ابومعاویہ محمد فقیر اﷲ رحمانیؔ
صوفی محمد اسحاق بستی مولویان رحیم یار خان کے ایک متمول اور فدائے احرار مولوی قمر الدین رحمتہ اﷲ علیہ کے گھر میں ۱۹۳۵ء میں پید اہوئے۔ قرآن مجید اور فارسی کی کتب اپنی بستی کے قدیمی مدرسہ شمس العلوم میں پڑھیں پھر والد صاحب نے سکول میں داخل کرایا اور مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدآپ اپنے والد گرامی کے ساتھ اپنے رقبہ کی دیکھ بھال میں لگ گئے اور اپنے والد گرامی کے دست راست بنے۔ آپ دو موضعوں(موضع عبدالرحمن واکبرآباد) کے نمبردار رہے اور انھی دو موضعوں کے زکوٰۃ کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے اور یہ دونوں فریضے بڑی خوش اسلوبی سے نبھائے۔
۱۹۶۷ء میں قائد احرار و جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید معاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ، ان کے والد گرامی اور مولوی صالح محمد کی جدوجہد سے بستی مولویان (رحیم یار خان) تشریف لائے تو آپ استقبال میں پیش پیش تھے اس موقعہ پر آپ کو والد گرامی نے فرمایا تھا کہ خاندان امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کو نہ چھوڑنا پھر آپ تا حیات خاندان امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کے خادم ہو کر رہے۔ ضلع بھر میں جہاں کہیں بھی حضرات شاہ صاحبان کے پروگرام ہوتے آپ ضرور شرکت کرتے۔
قائد احرار کی بستی مولویان میں آمد کے بعد جب بستی میں مجلس احرار اسلام کی ممبر سازی ہوئی تو آپ پیش پیش تھے اور انتخابات میں آپ کو نائب صدر منتخب کیا گیا۔ پھر دو سال بعد ۲۸؍ مارچ ۱۹۶۹ء کو ہونے والے جماعتی انتخابات میں آپ کو مقامی جماعت کاصدر او رمرکزی مجلس شوریٰ کا رکن بنا دیا گیا آپ جماعت کے ہر ہونے والے اجلاس و پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ شرکت کرتے حتیٰ کہ لاہور میں ہونے والی کانفرنس میں اور ربوہ (چناب نگر)کی جامع مسجد احرار کے سنگ بنیاد (۲۷؍ فروری ۱۹۷۶ء) کے موقع پر بھی شریک ہوئے۔
آپ نے اپنے والد گرامی کی نصیحت و وصیت کو بڑے اچھے انداز کے ساتھ نبھایا اور ہمیشہ میزبانی کے فرائض احسن انداز میں پورے کیے جوکہ تا حال ان کی اولاد میں بھی یہ وراثت منتقل ہو چکی ہے اور وہ بھی خلوصِ دل کے ساتھ خاندان امیر شریعت کے ساتھ منسلک ہیں۔
آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد میں اپنی جائداد تقسیم کر کے حوالے کر دی اور اپنی اکلوتی بیٹی کو بھی حصہ منتقل کردیا۔
آخر عمر میں موروثی بیماری شوگر ہوگئی دوائی کے بعد انسولین شروع ہوگئی آخر آپ بہت کمزو رہوگئے اور چارپائی اور گھر تک محدود ہوگئے۔ ایک دن چارپائی سے اٹھے تو گر پڑے اور ٹانگ پر چوٹ لگنے سے ٹوٹ گئی۔ ڈاکٹر نے آپریشن کر کے پٹی باندھ دی اور دو ماہ بعد پٹی کھولنے کا کہہ کر رخصت دے دی۔ آپ کو گھر لا کر سلادیا گیا پندرہ بیس روز بعد غذا کم کھانے لگے جس کی وجہ سے جسم میں قوت مدافعت کم ہوگئی اور شوگر بھی نل ہوگئی جس سے بے ہوشی طاری ہوگئی پھر ایمرجنسی لے جایا گیا لیکن کوئی دوا فائدہ مند نہ ہوئی۔ ۱۰؍ جنوری کی صبح ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ اب بابا چند گھنٹوں کے مہمان ہیں ایک بجے کے بعد آپ کی زبان پر کلمہ شریف کا ورد شروع ہوگیا رحیم یار خان کے احبابِ احرار تیمار داری کے لیے گئے تو آپ کی زبان پر کلمہ جاری تھا اور اسی حالت میں دار فانی سے رخصت ہوگئے انا ﷲ واانا لیہ راجعون۔
اگلے روز ۱۱؍ جنوری کو حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کے فرزند حضرت مولانا سید عطاء المنان بخاری دامت برکاتہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اپنے آبائی قبرستان شہر خموشاں میں اپنے والد گرامی کے قدموں میں ان کی خواہش کے مطابق آنسوں بہاتے ہوئے سپردخاک کردیا۔ سچ یہ ہے کہ میرا جماعتی مان اور سہارا اٹھ گیا۔ساڈی دلٹری اداس کر گئے ہنِ۔
دلی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولوی قمر الدین رحمتہ اﷲ علیہ کے گھرانے کو برکت دے اور جماعتی طور پر ہمارے شانہ بشانہ اور قدم بہ قدم چلائے اور خاندان امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کی وابستگی قائم و دائم رکھے( آمین ثم آمین)۔