سیدمحمد کفیل بخاری
پاکستان میں ہر دور کے حکمران کرپشن میں ملوث رہے لیکن ۶۹ برسوں میں اس کا احتساب ہوا نہ سدباب۔ جہاں محکمہ اینٹی کرپشن خود کرپشن میں ملوث ہو اور رشوت لے کرمجرموں کو تحفظ دیتا ہو وہاں انصاف اور احتساب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ہماری سیاست میں ’’انویسمنٹ‘‘ کے ذریعے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا جو کلچر متعارف کرایا گیا اس نے سیاست میں کردار و اخلاق کی تمام قدروں کو پامال کردیا ہے۔ اب پارٹیاں بدلنا اور وفاداریاں تبدیل کرنا جمہوریت کا حسن اور سیاست کا فن سمجھتا جاتا ہے۔ کرپٹ سیاست دان باہمی مفاہمت کے ذریعے باریاں بدل بدل کر اس کرپٹ نظام کو فروغ، ایک دوسرے کو سپورٹ اور عوام کا استحصال کررہے ہیں۔
پارلیمنٹ (مقننہ) عدلیہ اور انتظامیہ (فوجی وسول) ریاست کے ستون ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ قانون سازی، بہتر فیصلوں اور کئی اچھے اقدامات کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے اور مظلوم کو انصاف دینے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ مجبوراً عدلیہ کو مداخلت کرنی پڑی، ماضی میں دو وزرائے اعظم کو عدالت عظمیٰ نے نا اہل قرار دیا لیکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کے بعد بیرون ملک فرار ہوگیا۔ فوج نے ملک کی سرحدوں کے دفاع اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’نیشنل ایکشن پلان‘‘ تشکیل دیا اور کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پالیا ۔ لیکن پولیس کے نظام میں اصلاح کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ جعلی مقابلوں کے ذریعے مجرموں اور بے گناہوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے ’’پار کرنے‘‘ کی روایت اب تک باقی ہے۔ رشوت خوری اور بدعنوانی اس پر مستزاد ہیں۔ یہ صورتِ حال پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کے لیے سوال بھی ہے اور چیلنج بھی۔ رد عمل فطری ہے جسے رو کا بھی نہیں جاسکتا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمیں عمران خان نے ان مسائل پر آواز بلند کی لیکن انداز بالکل غلط تھا۔ گزشتہ دھرنے میں انھوں نے جس بے حیائی، فحاشی، بد اخلاقی اور سیاسی فاشزم کو فروغ دیا وہ کسی قومی رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ موسیقی کی دھنوں اور ناچ گانے سے کرپشن ختم ہوتی ہے نہ انصاف ملتا ہے اور نہ ہی تبدیلی آتی ہے۔ انھیں یہ آواز پارلیمنٹ میں اٹھانی چاہیے تھی لیکن وہ ڈی چوک میں میوزک کنسرن‘‘ کرنے لگے۔ تب ان کے فسٹ کزن طاہر القادری دھرنا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔ لیکن اس مرتبہ بیرون ملک سے ہی انا ﷲ پڑھ کر ایصال ثواب کیا۔ عمران خان نے ۲؍نومبر کو پھر اسلام آباد بند کرنے اور فیصلہ کن دھرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے اسے روکنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم خٹک اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے پولیس تصادم سے حالات مزید خراب ہوگئے۔ تاہم وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان، چیف جسٹس مسٹر انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم خصوصی بینچ کے پانامہ لیکس انکوائری کمیشن پر متفق ہوگئے۔ دھرنا ختم ہوا، یہ ڈرامے کا ڈراپ سین ہے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید تو قومی سلامتی کے حوالے سے متنازعہ خبر کی اشاعت اور غفلت کے مرگھٹ پرپہلے قربان کردیے گئے ہیں۔ قوم کی نگاہیں اب عدالتی فیصلے کی منتظر ہیں۔ جناب عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ حکمرانوں کا احتساب ضرور کریں لیکن خدارا سیاست میں بے حیائی، فحاشی و عریانی اور بد تہذیبی کو فروغ نہ دیں۔یہ مسلمانوں کے اعمال نہیں یہود و نصاریٰ کا ایجنڈہ ہے۔