(آخری قسط)
مولانا محمد مغیرہ
ایسے ہی ایک سرخی یہ لگائی گئی کہ:
اما مکم منکم۔ امام تمہارا تم میں سے ہوگا کوئی آسمان سے آنے والا نہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ایسے کرتے رہے اور اس کا مرید اور متبع بھی وہی کر رہا ہے کہ پوری حدیث رسول کی بجائے اما مکم منکم کا جملہ ذکر کر کے ساتھ ہی اپنا فیصلہ سنادیا کہ کوئی آسمان سے آنے والا نہیں ہے لہٰذا امامکم منکم امام تمہارا تم میں سے ہوگا اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔
قارئین محترم یہ جملہ جس حدیث میں وارد ہوا ہے وہ پوری حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے معروف صحابی ہیں سے یوں مروی ہے: قال رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم واما مکم منکم [بخاری] ترجمہ:تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اور( اس وقت )امام تمہارا تم میں سے ہوگا۔ اور اس حدیث کے ساتھ اگر یہ حدیث رسول ملالی جائے تو اور زیادہ وضاحت ہوجائے گی فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرہم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذہٖ الامۃ (مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ)
پس نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم مسلمانوں کا امیر (سیدنا محمد مہدی) کہے گا آئیے ہمیں نماز پڑھائیے مگر وہ (عیسیٰ علیہ السلام) فرمائیں گے نہیں یہ شرف امت محمدیہ کو ہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے امام ہیں۔ لہٰذا اس صورت حال کے واضح ہوجانے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ پوری حدیث رسول کو چھوڑ کر ایک ٹکڑا پیش کر کے پھر اس سے ایک فیصلہ صادر کردینا کہ ’’کوئی آسمان سے آنے والا نہیں‘‘ عیاری اور دھوکہ دہی ہی تو ہے جس حدیث رسول کے ایک جملے امامکم منکم کو پیش کیا گیا پوری حدیث کے پیش کرنے کے بعد واضح ہوگیا کہ اس حدیث کے جملہ امامکم منکم کا وفات عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں پوری حدیث ہم نے پیش کردی ہے اس کو بار بار پڑھیں ترجمہ کریں آپ کو معلوم بلکہ یقین ہوجائے گا کہ آنے والا نازل ہونے والا کوئی اور ہے اور امام تمہارا تم میں سے ہوگا اس حدیث میں دو بزرگوں کا تذکرہ ہے۔آنے والے اور نازل ہونے والے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور اس وقت امام مسلمانوں کا یعنی نماز کی امامت کرانے والے محمد مہدی ہیں اور امام مہدی کی تمام صفات حمیدہ احادیث رسول میں تفصیلاًموجود ہیں اور ایسی ہی نزول فرمانے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی علامات و نشانات بھی احادیث رسول کے ذخیرہ میں واضح طور پر مذکور ہیں۔
نزول سے مراد تخلیق قارئین:
محترم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق احادیث میں جابجا نزول کا لفظ آیا ہے مثلاً والذی نفسی بیدہٖ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم۔ [بخاری]
اطلع النبی صلی اﷲ علیہ وسلم علینا ونحن نتذکر فقال ماتذکرون قالوانذکرالساعۃ قال انہالن تقوم حتی ترون قبلہا عشرآیات فذکرالدخان والدجال والدابۃ وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ ابن مریم (مسلم)
قال کیف انتم اذانزل ابن مریم (بخاری)
انہ نازل (مسند احمد) اذانزل علیہم عیسیٰ ابن مریم (ابوداؤد) فینزل عیسیٰ ابن مریم(مسلم) ان مذکورہ تمام جگہوں میں نزول کا لفظ ہی مختلف شکلوں میں (صیغوں میں) استعمال ہوا ہے۔ جس کا معنی اہل لغت نے اوپر سے نیچے اترنے کے کیے ہیں۔ لیکن قادیانی حضرات نزول کے معنی اترنا کرنے سے گریزاں ہیں کہ اس سے تو حضرت عیسیٰ ابن مریم کو آسمان پر زندہ اور پھر ان کا زمین پر اترنا لازمی طور پر ثابت ہورہا ہے۔ اس لیے وہ عام آدمی کے سامنے مختلف آیات مثلاً انزلنا الحدید (سورۃ: ۲۵) انزلنا علیکم لباسا ( :۲۶)
وانزل لکم من الانعام ثمنیۃ ازواج (زمر:۶)
وغیرہ پیش کر کے کہتے ہیں کہ نزول کا معنی پیدا ہونا ہے نہ کہ اترنا تو لہٰذا جہاں کہیں بھی نزو ل عیسیٰ کا ذکر ہے اس سے اترنا مراد نہیں بلکہ پیدا ہونا ہے چونکہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں تو احادیث رسول میں اس نزول سے مراد پیدائش ہے اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہیں کہ وہ پیداہوئے ہیں۔
۱…… پہلی بات یہ ہے کہ اگر قادیانی حضرات کی یہ بات مان لی جائے کہ نزول کا معنی اوپر سے نیچے اترنے کے نہیں ہیں بلکہ پیدا کرنے یاہونے کے ہیں تو پھر
اللّٰہ الَّذِی اَنْزَلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ (سورۃ الشوریٰ آیت :۱۷)
نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْاَمِین (سورۃ الشعرآء، آیت: ۱۹۳)
اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ (سورۃ الحجر:۹)
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (سورۃ القدر:۱)
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ (سورۃ البقرہ:۱۸۵)
ان مذکورہ آیات میں :اَنَزَل، نَزَّلَ، نَزَّلْنَا، اَنْزَلْنَا، اُنْزِل کے آپ ذرانزول کے معنی اترنا کو چھوڑ کر پیدا کرنا یا پیدا ہونا کر کے دیکھاؤ۔ لیکن یہ ہر گز نہیں ہوسکے گا کہ ان آیات میں نزول کے معنی اوپر سے نیچے اترنے کو چھوڑ سکو تو پھر واضح ہے کہ قادیانی آیات مذکورہ اَنزِلنَا الحَدِیدَ، اَنزَلنَا عَلَیکُم لِبَاساً وغیرہ پیش کر کے دھوکہ اور فریب سے کام لے رہے ہیں اور اپنی کم علمی بلکہ جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ نزول کا معنی کسی چیز کا اوپر سے نیچے اترنا ہی ہے لیکن نزول کے معنی کی وضاحت امام راغب (جو لغت عرب کے امام ہیں) نے ان لفظوں میں کی ہے ہے اگر کوئی سمجھنے والا عقل والا ہو تو اسے یہ کافی ہوگی۔ امام راغب اپنی معرکتہ الآرا کتاب مفردات القرآن میں تحریر فرماتے ہیں النزول فی الاصل ہو انحطاط من علوہٖ وانزال اللّٰہ تعالیٰ اما بانزال الشئی نفسہ واما بانزال اسبابہ والہدایۃ الیہ کا نزال الحدید واللباس وہوذالک۔
نزول کا معنی اصل میں اوپر سے نیچے اترنے کا ہے اﷲ تعالیٰ کا اتاریہ یا تو نفس شی کا اتارنا ہوتا ہے (جیسے قرآن مجید کا اتارنا) یا اس شیٔ کے اسباب و ذرائع، اور اس کی مثل اس معنوی وضاحت سے یہ واضح ہوگئی کہ انزال سے مراد یا تو نفس شیٔ ہے یا اس چیز کے اسباب کا اتارنا اور کسی شئی کے لیے احکامات کا اتارنا۔ اس کے بعد لباس،لوہا،انعام (جانور) کے اتارنے کی سمجھ آجانی چاہیے مگر بعض لوگ نہ مانو والی بات کے پابند ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ہی اﷲ تعالیٰ نے واذا مروا باللغو مروا کراما (سورہ فرقان:۷۲)کا حکم صادر فرمایا ہے۔
قارئین محترم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی اور عہد الست یاد لانے کے لیے انبیاء و رسل کا مقدس سلسلہ شروع کیا جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضور علیہ السلام پر آکر اختتام پذیر ہوگیا اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی و رسول نہیں آئے گا۔ قرآن مجید میں تقریباً ایک سوآیات بینات موجود ہیں جو اس بیان پر واضح ہیں ، ان میں اسے تین آیات نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
۱ قل یایہاالناس انی رسول اﷲ الیکم حمیعا۔ ترجمہ: آپ کہہ دیں اے لوگوں میں تم سب انسانوں کی طرف اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں۔[سورۃ الاعراف:۱۵۸]
۲ وما ارسلناک الاکافۃ للناس بشیراً ونذیراً۔ ترجمہ: ہم نے توآپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر۔[سورۃسبا: ۲۸]
۳ وماارسلناک الارحمۃ للعالمین۔ ترجمہ: نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ [سورۃانبیاء:۱۰۷]
ان تینوں آیات میں حضور علیہ السلام کا قیامت تک پوری انسانیت کے لیے نبی و رسول ہونے کا واضح بیان موجود ہے۔ اور ایسے ہی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اس منصب آخری نبی و رسول ہونے کو یوں بیان فرمایا ہے ۔
۱ ارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون۔ (مسلم فی الفضائل) ترجمہ:میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر انبیاء ختم کردیئے گئے ہیں۔
۲ کانت بنو اسرائیل تسو سہم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون (بخاری فی کتاب احادیث الانبیاء) ترجمہ: بنی اسرائیل کی سیاست و قیادت انبیاء علیہ السلام کرتے تھے جب کوئی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس خلیفہ ہوجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء بہت ہوں گے۔
۳ انا خاتم النبین لانبی بعدی (مسلم) ترجمہ: میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان تینوں آحادیث میں صاف طور پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے منصب ختم نبوۃ سے متعلق فرمایا کہ میں تمام مخلوق کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں اور میرے وجود کے ساتھ سلسلہ نبوت ختم کیا گیا اور سابقہ قوموں میں سے بنی اسرائیل کا تذکرہ کرتے ہوں فرمایا کہ ان کی سیاست (قیادت) انبیاء کرتے تھے جب ایک نبی فوت ہوجاتا اس کے بعد دوسرا نبی بھیج دیا جاتا میں خاتم البنیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہاں خلفاء بہت ہوں گے۔ اس عنوان پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقریباًدو صد احادیث مسلمانوں کے پا س موجود ہیں جن کے پیش نظر مسلمان حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سلسلہ نبوت کا آخری نبی و رسول مانتے ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی ورسول مبعوث نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں حضور علیہ السلام کے بعد کئی افراد نے نبوت و رسالت کے دعوے کیے حتیٰ کہ حضور علیہ السلام ابھی دنیا میں حیات تھے کہ مسلیمہ کذاب اور اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ ان کے ساتھ اہل اسلام کی جنگیں ہوئیں ان کو نیست و نابود کیا گیا مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے نبوت و رسالت کے ان دعوے داروں کو فی النار کیا اس سے اب تک کئی افراد نے دعوے کیے مگر مسلمانوں نے اپنے عقیدہ کو نہ چھوڑا اور اب تک مسلمان اسی عقیدہ ختم نبوت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ اﷲ کے آخری نبی ورسول کی شریعت کو اپنا دین اور آپ پر اترنے والی اﷲ تعالیٰ کی آخری کتاب پر عمل پیرا ہیں جو دنیا و عقبی کی کامیابی کی ضمانت ہے مگر آج کے دور میں ماضی کی طرح ایک طبقہ مسلمانوں کے اس عقیدہ کے برعکس خیال رکھتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد بھی نبوت جاری ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی نبی ہیں اور رسول ہیں اور اپنے تصورات و تخیلات کو مختلف شبہات و وساوس اوررکیک تاویلات کے سہارے چلایاجارہا ہے۔ علماء اسلام شروع دن سے ہی ان کے ان تخیلات فاسدہ کارد کرتے اور ان کے کفریات کو چاک کرتے چلے آرہے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی کرتے چلے آرہے ہیں اور اس گروہ کے تخیلات فاسدہ کی زد میں آنے والی ایک آیت ذیل ہے جس کو وہ اپنے خیالات فاسدہ اجرا نے نبوت پر پیش کرتے اور اپنے تخیلات کا سہارا بناتے چلے آرہے ہیں علماء اسلام نے اس آیت کو ان کے تخیلات کے گرد و غبار سے مکمل پاک صاف کردیا کہ کسی طریقے سے بھی یہ آیت اس گروہ کے خیالات کی زد میں نہیں آسکتی۔ اور وہ آیت قرآنیہ ربانیہ یہ ہے۔
یٰبَنِیْ آدم امایاتینکم رسل منکم (سورۃ اعراف:۳۵)
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں بنی آدم مخاطب ہے اور بنی آدم سے کہا جارہا ہے کہ اگر تمہارے پاس رسول آئیں تو بنی آدم جب موجود ہیں اس وقت رسول کا آنا بھی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ:
اس آیت سے اگر قادیانی اجراء نبوت پر دلیل پکڑتے ہیں تو کیسے مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا مگر اس نے اپنی نبوت پر اس آیت سے استدلال نہ کیا نبوت کے دعویدار کو تو اس آیت سے اپنی نبوت کے دلیل بنانے کا علم نہ ہوا کہ یہ بھی نبوت کے اجراء پر دلیل ہے لیکن اس کے امتی کو پتہ چل گیاتو اس سے تو یہ پتہ چلا کہ جس نبی کا علم اپنے امتی سے ناقص ہے وہ اس کا نبی کیسے بن سکتا ہے کہ نبی کا علم تو اب سے اعلیٰ اور اکمل ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ:
اس آیت میں کونسا لفظ ہے جو اجراء نبوت پر دلیل بننے کا سبب ہے۔اگر تو لفظ رسل ہے جیسے کہ یقینی طور پر یہی محسوس ہورہا ہے تو رسل کا معنیٰ توسمجھیں اور وہ بھی ہمارے سے نہیں بلکہ اپنے مرشد اور رہنما مرزا قادیانی سے وہ تحریر کرتے ہیں:’’ کہ رسولوں سے مراد جو خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول ہوں یا محدث ہوں‘‘ (روحانی خزائن:ص:۴۱۹،ج:۱۴)
جب مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول صرف رسول اور بنی کو نہیں کہتے بلکہ محدث اور مجدد کو بھی رسول کہتے ہیں تو یقینا اس آیت کے مطابق محدث اور مجدد قیامت تک امت کی راہنمائی کرنے کے لیے آتے رہیں گے اس آیت میں رسول سے مراد نبی لینا قطعاً درست نہیں دوسری آیت قرآنیہ اور احادیث رسول اس کی مانع ہیں نیز اگر اس آیت سے’’ جب تک اولاد آدم ہے اس وقت تک نبی و رسول آتے رہیں گے ‘‘کا اگر کوئی ذکر ہے تو آج نسل انسانی انتہائی خطرناک حد تک پریشانیوں کے دلدل میں پھنس چکی ہے انسانیت کا کوئی وارث نہیں ہے ظلم و ستم عروج پر ہے کسی کی عزت و آبرو چار دیواری کے اندر بھی محفوظ نہیں ہے ہر طرف رد قانو نیت کا دور دورہ ہے لیکن کوئی نبی نہیں آرہا تو پھر کب نبی و رسول آئے گا۔ ہاں اﷲ کے آخری نبی ورسول حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اب کبھی بھی کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول نہ کوئی ظلی نہ بروزی آج کی پریشانیوں کا حل اﷲ کے آخری نبی و رسول حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کامل اتباع میں ہی ہوگا۔
قارئین محترم قادیانیوں کے اس تخیل ’’ کہ جب تک اولاد آدم ہے جب تک نبی آتے رہیں گے‘‘ اس کا جواب مکمل آپ کے پاس پہنچ چکا جس سے کھل کر بات سامنے آگئی کہ ان کی تخیل میں وزن نہیں بلکہ تخیل کی بنیاد فساد عقل کے غبار پر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ دسویں ہجری کے مشہور و معروف مفسر علامہ جلال الدین سیوطی مرحوم نے اپنی تفسیر درمنشور میں اس آیت کے تحت یوں تحریر فرمایا ہے اخرج ابن جریر عن ابی یسار السلہی قال ان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ جعل آدم و ذریتہ فی کفہ فقال یا بنی آدم امایا تینکم رسل منکم یقصون علیکم آیٰتی قمن اتقیٰ۔ (ترجمہ) ابو یسار سلمی سے روایت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو اپنے دست قدرت میں لیا اور یہ ارشاد فرمایاکہ اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں ……(الخ)تو گویا کہ مرزائی استدلال کی اس جگہ قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں کہ اس روایت کے مطابق تو اس آیت کا تعلق عالم ارواح کے ساتھ ہوا کہ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم کو مخاطب کر کے اس طرح فرمایا تھا تو پھر اس آیت سے مرزا ئیوں کا استدلال ان کے طریقہ پر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی بات کو قطعاً غلط نہیں کہنا کہ ان کے دھرم کی بنیاد امت محمدیہ مخالفت ہی پر قائم ہے۔
معراج نبوی اور تعلیمات اسلام:
آ پ کا زمانہ نبوت شروع ہوا تو طرح طرح کی تکلیفوں اور پریشانیوں میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم گھر رہے جو لوگ صادق وامین کے لقب سے پکارتے اور یاد کرتے تھے وہ سارے کے سارے دشمن ہوگئے اپنے پرائے سبھی دشمنی میں ایک ہوگئے کوئی کسی وقت پتھرمار رہا ہے تو کوئی گندگی سے بھری اوجھری آپ پر ڈال رہا ہے کسی نے گلے میں کپڑا ڈال کر گلا دبایا ہوا ہے قتل کی دھمکیاں خاندانی تعلقات منقطع کیے جارہے ہیں کھانے میں زہر دے کر مارنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں سفر طائف اس سلسلہ کی انتہائی اندوہناک کہانی ہے بے عزت کیا جارہا ہے۔ مذاق اڑایا جارہاہے معاذ اﷲ جھوٹا کہا جارہا ہے۔ جس کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو شرف معراج بخشا اور عظمتوں ، بلندیوں سے نوازا کہ اس سے زیادہ بلندی کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ ایک رات جبرئیل ایک سواری براق لیکر حاضر ہوئے جو گدھے سے بڑی اور خچر سے چھوٹی سفید کی رنگ زین و لگام سے آراستہ برق رفتار اتنی کہ جہاں نظر پڑتی وہیں قدم رکھتی روایات کے مطابق جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس پر سوار ہونے لگے تو سواری نے کچھ شوخی کی جس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا اے برا ق یہ کیسی شوخی ہے حضور علیہ السلام جو کائنات میں سب سے زیادہ محترم ہیں تیرے پر سوار ہو رہے ہیں یہ سن کر براق شرم سے پسینہ پسینہ ہوگئی اس پر سوار ہو کر آپ بیت المقدس مسجداقصی کی طرف روانہ ہوئے بیت المقدس پہنچے تو سواری باندھ دی گئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تھوڑی دیر میں بہت سے لوگ بیت المقدس میں جمع ہوگئے ایک موذن نے اذان کہی اور تکبیر پڑھی سارے لوگ صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے اور جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا مصلے پر امامت کے لیے آگے کردیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے امامت کے فرائض انجام دئیے سبھی لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی نما ز کے اختتام پر جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اﷲ آپ کو معلوم ہے آپنے کن لوگوں کو نماز پڑھائی او رکہا کہ یہ حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سارے انبیاء و رسل تھے جنھوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ہے بیت المقدس میں منعقدہ کائنات کی سب سے بڑی تقریب سے فارغ ہوں تو ایک سیڑھی کے ذریعہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پہلے آسمان پر تشریف لے گئے جب آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھولنے والوں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا میرے ساتھ حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں پھرانھوں نے کہا کہ کیا ان کو لانے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے حکم کیا تھا جبریل علیہ السلام نے کہا ہاں جس پر آسمان کے فرشتوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا اس طرح دوسرے ، تیسرے آسمان بلکہ ساتوں آسمان عبور کر کے سدرۃ المنتہی پہنچے آپ کو حوض کوثر دکھایا گیا بہت المعمور جو عین بیت اﷲ کے مقابل اوپر واقع ہے جو فرشتوں کا قبلہ ہے۔دکھایا گیا ان کے علاوہ کئی مشاہدات ہوئے پھر ایک رفرف (جھولا یا تخت) لایا گیا جس پر آپ کو بٹھا کر جبریل علیہ السلام نے اوپر ساتھ جانے سے معذوری ظاہر کی توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کو وہیں چھوڑ کر رفرف پر بیٹھے عظمتوں بلندیوں کو چھوتے ہوئے ایسی جگہ پر پہنچے جہاں احکام الٰہیہ اور تقادیر ربانیہ کی کتابت ہو رہی تھی پھر عظمت کے ایسے بلند مقام پر پہنچے جہاں فرشتوں کی سنی جانے والی آوازمیں بھی منقطع ہوگئیں اور مقام قرب میں عرش کے قریب پہنچے اس قرب کا منظر قرآن مجید نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔ثم دنیٰ فتدلی فکان قاب قوسین اوادنی فاوحی الیٰ عبدہ ما اوحی (سورۃ نجم :۸،۹،۰۱)ترجمہ: پھر وہ نزدیک ہوا پھر اور نزدیک ہوا یہاں تک کہ دو کانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ تب وحی بھیجی اپنے بندے کی طرف جو کچھ وحی اس کو فرمانا تھی۔ لقاء خداوندی اور کلام خداوندی سے مشرف ہوں۔ آپ پانچ نمازیں فرض کی گئیں بعد ازاں ساتوں آسمانوں سے واپسی بیت المقدس میں ہوئی اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سواری براق پر سوار ہو کر مکہ معظمہ میں صبح سے پہلے پہنچے مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک سفرکو سیرت نگار اسراء سے تعبیر کرتے ہیں اور بیت المقدس سے سات آسمانوں کا سفر سدرۃ المنتہی لقاء خداوندی تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں بسااوقات سارے سفر کو اسراء یا معراج سے بھی تعبیر کردیا جانا ہے۔ عظمتوں ، بلندیوں پر لے جانا اور اس سارے سفر کا مقصد اﷲ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو عجائبات قدرت دکھانا تھے قرآن مجید میں مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو اختصار کے ساتھ سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں بیان کیا گیا ہے مگر راستہ کے تمام مشاہدات کو احادیث رسول صلی اﷲ علیہوسلم میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ایسے ہی بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں میں انبیاء و رسل علیہم اسلام سے ملاقاتیں ، حوض کوثر کا دیکھنا جنت دو زخ کا مشاہدہ نماز پنجگانہ کا فرض ہونا بھی احادیث رسول علیہ السلام میں موجود ہے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم علی الصبح مکہ میں تشریف فرما تھے کہ ابوجہل کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر گزر ہوا اور ازراہ تمسخر کہنے لگا کہ آج کوئی ہے نئی بات تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں نئی بات یہ ہے کہ میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس اور پھر ساتوں آسمانوں کی سیر کر کے واپس آیا ہوں ابوجہل کہنے لگا کہ اگر میں آپ کی قوم کو بلاؤں تو ان کے سامنے بھی یہ بات کہنے کے لیے تیار ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایا بالکل تیار ہوں ابوجہل نے لوگوں کو بلایا مجلس بھر گئی ابوجہل نے کہا جو کچھ آپ نے مجھے بتایا ہے ان کو بھی بتادو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سارا واقعہ معراج بتادیا مگر لوگ تعجب سے سرپر ہاتھ رکھ کر جھٹلانے لگے بعض لوگوں نے مذاق اور تمسخر کرتے ہو تالیاں بھی بجائیں بعض لوگ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگے کیا آپ بیت المقدس کے نشانات وعلامات بتاسکتے ہیں۔حضور علیہ السلام چونکہ چند لمحوں کے لیے ہی تو بیت المقدس گئے تھے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کا نقشہ کردیا لوگ علامتیں پوچھتے جاتے تھے اور میں دیکھ دیکھ کر بتاتا جاتا تھا جو لوگ بیت المقدس کو بخوبی دیکھنے والے تھے کہنے لگے یہ نشانات تو صحیح ہیں اسی محفل سے کفار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس جا پہنچے اور جو کچھ سنا تھا واقعہ معراج جا کرابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بتایا جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا یقینا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اﷲ علیہوسلم سچے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ آپ نے کیسے تصدیق کردی کوئی بھلا اتنے وقت میں اتنا سفر کرسکتا ہے مگر ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ’’میں تو اس سے بھی بڑی باتوں کی تصدیق کرتاہوں‘‘اسی وجہ سے ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اسی دن سے صدیق کا لقب عطاء ہوا اور ابوبکر صدیقؓ کہلائے اس واقعہ معراج کو سن کر کئی نو مسلم واپس کفر میں پلٹ گئے اور ارتداد کی وادی میں جا گرے کہ ان کی عقل کام نہ کرسکی اور تصدیق نہ کرسکے۔
یہ اسراء اور معراج آپ صلی اﷲ علیہوسلم کو جسمانی طور پر ہوا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسراء کہتے ہیں را ت کے چلنے کو جیسے اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رات کے وقت قوم بنی اسرائیل کو لے کر چلنے کے لیے ان لفظوں میں فرمایا: اوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی انکم متبعون (سورۃ شعراء:۵۲)ترجمہ: ہم نے وحی کی موسیٰ کی طرف کہ راتوں رات نکل جاؤ میرے بندوں کو لے کر بے شک تمہارا پوری طرح پیچھا کیا جائے گا۔
ایسے ہی لوط علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ ایمان والوں کو راتوں رات لے کر بستی سے نکلنے کا حکم ان لفظوں میں قرآن مجید میں محفوظ ہے: فاسر باہلک بقطع من اللیل (سورۃ حجر:۶۵)۔ ترجمہ: پس آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کولے کر چلے جائیے۔
دونوں واقعات میں چونکہ رات کو چلنے کا حکم ہوا ہے تو لفظ ’’اسر‘‘ کا استعمال ہوا ہے اسی طریقہ سے اپنے نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو چونکہ اسراء رات کے ایک حصہ میں کرائی تو یہاں بھی لفظ اَسْرٰی ہی استعمال ہوا کیونکہ رات کے چلنے کو اسراء ہی کہا جاتا ہے آدمی جو نیند کی حالت میں خواب دیکھتا ہے اس کو اسراء نہیں کہتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ’’عبد‘‘ کا لفظ روح مع الجسم دونوں پر بولا جاتا ہے۔ ’’عبد‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں کہیں بھی صرف روح پر نہیں بولا گیا۔ مثلاًقرآن مجید میں ہے ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا۔( سورۃ بقرہ:۲۳)ترجمہ: اگر تم اس قرآن کے بارے میں ذرہ بھی شک ہے میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدصلی اﷲ علیہ وسلم) پر اتارا ہے۔
تبرٰک الذی نزلنا الفرقان علی عبدہٖ۔ ترجمہ: بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے نازل کیا فیصلہ کرنے والی کتاب کو اپنے بندے پر۔
انہ لما قام عبداللّٰہ یدعود(سورۃ جن:۱۹)۔ ترجمہ: جب کھڑا ہوتا ہے بندہ اﷲ کا اسی کو پکارنے کے لیے۔
ذکر رحمتکہ عبدہ ذکریا (سورۃمریم:۲) ترجمہ:ذکر ہے تیر ے ر ب کی رحمت کا جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی۔
تو ایسے ہی حضور علیہ السلام کے اس واقعہ معراج میں بھی عبد کا ذکر ہے ۔
سبحن الذی اسرٰی بعبدہٖ لیلاًمن المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ
اس آیت میں لفظ اسرٰی بھی ہے اور لفظ عبد بھی ہے اور یہ دونوں لفظ ہوتے ہوئے پھر بھی واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کا انکار کرنا قرآنی رموز سے جہالت عدم واقفیت یا درپردہ انکار ہے جو کفر ہے۔
اس لیے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ یہ اسرأ اور معراج آپ کا جسمانی تھا۔ اسی پر امت محمدیہ کے تمام طبقات صحابہؓ ،تابعین، تبع تابعین ،مفسرین، محدثین متفق چلے آرہے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو معراج بحالت بیداری روح مع الجسم ہوا باقی رہی سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے منسوب یہ روایت کہ : مافقدت جسد رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم ولکن اﷲ اسرٰی بروحہ۔ ترجمہ: یعنی معراج میں میرے پاس سے آنحضرت کا جسم غائب نہیں ہوا لیکن اﷲ نے آپ کی روح کو سیر کرائی۔ اس پر اتنی بات ہی کافی ہے کہ معراج (مکہ شریف میں) ہجرت سے تین سال یا پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے جبکہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ کی شادی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جا کر ہوئی ،جو ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے تو پھر اس پر سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ کی طرف یہ روایت منسوب کرنا کیسے درست اور صحیح قرار دی جا سکتی ہے۔ ویسے یہ روایت منقطع اور موضوع روایات میں سے ہے لیکن قادیانی حضرات کی آج تک ہمیں تو سمجھ نہیں آئی کہ ان کے پاس جو عقل اور دماغ ہے وہ کس کام کا، صحیح بات سمجھنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہے اب یہی معراج کی بات کو ہی کسوٹی بنالیں قرآنی تعلیمات واضح طور پر حضور علیہ السلام کے معراج کو جسمانی قرار دے رہی ہیں۔احادیث رسول کا بیان بھی یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج جسمانی ہوا تھا اور احادیث معراج احادیث متواترہ ہیں پورے اصحاب رسول اس بات پر متفق ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج جسمانی ہوا پوری امت محمدیہؐ کے تمام طبقات صحابہ، تابعین، تبع تابعین، مفسرین و محدثین آپ علیہ السلام کے معراج کو معراج جسمانی ہی لکھتے چلے آرہے ہیں مگر قادیانی لوگ اس کے برعکس آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے معراج جسمانی کا انکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور معراج جسمانی کے انکار پر’’ وہ روایت جسے پوری امت کے محدثین موضوع قرار دے چکے ہیں ‘‘کو سہارا بنایا ہوا ہے۔ قرآن کی واضح تعلیمات ،احادیث متواترہ ،پوری امت محمدیہ کے تمام طبقات صحابہ، تابعین مفسرین و محدثین سے ملی ہوئی روشنی کو چھوڑ کر اپنی اندھیر نگری میں بسیرا کر رہے ہیں ،کہتے ہیں کسی شخص نے ایک واعظ سے سنا کہ تہجد پڑھنے سے چہرے پر نور آجاتا ہے رات کے آخری حصہ کو اٹھا وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تیمم کرنے کی غرض سے مٹی پر (جو اصل میں گھر میں پڑا ہوا روٹی پکانے والا توا تھا) ہاتھ مار کر تیمم کیا تہجد گزاری صبح اٹھ کر بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے چہرے پر نور آگیا ہے۔ بیوی بولی اگر تو نور کالے، سیاہ رنگ کا ہے پھر تو نور کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔
اسی طریقہ سے اگر تو اسلام نام خدا و رسول علیہ السلام کی طرف سے ملی ہوئی روشنی جو قرآن و حدیث کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے تو اس روشنی میں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا معراج جسمانی ہے اور اسی روشنی میں پوری امت محمدیہ اب تک چلی آرہی ہے تو پھر قادیانی اپنے بارے فیصلہ کریں کہ اس روشنی کو چھوڑ کر کہیں اپنے پیدا کردہ اندھیرے میں تو اوندھے گرے ہوئے نہیں ہیں۔ ایسے ہی آیت قرآنیہ وماجعلنا الرویاالتی ارینک الافتنۃ للناس (سورۃ بنی اسرائیل: )۔ میں لفظ الرویا سے استدلال کہ معراج ایک خواب تھا۔ کیا اس آیت میں الرویا سے خواب مراد لینا درست ہے؟ امت محمدیہ کے سب سے بڑے مفسر اور شاگرد رسول حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی بخاری شریف میں موجود روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں رویا سے مراد خواب نہیں بلکہ ظاہری آنکھ سے دیکھنا ہے الفاظ حدیث یوں ہیں عن ابن عباس وما جعلنا الرویاالتی ارینک الافتنۃ للناس قال ہی رویاعین اریھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لیلۃ اسری (بخاری جلد:۲، ص:۶۴۶)۔
’’ہی عین اریھا‘‘ اس کا کسی عربی دان سے ترجمہ کروالیں کہ عین اریھا کا معنی خواب ہے یا آنکھ سے دیکھنا ہے جب حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ اسراء کی رات میں آنکھ سے دیکھنا معنی کررہے توپھر اور کون ہے اور اس کی سیدنا ابن عباس کی مقابلہ میں کیا حیثیت ہے․؟ جو اس جگہ رویا معنی خواب کرے اور مراد معراج کی رات لے، ابن عباس رضی اﷲ عنہ کا فرمان روشنی ہے اس کا مقابل اندھیرا ہے۔قادیانی فیصلہ کریں سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی دی ہوئی روشنی کو قبول کرنا ہے یا اندھیر ے کو ہی پسند کرنا کسی کی طرح ان کی بھی عادت لازمہ بن چکی ہے۔
قارئین یہ تھے چند سوال جو گذشتہ ۱۲؍ربیع الاول جامع مسجد احرار چناب نگر میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے موقع پر ایک کرم فرما کے ذریعہ موصول ہوئے اور یہ وہی سوال ہیں جو عموماً قادیانی عام مسلمانوں سے مختلف انداز میں کرتے رہتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امید ہے کہ قارئین کو ضرور نفع ہوگا (ان شاء اﷲ)۔
آخری بات مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات کا نام اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام نام ہے قرآن و حدیث کی تعلیمات کا اور قرآن و حدیث کے اس معنی مفہوم کا نام اسلام ہے جو اصحاب رسول علیہم الرضوان سے تمام امت محمدیہ مانتی چلی آرہی ہے قرآن و حدیث کا نا م لے کرامت محمدیہ کے متفقہ بیان کردہ معانی و مفاہیم کو چھوڑ کر کوئی اور معنی مفہوم پیش کرنے کا نام اسلام نہیں ہے اس لیے الفاظ قرآن اور حدیث کے ہوں اس کا معنی مفہوم مرزا غلام احمد قادیانی کا بیان کردہ ہو اس کو اسلام کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے خبردار رہیں دھوکہ میں نہ آئیں الفاظ قرآن و حدیث کے ہیں تو معنی مفہوم بھی خود پیغمبر اسلام یا آپ کی تیار کردہ جماعت اصحاب رسول کا بیان کردہ ہوگا تب تو روشنی ، راہ ہدایت، جنت اور کامیابی کا راستہ ہے و گرنہ کفر،لہٰذا اس سے بچیں۔