اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۸)
حافظ عبیداﷲ
لہٰذا اگر غور کیا جائے اور تدلیس کی نسبت صحیح بھی تسلیم کرلی جائے تو امام زہری ؒ طبقہ ثانیہ کی شرائط پر پورے اترتے ہیں جس کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی گئی ہیں :
(1)…… اس طبقہ کے لوگ بخاری ومسلم کے رواۃ میں سے ہیں ۔
(2)……یا وہ ائمہ حدیث میں سے ہیں ۔
(3)…… اس طبقہ میں وہ محدثین شامل ہیں جن سے تدلیس شاذ ونادر ثابت ہوتی ہے ۔
(4)…… یا اگر وہ تدلیس کرتے بھی ہیں تو وہ ثقہ راوی سے تدلیس کرتے ہیں (یعنی جس راوی کو حذف کیا گیا ہو وہ ثقہ ہو ضعیف یا کاذب نہ ہو)۔
امام زہری ؒ بلاشبہ ائمہ حدیث کے بھی امام ہیں خود حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں ان کا تعارف یوں کروایا ہے ’’، الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ واتقانہ وثبتہ وہو من رؤوس الطبقۃ الرابعۃ۔‘‘ فقیہ اور (حدیث کے) حافظ تھے جن کی جلالتِ شان ، پختگی اور درستگی پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے، آپ (راویوں کے) چوتھے طبقے کی سرکردہ شخصیات میں سے تھے۔ (تقریب التہذیب: ص 506، دار الرشید۔حلب)، نیز یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ ائمہ حدیث نے امام زہری ؒ کے ’’عنعنہ‘‘ کو قبول کیا ہے ، اور پھر امام ذہبیؒ اور خود حافظ ابن حجرؒ نے تسلیم کیا ہے کہ امام زہریؒ کی تدلیس شاذ ونادر ہے اور وہ قلیل التدلیس ہیں، لہٰذا حافظ ابن حجرؒ کا انہیں طبقہ ثالثہ میں شمار کرنا محل نظر اور سمجھ سے بالاتر ہے ، امام زہریؒ کسی طرح بھی اس طبقہ میں شمار نہیں کیے جاسکتے ۔
پھر اگر مزید غور وخوض کیا جائے تو مدلسین کے پہلے اور دوسرے طبقہ کی صفات وشرائط بھی آپس میں ملتی جلتی ہیں چنانچہ بعض محققین کا خیال ہے کہ مدلسین کے طبقات پانچ کے بجائے چار ہونے چاہئیں اور دوسرے طبقہ کو پہلے میں ضم کردینا چاہئے، چنانچہ ڈاکٹر مسفر بن غرم اﷲ الدمینی اپنی کتاب ’’التدلیس فی الحدیث‘‘ میں دوسرے طبقہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’وحکم أہل ہذہ المرتبۃ کحکم أہل المرتبۃ الأولی، یُقبل حدیثہم سواء صرّحوا بالسماع أو رَوَوا بالعنعنۃ ، وعندي لو أنہ ضُمَّت ہذہ المرتبۃ مع الأولی لکان اَولی، لأن حکمہما واحد ، وتدلیس أہلہا محتمل مقبول غیر مؤثر‘‘ (اس دوسرے) طبقہ والوں کا حکم بھی پہلے طبقہ والوں جیسا ہے، ان کی حدیث ہرحال میں قبول کی جائے گی چاہے وہ سماع کی تصریح کریں یا ’’عن‘‘ کے ساتھ روایت کریں ، ا ور میرے خیال میں اگر یہ (دوسرا طبقہ) پہلے طبقہ میں ضم کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ ان دونوں طبقوں کا حکم بھی ایک ہے اور ان دونوں طبقوں والوں کی تدلیس کا صرف احتمال ہے جوکہ مقبول اور غیر مؤثر ہے ۔
(التدلیس فی الحدیث۔ص 143)
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صحیحین (بخاری ومسلم) کے بارے میں تو ائمہ حدیث نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اگر ان میں کسی (ثابت شدہ) مدلِّس کی روایت بھی ’’عن‘‘ کے ساتھ مذکور ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس کا سماع ثابت ہے ، چنانچہ شارح صحیح مسلم امام محیی الدین بن شرف النووی (متوفی 676ھ) لکھتے ہیں:
’’وما کان فی الصحیحین وشبہہما عن المدلسین ب ’’عن‘‘ محمول علی ثبوت السماع من جہۃ أخری‘‘ صحیحین یا ان جیسی کتب میں (جو بخاری ومسلم کی شرائط کا التزام کریں)مدلسین سے جو روایات ’’عن‘‘کے ساتھ مروی ہیں یہی سمجھا جائے گا کہ ا ن کا سماع کسی دوسرے طریقے سے ثابت ہے۔
( التقریب والتیسیر لمعرفۃ سنن البشیر والنذیر، ص 39، دار الکتاب العربی۔بیروت)
مثال کے طور پر آگے صحیح بخاری کے حوالے سے ہی حدیث نمبر 3 آرہی ہے جس میں ابن شہاب زہریؒ نے صاف طور پر ’’أخبرني سعید بن المسیب‘‘ (مجھے سعید بن المسیب نے خبری دی) فرمایا ہے ۔
سعید بن المسیب بن حزن القرشی
اس حدیث کے اگلے راوی ہیں مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیب ؒ،یہ حضرت ابوہریرہؓ کے داماد بھی تھے، ان پر تمنا عمادی صاحب نے کوئی جرح نہیں کی بلکہ لکھا ہے کہ:
’’نہ سعید بن المسیب پر میرا الزام ہے نہ حضرت ابوہریرہ پر جن سے ابن المسیب اس حدیث کو روایت کررہے ہیں۔‘‘ (انتظارِ مہدی ومسیح، ص181)
لہذا ہم بھی سعید بن المسیبؒ کا مختصر تعارف کراکے آگے چلتے ہیں ۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کا تعارف یوں کرایاہے:
’’أحد العلماء الأثبات الفقہاء الکبار، من کبار الثانیۃ، اتفقوا علی أن مرسلاتہ اصح المراسیل، وقال ابن المدیني: لا أعلم فی التابعین أوسع علماً منہ، مات بعد التسعین وقد ناہز الثمانین۔‘‘ یہ قابل اعتمادعلماء اور بڑے فقہاء میں سے تھے ، اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ان کی بیان کردہ مرسل احادیث صحیح ترین مرسلات ہیں، ابن المدینی نے فرمایاکہ : تابعین میں اُن سے زیادہ وسیع العلم میں نہیں جانتا، آپ نوے ہجری میں اسّی سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (تقریب التہذیب،ص 241، دار الرشید ، حلب)
اما ذہبیؒ ان کا تعارف یوں کرواتے ہیں:
’’أحد الأعلام، وسید التابعین…… ثقۃ حُجّۃ رفیع الذکر، رأس فی العلم والعمل۔‘‘ مشہور شخصیت ہیں اور تابعین کے سردار ہیں، ثقہ ہیں، حجّت ہیں اور بلند ذکر والے ہیں، علم وعمل کے سرتاج ہیں ۔
(الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ، ج1 ص 444 – 445، دار القبلۃ، جدۃ)
حضرت عبداﷲ ؓ بن عمرؓ نے سعید بن المسیبؒ کے بارے میں فرمایا: ’’ہو واللّٰہ احد المفتین‘‘ اﷲ کی قسم وہ فتویٰ دینے کے اہل لوگوں میں سے ایک ہیں۔ عمرو بن میمونؒ اپنے والد (میمون) سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’جب میں مدینہ آیا تو میں نے پوچھا کہ یہاں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو مجھے سعید بن المسیب کی طرف لے جایا گیا‘‘۔ امام زہریؒ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداﷲ بن ثعلبہ نے کہا کہ :’’اگر تو فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس شیخ یعنی سعید بن المسیب کے ساتھ لگ جاؤ‘‘۔ قتادہ کہتے ہیں : ’’میں نے (سعید بن المسیب) سے بڑا حلال وحرام کا علم رکھنے والا نہیں دیکھا‘‘۔ مکحول کہتے ہیں کہ : ’’میں نے طلب علم میں ایک دنیا گھومی ہے لیکن سعید بن المسیب سے زیادہ بڑے عالم سے میری ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ سلیمان بن موسیٰ کہتے ہیں کہ : ’’وہ تابعین میں سب سے بڑے فقیہ تھے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’تابعین میں سب سے بڑی شان والے سعید بن المسیب ہیں۔‘‘ نیز ایک بار آپ سے سعید بن المسیب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’سعید بن المسیب جیسا اور کون ہے؟ وہ ثقہ ہیں اور اہل خیر میں سے ہیں ‘‘۔
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ : ’’حضرت عمرؓ کے فیصلوں اور احکام کو سب سے زیادہ یاد رکھنے والے سعید بن المسیب تھے‘‘۔ امام ابوزرعہ نے کہا : ’’(سعید بن المسیب) مدنی ، قریشی ، ثقہ اور امام ہیں‘‘۔ امام ابوحاتم رازی نے کہا: ’’تابعین میں ان سے زیادہ شریف النفس اور کوئی نہیں، اور ابوہریرہؓ کی بیان کردہ احادیث بیان کرنے میں ان سے زیادہ مضبوط اور کوئی نہیں‘‘۔ امام ابن حِبان نے کہا کہ : ’’وہ فقہ، دین، تقویٰ،عبادت اور فضل میں تابعین کی سر برآوردہ شخصیات میں سے ہیں، اہل حجاز میں سب سے بڑے فقیہ تھے، لوگوں کے خوابوں کی سب سے اچھی تعبیر بتانے والے تھے۔‘‘
(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج4 ص84، دائرۃ المعارف۔حیدرآباددکن)
سعید بن المسیب کے بارے میں تمنا عمادی صاحب کا ایک مغالطہ:
اگرچہ تمنا عمادی صاحب نے یہ لکھ دیا کہ ’’سعید بن مسیب پر میرا کوئی الزام نہیں‘‘ لیکن ساتھ ہی اپنی’’ نرالی تحقیق‘‘ کی جھلک دکھلانے سے باز نہیں آئے ، چنانچہ لکھتے ہیں :
’’سعید بن المسیب بڑے لوگوں میں سمجھے جاتے ہیں، مگر سنیوں میں سنی اور شیعہ میں شیعہ بنے رہے، چنانچہ شیعہ کی سب سے زیادہ مستند کتاب حدیث اصول کافی ص ۲۰۰ طبع نولکشور میں ہے کہ یہ علی بن الحسین (زین العابدین) کے خاص معتمد لوگوں میں سے تھے۔ اسی لئے شیعوں کی کتب رجال میں ان کی توثیق مذکور ہے‘‘
(انتظارِ مہدی ومسیح، ص 180 – 181)
محترم قارئین! آپ نے جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن المسیبؒ کے بارے میں اہل سنت کے ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال پہلے ملاحظہ فرمائے، کسی نے بھی انہیں ’’شیعہ‘‘ نہیں بتایا، پھر عمادی صاحب کی تحقیق کا کمال دیکھیں کہ ان کے نزدیک جس شخصیت کا ان لوگوں کے ساتھ اچھا تعلق رہا ہو جنہیں شیعہ اپنے ائمہ کہتے ہیں ، یا جس آدمی کا ذکرشیعہ کی کتبِ رجال میں اچھے لفظوں کے ساتھ کیا گیا ہو وہ عمادی صاحب کے نزدیک شیعہ ہے ، اس تحقیق کی رو سے حضرت علیؓ، حضرات حسنینؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت مقدادؓ، حضرت ابوذرؓ وغیرہم تو ’’شیعہ‘‘ ہوئے کیونکہ ان سب کا ذکرِ خیر شیعہ کتب میں بکثرت ملتا ہے ۔ نیز کتب شیعہ میں جس شخصیت کے بارے میں یہ لکھا ہو کہ یہ حضرت علیؓ یا حسنین کریمینؓ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے، عمادی صاحب کے مطابق وہ بھی اہل سنت نہیں بلکہ شیعہ ہوگا ۔کیا لاجواب تحقیق ہے ۔
حدیث نمبر 2:
امام مسلمؒ نے بھی اپنی صحیح میں یہی صحیح بخاری والی روایت مختلف طرق سے نقل فرمائی ہے جن کی تفصیل اس طرح ہے :
پہلی سند: امام مسلمؒ کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا قتیبۃ بن سعید اور محمد بن رُمح دونوں نے، یہ دونوں لیث بن سعد سے روایت کرتے ہیں،وہ ابن شہاب (زہری) سے، وہ (سعید) بن المسیب سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓسے سنا ۔
دوسری سند: امام مسلمؒ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا عبدالاعلیٰ بن حماد، ابوبکر ابی شیبۃاور زہیر بن حرب نے (تینوں) کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا سفیان بن عیینہ نے ، اُن سے زہری (ابن شہاب) نے ، اُن سے سعید بن المسیب نے ، انہوں نے روایت کیا حضرت ابوہریرہ ؓ سے ۔
تیسری سند : امام مسلم ؒ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا حرملۃ بن یحییٰ نے ، وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی (عبداللّہ) ابن وہب نے ، وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا یونس (بن یزید) نے ، اُن سے زہری (ابن شہاب) نے ، اُن سے سعید بن المسیب نے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سُنا۔
چوتھی سند: امام مسلم کہتے ہیں ہم سے بیان کیا حسن الحلوانی اور عبدبن حُمید (دونوں ) نے ، اُن سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا میرے والد (ابراہیم بن سعد) نے ، انہوں نے روایت کیا صالح (بن کیسان) سے ، انہوں نے زہری (ابن شہاب) سے ، انہوں نے سعید بن المسیب سے ، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ۔ (صحیح مسلم، ح 242(155)، باب نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم)
پہلی سند کے راویوں کا تعارف :
قتیبۃ بن سعید: ان کا تعارف گزرچکا ۔
محمد بن رُمح بن المہاجر بن المحرر التُجُیبی المصری
امام ابوداؤد کہتے ہیں ’’یہ ثقہ ہیں‘‘ ۔ امام نسائی نے فرمایا ’’انہوں نے کسی ایک حدیث مین بھی غلطی نہیں کی‘‘ ۔ ابن ماکولا نے کہا: ’’یہ ثقہ اور مامون ومحفوظ ہیں‘‘ ۔ ابن یونس نے کہا: ’’یہ ثقہ اور حدیث میں پکے تھے‘‘ ۔ ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے ۔ (ملخصاً : تہذیب التہذیب، ج9 ص164، دائرۃ المعارف۔الہند)
لیث بن سعد: ان کا تعارف ہوچکا ۔
ابن شہاب زہری اور سعید بن المسیب: دونوں کا تعارف پہلے ہوچکا۔
دوسری سند کے راویوں کا تعارف:
عبدالأعلیٰ بن حمّادبن نصر الباہلي البصري المعروف بالنرسي
یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابوحاتم رازی نے بھی ’’ثقہ‘‘کہا۔ صالح بن محمد بن خراش نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ امام نسائی نے کہا کہ ’’ان کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘، ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں ذکر کیا ہے۔
(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج6 ص93)
ابوبکر بن ابی شیبۃ (عبداللّٰہ بن محمد بن ابی شیبۃ ابراہیم ) العبسي الکوفي
امام احمد بن حنبل نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ امام عِجلی نے انہیں ’’ثقہ اور حافظ حدیث‘‘ کہا۔ امام ابوحاتم اور امام ابن خراش نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ امام یحییٰ بن معین سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے ابوبکر ابن ابی شیبہ کو ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ امام ابوزرعہ نے کہا کہ ’’میں نے ابوبکر بن ابی شیبہ سے بڑا حدیثیں یاد رکھنے والا نہیں دیکھا‘‘۔ امام ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ابن قانع نے بھی انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ کہا ہے ۔
(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج6 ص2، دائرۃ المعارف۔انڈیا)
ایک تمنائی مغالطہ
اس روایت میں سفیان بن عیینہ سے روایت کرنے والے تین راویوں میں سے ایک ’’ابوبکر بن ابی شیبۃ‘‘ بھی ہیں، جن کا نام ’’عبداللّٰہ بن محمد بن ابی شیبۃ ابراہیم العبسي الکوفي‘‘ہے، لیکن ’’محدث العصر جناب تمنا عمادی‘‘ نے اپنے فنِ ’’تلبیس‘‘ کا مظاہر کرتے ہوئے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’ تیسرے صاحب ان دونوں (یعنی عبدالأعلیٰ اور زہیر بن حرب ۔ناقل) کے ساتھ ابوبکر بن شیبہ ہیں جن کا پورا نام عبدالرحمن بن عبدالملک بن شیبہ ہے……جن کو امام ابوداود صاحب السنن نے اور حافظ ابو احمد الحاکم نے ضعیف الحدیث قرار دیا ہے، انہیں تینوں سے امام مسلم کو یہ زہری والی حدیث ابن عیینہ کے واسطے سے پہنچی‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، ص 195)
قارئین محترم! صحیح مسلم کی سند پر ایک بار پھر غور فرمائیں، اس میں سفیان بن عیینہ سے روایت کرنے والے ’’ابوبکر بن أبی شیبۃ‘‘ ہیں نہ کہ ’’ابوبکر بن شیبۃ‘‘ ، لیکن عمادی صاحب نے انہیں ’’بن شیبہ‘‘ ظاہر کرکے ان کی شخصیت تبدیل کرڈالی اور ان کے ’’یارانِ طریقت‘‘ نے انہیں ’’محدث العصر‘‘ کا خطاب عنایت کردیا ۔
زُہیر بن حرب أبوخیثمۃ النسائی۔ نزیل بغداد
یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابو حاتم رازی نے انہیں ’’ثقہ ، ثبت اور صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ نسائی نے بھی انہیں ’’ثقہ اور مامون‘‘ کہا۔ حسین بن فہم نے انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ کہا۔ ابوبکر الخطیب کہتے ہیں کہ ’’وہ ثقہ، ثبت، حافظ اور متقن‘‘ تھے ۔ ابن قانع نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن وضاح اور ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج3 ص342)
سفیان بن عُیینہ بن ابی عمران میمون الہلالی
علی بن المدینی نے کہا کہ : ’’امام زہری کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ متقی سفیان بن عیینہ تھے‘‘ ۔ عِجلی نے کہا کہ ’’یہ ثقہ، حدیث میں پکے تھے ان کا شمار اصحاب حدیث کے حکماء میں ہوتا تھا‘‘ ۔ امام شافعی نے فرمایا: ’’اگر (امام) مالک اور سفیان (بن عیینہ) نہ ہوتے تو حجاز کا علم ختم ہوجاتا‘‘۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ ایک بار یحییٰ بن معین نے مجھ سے کہا کہ : ’’میرے استادوں میں سے صرف سفیان بن عیینہ ہی باقی رہ گئے ہیں‘‘ ابن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سفیان تو حدیث کے امام ہیں، تو یحیی بن معین نے کہا: ’’سفیان تو چالیس سال سے امام ہیں‘‘۔ بشر بن المفضل نے کہا ’’روئے زمین پر سفیان بن عیینہ جیسا کوئی نہیں رہا‘‘۔ ابن وہب نے کہا ’’میں نے ابن عیینہ سے بڑا کتاب اﷲ کا عالم نہیں دیکھا‘‘۔ ابو حاتم رازی نے کہا کہ ’’یہ ثقہ، ثبت اور امام ہیں‘‘۔ ابن خراش نے بھی انہیں ’’ثقہ، ثبت اور مامون‘‘ کہا۔ ابن حِبا ن نے بھی انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے ۔ امام ذہبی نے سفیان بن عیینہ کا تعارف یوں کرایا ہے :
’’أحد الثقات الأعلام ، أجمعت الأمۃ علی الاحتجا ج بہ ‘‘ یہ بڑے ثقہ لوگوں میں سے ہیں، ساری امت کا اس پر اجماع ہے کہ (ان کی حدیث) حجت ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’یہ عمر کے لحاظ سے امام زہری کے سب سے چھوٹے شاگرد تھے مگر اس کے باوجود امام زہری کے سب سے پکے اور ہونہار شاگرد ہیں‘‘ ۔
(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج4 ص117/میزان الاعتدال، ج2 ص170 )
فائدہ: سفیان بن عیینہ کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ یہ تدلیس کرتے تھے، لیکن امام ذہبی نے صاف لکھا ہے کہ ’’لکن المعہود أنہ لا یدلس الا عن ثقۃ‘‘ کہ وہ صرف ثقہ لوگوں سے ہی تدلیس کرتے تھے (کسی ضعیف راوی کو چھپانے کے لئے تدلیس نہیں کرتے تھے) ، اور ایسی ہی بات حافظ ابن حجر نے بھی لکھی ہے ۔
(دیکھیں: میزان الاعتدال، ج2 ص170 /طبقات المدلسین لابن حجر، ص2)
جاری ہے
ء ء ء