مولانا زاہدالراشدی
جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل یثرب کے علاقہ میں ریاست کا ماحول بن چکا تھا اور اس خطہ میں قبائلی معاشرہ کو ایک باقاعدہ ریاست و حکومت کی شکل دینے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انصار مدینہ کے قبیلہ بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اس بحیرہ (سمندر کے کنارے ساحلی پٹی) کے لوگوں نے باقاعدہ حکومت کے قیام کا فیصلہ کر کے عبد اﷲ بن أبی کو اس کا سربراہ منتخب کر لیا تھا اور صرف تاج پوشی کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ یعنی جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے آئے جس سے عبد اﷲ بن أبی کی بادشاہی کا خواب بکھر گیا۔ البتہ وہ ریاست تشکیل پا گئی اور اس کے لیے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس خطہ کے قبائل کے درمیان ‘‘میثاق مدینہ’’ کے عنوان سے معاہدہ کرا دیا جس میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ ‘‘ریاست مدینہ’’ کا نقطۂ آغاز تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے اس ریاست کو نظریاتی اساس فراہم ہوئی جس کی وجہ سے اسے علاقائی محدودیت سے نکال کر دنیا کی وسعت کے ایسے امکانات میسر آگئے کہ یہ ریاست جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال تک صرف دس سال کے عرصہ میں پورے جزیرۃ العرب کا احاطہ کر چکی تھی اور اس کے بعد ربع صدی کے اندر ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بہت سے علاقوں کو اس نے اپنے دائرہ میں شامل کر لیا تھا۔
ریاست کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ کسی متعینہ علاقہ کے رہنے والے لوگ ایک باقاعدہ حکومتی نظم کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو وہ علاقہ ریاست کہلاتا ہے ۔ چنانچہ ریاست مدینہ کو یہ حیثیت انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں حاصل ہوگئی تھی کہ ایک مستحکم نظام حکومت قائم تھا جس میں (۱) مشاورت (۲) داخلی نظم و نسق (۳) دفاع (۴) معیشت (۵) عدلیہ اور (۶) خارجہ تعلقات و معاہدات کے اہم شعبے منظم طریقہ سے کام کر رہے تھے ۔ جبکہ اس ریاست کی حدود بھی متعین اور واضح تھیں جیسا کہ غزوۂ تبوک سے ظاہر ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ سلطنت روم کی افواج مدینہ منورہ پر چڑھائی کے لیے شام میں تیاریاں کر رہی ہیں، شام اس وقت رومی سلطنت کا صوبہ تھا او ربتایا جاتا ہے کہ خود قیصر روم اس حملہ کی تیاریوں کے لیے شام میں موجود تھا، جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان اطلاعات پر یہ فیصلہ کیا کہ رومی فوجوں کو مدینہ منورہ پر حملے کا موقع دینے کی بجائے خود پیش قدمی کر کے شام کے علاقہ کو میدان جنگ بنایا جائے ۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھاری لشکر تیار کر کے شام کی طرف سفر شروع کر دیا لیکن تبوک جا کر رک گئے جو کہ شام کی سرحد پر واقع ہے اور آج بھی سعودی عرب کا سرحدی شہر ہے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں سے آگے نہیں بڑھے اور ایک ماہ تک وہیں قیام کر کے رومی فوجوں کے حملہ کا انتظار کرتے رہے ۔ قیصر روم کو جب پتہ چلا کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم لشکر کی قیادت کرتے ہوئے تبوک تک آگئے ہیں تو اسے حملہ کی ہمت نہیں ہوئی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تبوک کے علاقہ میں ایک ماہ قیام کرنے کے بعد لشکر سمیت مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے ۔ تبوک مدینہ منورہ سے اس وقت ایک ماہ کی مسافت پر تھا اور اسی واقعہ کے حوالہ سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نصرت بالرعب میسرۃ شہر ایک ماہ کی مسافت سے دشمن پر رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ۔ غزوۂ تبوک سے دوسرے مقاصد کے ساتھ ساتھ ایک مقصد یہ بھی حاصل ہوا کہ اسلامی ریاست اور رومی سلطنت کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا تعین ہوگیا اور یہ تعین خود جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل سے ہوا۔ اسی طرح جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وصال سے قبل جو چند ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ اخرجوا الیھود والنصاریٰ من جزیرۃ العرب کہ یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جزیرۃ العرب اسلامی ریاست کے دائرہ میں شامل ہو چکا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے دو انتہائی کنارے یمن اور بحرین بھی اس ریاست کا حصہ بن گئے تھے جہاں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات جاری ہوتے تھے ۔
اسلامی ریاست اور دوسرے ممالک کے درمیان سرحدات کا تعین نہ صرف یہ کہ واضح تھا بلکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سرحدات کے احترام کا بھی حکم دیا تھا۔ جیسا کہ ترمذی شریف کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت معاویہؓ کے دور خلافت میں ان کا رومی حکومت کے ساتھ کچھ عرصہ تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ تھا، اس معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل حضرت معاویہؓ نے دمشق سے اسلامی فوجوں کو روم کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا اور خود کمان کرتے ہوئے روم کی سمت روانہ ہوگئے ۔ سفر کے کچھ مراحل طے کر چکے تھے کہ ایک بزرگ صحابی رسول حضرت عمرو بن عبسۃؓ تیز رفتاری کے ساتھ ان کا تعاقب کر کے لشکر تک پہنچے اور حضرت معاویہؓ کو یاد دلایا کہ ان کا ایک متعین مدت تک رومیوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ موجود ہے تو وہ لشکر ساتھ لے کر روم کی طرف پیش قدمی کیوں کر رہے ہیں؟ حضرت معاویہؓ نے ان سے کہا کہ مجھے بھی وہ معاہدہ یاد ہے اور مدت بھی معلوم ہے جس کی خلاف روزی کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ البتہ میں نے یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے قبل روم کی سرحد پر لشکر پہنچا دوں تاکہ مدت ختم ہوتے ہی حملہ کر سکوں۔ اس پر حضرت عمرو بن عبسۃؓ نے بتایا کہ میں نے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ تمہارا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو تو معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے قبل اپنی فوجوں کو مرکز سے حرکت نہ دو۔ حضرت معاویہؓ نے اس پر حضرت عمرو بن عبسۃؓ سے صرف یہ سوال کیا کہ کیا یہ بات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ نے خود سنی ہے ؟ انہوں نے اس کا جواب ہاں میں دیا تو حضرت معاویہؓ نے کسی حیل و حجت کے بغیر لشکر کو واپسی کا حکم دے دیا اور خود اس کی قیادت کرتے ہوئے دمشق لوٹ گئے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں اور حضرات صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اسلامی ریاست کا نقشہ بالکل واضح تھا، اس کی سرحدات متعین تھیں اور بین الاقوامی سرحدات کے بارے میں واضح قوانین و ضوابط بھی موجود تھے ، اس لیے یہ کہنا کہ اسلام کے دور اول میں ریاست، حکومت، یا سرحدات کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا، تاریخ سے بے خبری یا تاریخی حقائق کو شکوک و شبہات کے دھندلکوں میں غائب کر دینے کی ناکام کوشش ہی کہلا سکتا ہے ۔