اوریا مقبول جان
ایک عمر تاریخ کی راہداریوں میں گھومتے اور اس کی بھول بھلیوں میں سفر کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گزشتہ دو ڈھائی ہزار سال سے مرتبہ تاریخ کے صفحات میں سچ ڈھونڈ نا انتہائی مشکل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ جو بھی اس راستے کا راہی بنا اس نے سب سے پہلے اپنے اندر موجود تعصبات کے بتوں کو پاش پاش کیا اپنے نظریات اور عقائد کو پس پشت ڈالا اپنے آباؤ اجداد اور اسلاف کے بارے میں احترام کے رشتے کو ختم کیا اور پھر وہ اگر تاریخ میں سچھ ڈھونڈنے نکلا تو اسے سچ ضرور ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سچ اس قدر کم ہے کہ انسان کی مرتب کردہ تاریخ کے خزانوں میں اتنا ہی بچتا ہے جتنا چیل کے گھونسلے میں ماس۔ لیکن یہی سچ مقدس ہے محترم ہے او رلائق اعتبار ہے۔
اسلامی تاریخ کا حال دنیا بھر کی تواریخ سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ اس لیے عرب تاریخ کے فن سے بالکل نا آشنا تھے بلکہ ان کے ہاں شاعری نے اس قدر اہمیت اور مقام حاصل کر لیا تھا کہ باقی علوم کی جانب ان کی توجہ ہی نہ گنی۔ سبعہ معلقات وہ سات قصیدے تھے جو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے یہ ان سات بڑے شاعروں کے ھے جنھیں عرب صاحب معلقہ کہتے اور معاشرے میں سب سے اہم مقام عطا کرتے۔ ایک اور فن جس میں یہ طاق تھے وہ انساب تھا یعنی نام و نسب نسلی پہچان اور تفاخر۔ صدیوں پرانے اپنے آباؤ اجداد کے ناموں کی بنیاد پر وہ اپنے شجرے مرتب کرتے انھیں یاد رکھتے اور فخر کے طور پر اپنے اشعار میں ان کا تذکرہ کرتے۔ چونکہ عرب کا معاشرہ درباروں، شاہی کروفر اور محلات سے کوسوں دور تھا اس لیے ان کے ہاں کسی نے بھی نیت باندھ کر تاریخ مرتب نہیں کی۔ تاریخ تو بادشاہوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے وجود اور اپنی سلطنت کے امور کو آنے والی نسلوں تک منتقل کریں اور شاہی مورخ ایک خاص شاہانہ تعصب کے ساتھ تاریخ لکھتا، بادشاہ کے گن گاتا اس کے دشمنوں کے نقائص بیان کرتا تھا بلکہ اپنی قوم نسل علاقے اور زبان کے حوالے سے ہر تعصب کوذہن میں رکھ کر تاریخ مرتب کرتا تھا۔ اسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی خلفاء حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اﷲ عنہم میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جسے اس بات کا ذرا سا بھی شوق ہو کہ ان کے ادوار کی تاریخ مرتب ہو یا ان کے کارنامے کتابوں کی زینت بنیں۔ وہ تو خلافت کو ایک بار امانت تصور کرتے ہوئے ہر وقت اﷲ کے سامنے جو ابد ہی کے خوف سے لرزتے رہتے تھے۔ دنیا کی دو عالمی طاقتوں کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر حکمرانی کرنے والے ان خلفاء کا نہ کوئی دربار تھا اور نہ ہی محل، بلکہ اتنی بڑی سلطنت کا کوئی سیکرٹریٹ تک نہیں تھا جبکہ روم اور ایران دونوں کے وسیع سیکرٹریٹ تھے۔ رومی علاقے شام و مصر اور ایرانی علاقے عراق، آذر بائیجان، ایران وغیرہ میں کتنے ایسے مورخین اور قلم کار تھے جو بادشاہوں کی تاریخ مرتب کرتے ، قصیدے کہتے اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے۔ یہ سب کے سب چشم زدن میں بیروز گار ہوگئے۔ دونوں خطوں کے لوگ عربوں کو اپنے سے کمتر، پسماندہ اور تہذیب سے عاری تصور کرتے تھے بلکہ ایرانیوں کا یہ فخر تو مدتوں قائم رہا اور شاہنامہ فردوسی میں یہ اس قدر کھل کر سامنے آیا کہ اس کے اشعار میں جابجا مسلمان فاتحین کو عرب کہہ کر نفرت بھرے اشعار لکھے گئے۔
شیر شتر خوردن سو سمار عرب را بجائے رسید است و کار
کہ تخت کیہاں راکنند آرزو تفوبر توای چرخ گرداں تفو
ترجمہ: ’’اونٹنیوں کا دودھ پینے اور گوہ کا گوشت کھانے والے عربوں کو یہ کیا ہوگیا ہے کہ یہ کہیان یعنی ایران کے تخت کی آرزو کرنے لگے ہیں۔ اے ٹیڑھی چال والے آسمان تم پر نفرین ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علاقے جہاں سیدالانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ، اسلام لے کر پہنچے وہاں کی مادری زبان تک عربی ہو گئی۔ عراق، شام، اردن، مصر، تیونس، الجزائر وغیرہ میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی لیکن آج وہ عرب دنیا کا حصہ ہیں۔ ایرانیوں نے اپنی تہذیب کا تشخص برقرار رکھنے کے لیے پوری جدوجہد اور سر توڑ کوشش کی۔ اسی ایرانی تہذیب کے خوشہ چین اور اس کی مدح سرائی میں گم کتنے مورخ، شاعر، ادیب ایسے تھے جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے یوں مسلمان جو فن تاریخ سے نا آشنا تھے اور اپنے عقائد کی بنیاد قرآن اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر رکھتے تھے ان کے ہاں کتب تاریخ کا رواج نہ پڑسکا۔ سنت کا تو ان کے ہاں ایک تسلسل تھا کیونکہ ہر کوئی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کو اولاد تک منتقل کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے انھوں نے آپ کے ارشادات پر مبنی احادیث کا ایک ذخیرہ بھی مرتب کر لیا تھا۔ یہ ذخیرہ خود رسول برحق کی زندگی میں ہی مرتب ہونا شروع ہوگیا تھا جس کی مثلا صحیفہ ہمام ابن منبہ ہے۔ احادیث کے بارے میں انھوں نے کمال احتیاط برتی اور ایک ایک راوی کے کردار، اخلاق اور ایمان و عقیدہ کو بھی زیر بحث لائے۔ لیکن تاریخ کامعاملہ اس کے بالکل برعکس رہا۔ شاہی درباروں کے عادی اور نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے مورخین نے اسلام کی تاریخ مرتب کرنا شروع کی۔ حدیث تو سیدالانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداﷲ بن عمر بن العاص رضی اﷲ عنہم جیسے صحابہ نے مرتب کرنا شروع کردی تھی اور ان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔لیکن تاریخ کی پہلی کتاب سیرت النبی پر ابن اسحاق کی سیرت ہے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے سو سال بعد لکھی گئی۔ اس وقت امام مالک بن انس مدینہ منورہ میں موجود تھے اور لوگ انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کے حوالے سے حجت مانتے تھے۔ انھوں نے جب ابن اسحا ق کی کتاب دیکھی تو حیرت سے بولے کہ اس نے تو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں بے بنیاد قصے اور نظمیں گھڑی ہیں۔ جس پر محمد بن اسحاق کو مدینہ بدر کر دیا گیا وہ مصر اور پھر عراق چلا گیا۔ یہ کتاب نا پید ہوگئی لیکن اس کی ایک سو سال بعد تلخیص ابن ہشام نے اپنی کتاب سیرت ابن ہشام میں پیش کی۔ لیکن اس کتاب کو طبری نے اپنی تاریخ میں خصوصی جگہ دی ۔ وہ کتاب جسے امام مالک نے بے بنیاد قصوں اور نظموں کی ملاوٹ سے آلودہ کتاب قرار دیا تھا کئی صدیاں گزرنے کے بعد طبری کے ہاں معبر تاریخی مواد بن گئی اور آج ہر کوئی اس کی بنیاد پر اسلام کی تاریخ پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔
آج سے ایک سال قبل ۷؍جولائی ۲۰۱۵ء کو میں نے طبری کے بارے میں ایک کالم ’’ہمارے افسانہ ساز مورخین‘‘ کے نام سے تحریر کیا تھا۔ جس میں اس کی تاریخ کے مواد پر اعتراضات کیے تھے۔ اس کے بعد اخبارات میں ایک طویل بحث چل نکلی۔ میرے سیکولر دوست طبری کے دفاع میں آئے لیکن پھر خاموش ہوگئے جب کہ منبر و محراب سے محمد اسماعیل ریحان صاحب نے کالموں کا ایک سلسلہ ’’علامہ طبری۔ مورخ، مجتہد یا افسانہ ساز‘‘ تحریر کیا۔ جس کے جواب میں ۴؍ستمبر ۲۰۱۵ء کو میں نے ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیا اور طبری کے ان راویوں پر طویل بحث کی جنھیں ائمہ جرح و تعدیل جھوٹے اور کذاب کے طور پر گردانتے ہیں۔ کالموں کا دامن بہت مختصر ہوتا ہے۔ اس میں علمی بحث دلائل کے ساتھ نہیں سمیٹی جاسکتی۔ اس کے لیے موثر تحقیق چاہیے۔ میری حیرت کی انتہا نہ ری جب میرے ان دو کالموں اور محمد اسماعیل ریحان صاحب کے نو عدد کالموں کو بنیاد بنا کر پروفیسر قاضی طاہر علی الہاشمی نے ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل ایک جامع تحقیق مرتب کر کے چھاپ دی۔ کتاب کا عنوان ہے ’’امام طبری کون؟ مورخ، مجتہد یا افسانہ ساز‘‘۔ یہ کتاب بہت ہی عرق ریزی اور محنت سے تحریر کی گئی ہے اور تاریخ کے متعصب اور من گھڑت مواد میں سے سچ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر قاضی محمد طاہر الہاشمی حویلیاں، ہزارہ کی جامع مسجد میں خطیب بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب پبلشنگ کے مراکز لاہور، اسلام آباد اور کراچی سے بہت دور ہیں۔ اس دوری نے ان میں ایک اور طرح کی جرات رندانہ بخشی ہے۔ انھوں نے ہمت کر کے یہ کتاب خود چھاپی ہے اور کمال خوبصورت چھاپی ہے اور قاضی چن پیر الہاشمی اکیڈمی، مرکزی جامع مسجد حویلیاں، ہزارہ کے زیر اہتمام طباعت کی گئی ہے۔ کتاب اس قدروسیع اور تحقیق اس قدر خوبصورت ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان علماء ، فقہا اور فضلاء یاد آجاتے ہیں۔ تاریخ کے کوڑے دان سے سچ کو تلاش کرنے کا یہ کام بہت عظیم ہے۔ مدتوں بعد منبر و محراب اور مدرسے کی چٹائیوں سے ایک اہم کام ہوا ہے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ ملتان، ۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)