھا۔اس لحاظ سے وہ اس وقت جماعت احرار کے سب سے پرانے کارکن تھے۔اس لئے شہر بھر میں اور جماعتی سطح پر انھیں بابائے احرار کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔جماعت کے سب سے قدیم کارکن ہونے کی وجہ سے حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مد ظلّہ نے ان کے لئے مدینہ شریف کا انتہائی قیمتی رومال ہدیہ کیا۔جو میں نے ان تک پہنچایا۔
میاں غلام فرید ؒنے جماعت سے وفاداری و ایثار کی ایک تاریخ رقم کی۔ تنظیمیں اور جماعتیں ایسے ہی وفاشعار اور ایثار پیشہ کارکنوں کے دم سے قائم رہتی اور پروان چڑھتی ہیں۔اور ایسے بے لوث اور مجسمہء وفا کارکن کسی بھی جماعت کے لئے سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے