ڈاکٹرعمرفاروق احرار
پاکستان ان دنوں جغرافیائی حملوں کے ساتھ ساتھ شدیدنظریاتی حملوں کی لپیٹ میں آیاہواہے۔پہلے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے‘‘ ادارہ امن وتعلیم’’ کی خوفناک سفارشات سامنے آئیں ۔پھر پنجاب حکومت کی چناب نگر میں قادیانیوں کے تعلیمی اداروں کی واپسی کی کوششیں ،جوابھی میڈیامیں زیربحث ہی تھیں کہ سندھ اسمبلی کا قبولِ اسلام کے متعلق شرمناک بل منظرعام پر آگیا۔اب تازہ ترین خبر کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے نیشنل سنٹر فارفزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے اوراُن کے نام کی سکالرشپ دینے کا اعلان کرڈالاہے۔خبر کے مطابق:‘‘وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں قائم قائداعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کا نام ‘‘ڈاکٹر عبدالسلام سینٹر آف فزکس’’رکھنے کی اصولی منظوری دے دی ہے ۔وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے پریس ریلیز کے مطابق وزیراعظم نے وفاقی وزارتِ تعلیم کو حکم دیا ہے کہ وہ اِس سلسلے میں باقاعدہ سمری تیار کرے اور صدرِ مملکت کی منظوری کے لیے پیش کرے ۔علاوہ ازیں وزیر اعظم نے پاکستانی طلباء کے لیے سالانہ پانچ وظیفوں (سکالرشپ) کا اعلان بھی کیا ہے جو طبیعات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے جا سکیں گے ۔ اِس پروگرام کو بھی ‘‘پروفیسر عبدالسلام فیلوشپس’’ کا نام دیا جائے گا۔وزیر اعظم نے یہ قدم پاکستان کے نامور ماہر طبیعات ڈاکٹر عبدالسلام کی اپنے شعبے میں عظیم خدمات کے اعتراف کے طور پر اُٹھایا ہے ۔’’وزیراعظم نوازشریف کے اس اقدام سے بہت پہلے قادیانیوں کو محب وطن اوراپنا بھائی کہنے کا بیان اخبارات میں آیاتھا،جس پر وہ اب بھی قائم ہیں ۔اس بیان پر تمام دینی حلقوں نے شدیداحتجاج کیاتھا۔اب اُن کے اس تازہ اقدام نے دینی حلقوں میں تشویش کی شدیدلہردوڑادی ہے۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے نادان مشیربھی انہیں ایسے قدامات اٹھانے سے پیشترحالات کی سنگینی اورنتائج کی ہولناکی سے آگاہ نہیں کرتے۔حالانکہ پیپلزپارٹی جیسی لبرل جماعت نے بھی اپنے ادوارمیں اکثر ایسے اقدامات اٹھانے سے اجتناب ہی برتاہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی شخصیت وکردار کے بارے میں بے شمارمضامین اورمتعددکتب چھپ چکی ہیں ۔ان کا نوبل انعام یافتہ ہونا اوران کی قادیانیت سے وابستگی ڈھپی چھپی نہیں ہے۔نوبل پرائزبظاہرمنفردخدمات پر دیاجاتاہے،لیکن اس کے درپردہ کئی قوتوں کے معاشی ،سیاسی اورنظریاتی مقاصدہوتے ہیں ۔بقول مستنصرحسین تارڑکے کہ:‘‘اب یہ پرائز نوبل نہیں ، اِگنوبل ہو گیا ہے ۔ یہ اب صرف مغرب اور مغربی اقدار پر یقین رکھنے والوں کے لیے ہے ۔ یہ آج تک کسی ایسے شخض کو نہیں ملا ،جس نے مغربی بالادستی قبول نہ کی ہو۔’’ماضی پر نظر دوڑائیں تو برطانوی عہدمیں علامہ اقبال کی خدمات کو نظراندازکرکے رابندرناتھ ٹیگورکو نوبل انعام دیاگیا۔اس انعام کے دینے والوں کے معیاربھی اپنے ہیں ۔کچھ ہی عرصہ قبل سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کو اُن کی ‘‘امن ’’ کے لیے خدمات پر اِ سی انعام سے نوازاگیاتھا۔حالانکہ امریکہ کی امن کے لیے ‘‘خدمات’’ سے سبھی آگاہ ہیں ۔ نوبل انعام کا بانی الفریڈنوبل یہودی تھا۔اب بھی یہودی مفادات کو فائدہ دے سکنے والے ہی اس انعام کے حق دارسمجھے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جب ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز دینے کی وجہ دریافت کی گئی تھی توانہوں نے جواب دیاتھاکہ ‘‘وہ(نوبل پرائز)بھی نظریات پر دیاگیا۔ڈاکٹر عبدالسلام 1957سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں انعام ملے۔آخر کارآئن سٹائن کے صدسالہ یوم وفات پراُن کو مطلوبہ انعام دے دیاگیا۔دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن موجودہے جو ایک عرصہ(1928)سے وہاں کام کررہاہے۔یہودی چاہتے تھے کہ آئن سٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیاجائے،سو ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی انعام سے نوازاگیا۔’’(انٹرویو: ہفت روزہ ‘‘چٹان’’،لاہور۔6فروری1986)یہاں سے ہی قادیانیت ،یہودیت گٹھ جوڑ واضح طورپر سمجھ میں آتاہے کہ آج بھی اسرائیلی شہرحیفہ میں کرمل پہاڑ پر قادیانیوں کا مشن موجودہے جو آزادی سے کام کررہاہے۔اسرائیل میں مسلمان طرح طرح کی مشکلات کا شکارہیں اورقادیانیوں کی نقل وحمل پر کوئی پابندی نہیں ہے،بلکہ ایک قادیانی ایمن عادل عودہ اسرائیل کی اسمبلی کا رُکن بھی ہے۔قادیانی ،یہودیوں کے مفادات کی پاسداری کرتے ہیں ۔ اسی لیے یہودی بھی قادیانیوں کو اُن کی خدمات کا پورا،پوراصلہ دیتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام ملنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ستّرسال پہلے علامہ اقبال نے کیاخوب تجزیہ کیاتھا کہ‘‘قادیانیت ،یہودیت کا چربہ ہے!’’
ڈاکٹر عبدالسلام کی قادیانیت سے وابستگی انتہادرجہ کی تھی۔انہوں نے نوبل پرائز ملنے سے ایک دن پہلے لندن میں ایک قادیانی عبادت گاہ میں خطا ب کے دوران مرزاقادیانی کی ایک پیش گوئی دہرائی تھی کہ:‘‘میرے فرقہ کے لوگ اس قدرعلم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نوراوراپنے دلائل اورنشان کے رُوسے سب کامنہ بندکردیں گے۔’’ (قادیانی ہفت روزہ‘‘الفضل’’،13؍نومبر1979۔صفحہ:7) یہودی اورقادیانی لابیوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبل انعام سے فائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش کی اورانہیں نوبل انعام یافتہ پہلا‘‘مسلمان’’سائنسدان اور مسلمانوں کا ہیرو بناکر میڈیامیں خوب پروپیگنڈاکیا ۔خودڈاکٹر عبدالسلام نے مرزاقادیانی کی مذکورہ بالاپیش گوئی کا حوالہ دیتے ہوئے نوبل انعام ملنے کو ‘‘امامِ وقت ’’ اورقادیانی جماعت کی دعاؤں اورعالم اسلام کی خوشی کاباعث قراردیا۔(‘‘الفضل’’،ربوہ۔31؍دسمبر1979)اسی کے ساتھ ہی انہوں نے اسلامی ممالک کی قادیانیت سے بے خبری کا فائدہ اٹھا کر اسلامی ملکوں کے دورے کیے اورخودکو ایک مسلمان سائنسدان کے طورپر متعارف کرانے کی مکمل سعی کی۔
جن دوستوں کو علامہ اقبال کی یہ بات ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہورہی کہ ‘‘قادیانی ،اسلام اورملک دونوں کے غدارہیں ۔’’وہ ڈاکٹر عبدالسلام کے سب سے بڑے مداح اوربائیں بازوکے نمائندہ دانشور ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے ایک انٹرویو کا یہ اقتباس ملاحظہ کرکے اعترافِ حقیقت کریں کہ:‘‘فزکس کے علاوہ ان کی پہلی وفاداری تحریک احمدیہ کے ساتھ تھی۔اوراُن کی ثانوی وفاداری پاکستان کے ساتھ تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی یہ تینوں وفاداریاں اچھی نہیں رہیں ، وہ شراب بھی پیتے تھے اور عورتوں کے بھی شیدائی تھے ۔ شروع شروع میں ڈاکٹر عبدالسلام بالکل لبرل آدمی تھے، لیکن پھر وہ تحریک احمدیت کے ایک انتہائی دقیانوسی قسم کے سپاہی بن گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام بہت زیادہ پیچیدہ انسان تھے ۔ وہ غیرجانبدار نہیں تھے، کیونکہ وہ احمدیوں کی حمایت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ احمدی طاقت میں آجائیں ۔’’(http://ibcurdu.com/news/27492)
ڈاکٹرعبدالسلام پاکستان کا ایک ایٹمی قوت بننا پسندنہ کرتے تھے۔ذوالفقارعلی بھٹوپاکستان کو اَیٹمی طاقت بنانے کے خواہش مندتھے ،جس کے لیے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر سے پاکستان واپسی کے لیے روابط قائم کررکھے تھے۔ان معاملات کی خبرڈاکٹرعبدالسلام کو تھی ۔اس لیے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے لیے نرم گوشہ نہ رکھتے تھے۔اسی وجہ سے ان کی بھارتی سائنسدانوں کے ساتھ تادمِ آخرگہری دوستی کا علاقہ رہا۔ 1974میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیاتو ڈاکٹرعبدالسلام نے اس فیصلہ کے خلاف انتقاماً پاکستان چھوڑدیااوروہ سوائے ایک بارکے، پلٹ کر پاکستان نہ آئے۔اب حکومت نے قائداعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کو ڈاکٹرعبدالسلام کے نام سے منسوب کرکے نہ صرف پاکستان، بلکہ عالم اسلام میں بھی شدیدتشویش واضطراب کی لہردوڑادی ہے۔ حکومتی پریس ریلیزکے اِن الفاظ سے بھی ڈاکٹر عبدالسلام کے مسلمان سائنس دان ہونے کا تاثرملتاہے کہ: ڈاکٹرعبدالسلام پہلے پاکستانی اور اسلامی دنیا میں دوسرے شخص تھے،جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔’’یہی پریشان کن بات ہے۔وہ گروہ جسے پاکستانی دستورکے تحت غیرمسلم تصورکیاجاتاہے،جان بوجھ کر اُس کی متعینہ آئینی حیثیت کو مشکوک بناکر ،بیرونی قوتوں کے سامنے سافٹ امیج پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو بطورِ مسلمان سائنس دان متعارف کرانے کی مہم ایک عرصہ سے جاری ہے ۔کچھ ہی عرصہ پہلے اسلام آباد کے سکولوں کے نصاب میں بھی یہی حرکت کی گئی تھی۔اب ربیع الاوّل کے مبارک مہینے میں حکومت کایہ نامبارک فیصلہ ایک انتہائی شرمناک اقدام ہے ۔جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔درحقیقت یہ سب قادیانی مسئلے کو رِی اوپن کرنے کی شروعات ہیں ۔تاکہ بیرونی قوتوں کے دباؤ کو کم کرکے ،مزید اگلے پانچ سالہ اقتدارکی راہ ہموارکی جاسکے۔