تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

حافظ عبیداﷲ

(قسط:۶)

حدیث نمبر1
’’(امام بخاریؒ فرماتے ہیں) ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث (بن سعد) نے بیان کیا ، اُن سے ابن شہاب (زہری) نے ، اُن سے (سعید) ابن المسیب نے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے سنا کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ، خنزیر کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کردیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا۔‘‘
(صحیح البخاری، حدیث نمبر : 2222)
راویوں کا تعارف:
قتیبۃ بن سعید بن جمیل الثقفي :
امام ابوبکر الاثرمؒ نے امام احمد بن حنبلؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نیقتیبۃ کا ذکر کیا تو ان کی تعریف فرمائی۔ امام یحییٰ بن معینؒ نے فرمایا کہ قتیبۃ ثقہ ہیں ۔ امام نسائی نے بھی انہیں ثقہ اور صدوق (سچا) فرمایا ۔ امام ابوحاتم رازیؒ کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہیں ۔ عبداﷲ بن محمد بن سیار الفرہیانی نے فرمایا کہقتیبۃ سچے ہیں، عراق میں(ان کے زمانے میں) کوئی ایسا بڑا عالم اور محدث نہیں جس نے اُن سے علم نہ حاصل کیا ہو۔مکہ میں اُن سے احمد بن حنبلؒ، ابو خیثمۃؒ، عباس العنبریؒ اور حمیدیؒ نے احادیث بیان کی ہیں ۔ امام حاکم ؒ فرماتے ہیں کہ قتیبۃ ثقہ اور مامون (جھوٹ سے محفوظ) ہیں ۔ امام ذہبی ؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ شیخ الاسلام ،محدث ، امام ، ثقہ، اسلام کے راوی‘‘۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں : ’’ثقہ اور ثبت ہیں‘‘ ۔ امام ابن حِبانؒ نے ان کا ذکر ثقہ راویوں میں کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تہذیب التہذیب میں ذکر کیا ہے کہقتیبۃ بن سعید سے امام بخاریؒ نے 308 اور امام مسلم ؒ نے 668 احادیث روایت کی ہیں ۔ ان کی وفات سنہ240ہجری میں ہوئی۔
(التاریخ الکبیر، ج7 ص195 /الجرح والتعدیل ، ج7 ص140 /تاریخ الاسلام، ج5 ص902 /سیر اعلام النبلاء: ج11 ص13 / تہذیب التہذیب: ج8 ص358 /۔ تقریب التہذیب: ص 454 /الثقات لابن حِبان: ج9 ص 20 )
لیث بن سعد بن عبدالرحمن الفہمی المصری
ابن سعدؒ کہتے ہیں لیث ثقہ اور بہت زیادہ حدیثوں والے تھے۔ احمد بن حنبلؒ کا کہنا ہے کہ لیث ثقہ اور ثبت ہیں ، اہل مصر میں اُن سے زیادہ صحیح حدیثوں والا اور پکّا کوئی نہیں۔ یحییٰ بن معینؒ سے منقول ہے کہ آپ نے لیث کو ثقہ اورثبت (پکّا) کہا۔ ابن المدینیؒ، نسائی ؒ اور عجلی ؒ نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔ ابوحاتم ؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوزرعہؒ سے پوچھا کہ لیث کی حدیث سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں، نیز ابوزرعہؒ نے انہیں صدوق (سچا) کہا۔ ابن خراش نے بھی سچا اور صحیح الحدیث کہا ہے۔ یحییٰ بن معینؒ نے امام مالکؒ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے لیث بن سعد کو ایک خط لکھا جس میں انہیں بلند مرتبہ امام لکھا ۔ امام شافعیؒ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا لیث بن سعد تو امام مالک ؒ سے بڑے فقیہ ہیں لیکن ان کے شاگردوں نے (امام مالک کے شاگردوں کی طرح) ان کے علم وفقہ کو آگے نہیں پھیلایا۔ احمد بن صالح ؒ کہتے ہیں کہ لیث بن سعد تو امام ہیں ۔ ابن حِبان ؒ نے اُن کے بارے میں کہا کہ وہ فقہ، تقوی، علم ، فضل اور سخاوت میں اپنے زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ ابویعلیٰ الخلیلی کا کہنا ہے کہ وہ بلا شبہ اپنے وقت کے امام تھے ۔ امام ذہبیؒ نے ان کے بارے میں لکھا کہ وہ امام، حافظ ، شیخ الاسلام اور مصر کے عالِم تھے ۔
(الجرح والتعدیل، ج7ص179 /سیر اعلام النبلاء: ج8 ص144 / تہذیب التہذیب: ج8 ص 461 / الثقات لابن حِبان:ج7 ص360 / معرفۃ الثقات للعِجلی: ج2 ص 230 راوی نمبر 1565/تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین، ص275)
تمنا عمادی کا ایک مغالطہ :
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ’’لیث بن سعد‘‘ کو امام احمد بن حنبلؒ اور امام یحییٰ بن معینؒ دونوں نے ’’ثقہ اور ثبت‘‘ کہا، لیکن منکرین حدیث کے ’’محدث العصر‘‘ نے اپنی ’’محدثانہ‘‘ تحقیق یوں پیش کی ہے کہ :
’’لیث بن سعد المصری جو قریش کے آزاد کردہ غلام تھے ، بہت سخت مدلّس تھے، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ان کے استاد یحییٰ بن سعید القطّان ، لیث سے سخت بد ظن تھے، اس حد تک کہ ان کی بد ظنی دور نہیں کی جاسکی(لسان المیزان، ج۱ ص۲۱۳ ترجمہ حجاج بن ارطاۃ)‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، ص 193)
وضاحت: عمادی صاحب نے ابن حجر ؒ کی کتاب ’’لسان المیزان‘‘ کا حوالہ دیا ہے، ہمیں اس میں حجاج بن ارطاۃ کا ترجمہ نہیں ملا۔ البتہ یحییٰ القطان کے حوالے سے یہ بات حافظ ذہبیؒ کی کتاب ’’میزان الاعتدال‘‘ میں ملتی ہے ۔
قارئین محترم! عمادی صاحب نے یہاں بہت بڑا مغالطہ دیا ہے (یا انہیں مغالطہ لگا ہے)، امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ’’حجاج بن أرطاۃ‘‘ کے ترجمہ میں امام احمد بن حنبل کے حوالے سے یحییٰ القطّان کا جو موقف بیان کیا ہے وہ ’’لیث بن سعد المصري ‘‘ کے بارے میں نہیں بلکہ ’’لیث بن ابي سلیم الکوفي اللیثي‘‘ کے بارے میں ہے، عمادی صاحب نے حجاج بن أرطاۃ کے ترجمہ میں یہ دیکھ لیا کہ یحییٰ القطّان کی ’’لیث‘‘ کے بارے میں رائے اچھی نہ تھی تو جھٹ سے اس ’’لیث‘‘ کو لیث بن سعد المصری بنادیا، اگر یہ ’’محدث العصر اور جامع العلوم‘‘ صاحب اسی میزان الاعتدال میں ’’لیث بن ابي سلیم الکوفي‘‘ کا ترجمہ بھی دیکھ لیتے تو انہیں امام احمد بن حنبل کے حوالے سے یحییٰ القطّان کی یہی بات وہاں بھی نظر آجاتی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس لیث سے مراد لیث بن ابی سلیم الکوفی ہیں نہ کہ لیث بن سعد ۔
(دیکھیں: میزان الاعتدال، ج3 ص420، ترجمہ اللیث بن ابي سلیم الکوفي، دار المعرفۃ۔بیروت)
محمد بن مسلم بن عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ بن شہاب الزہری (ابن شہاب)
منکرینِ حدیث کا ہدف خاص طور پر وہ صحابہ کرام وتابعین حضرات رہے ہیں جن سے احادیث کی کثیر تعداد منقول ہے ، مثال کے طور پر صحابہ کرام میں حضرت ابوہریرہؒ خاص طور پر ان کا نشانہ ہیں ، اسی طرح تابعین میں سے بھی انہوں نے ان حضرات کو نشانہ بنایا ہے جو کتب حدیث کے مرکزی راوی ہیں اور جن کے واسطے سے احادیث کی ایک کثیر تعداد منقول ہے ، انہی شخصیات میں سے امام محمد بن مسلم زہریؒ بھی ہیں، منکرینِ حدیث کی اسی روش پر چلتے ہوئے جناب تمنا عمادی نے بھی امام ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں لمبے چوڑے افسانے تراش کر اور آسمان وزمین کے قلابے ملا کر ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، لہٰذا ہم بھی قدرے تفصیل کے ساتھ ان کا تعارف کروائیں گے اور بتائیں گے کہ جناب عمادی صاحب جنہیں ان کے یارانِ طریقت ’’محدث العصر‘‘ کہتے ہیں کا مبلغ علم کیا ہے اور کس طرح انہوں نے خیالی تانے بانے بُن کر امام زہریؒ کے خاندان اور ان کے آبائی علاقے تک کو بدلنے کی کوشش کی ہے ۔ سب سے پہلے امام ابن شہاب زہریؒ کا تعارف پیش خدمت ہے، اس کے بعد ہم جناب عمادی صاحب کی (بزعم خود) نادر تحقیقات کا جائزہ لیں گے ۔
امام ذہبیؒ (متوفی 748ھ)نے ابن شہاب زہریؒ کا تعارف ان الفاظ کے ساتھ کروایا ہے :
’’محمد بن مسلم بن عبید اللّٰہ بن عبداللّٰہ بن شہاب بن عبداللّٰہ بن الحارث بن زہرۃ بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب ۔ الامام ، العَلَم، حافظ زمانہ، ابوبکر القرشی الزہری المدنی نزیل الشام…… (الی ان قال)……فان مولدہ کما قالہ دحیم وأحمد بن صالح فی سنۃ خمسین ، وفیما قالہ خلیفۃ بن خیاط سنۃ احدی وخمسین……‘‘
محمد بن مسلم بن عبیداﷲ بن عبداﷲ بن شہاب بن عبداﷲ بن حارث بن زہرہ بن کلاب بن مُرّہ بن کعب بن لوی بن غالب ، معروف امام، اپنے زمانے کے (احادیث کے) حافظ (ان کی کنیت) ابو بکر تھی، مدینہ کے رہنے والے قریشی زہری خاندان سے تھے جو بعد میں ملک شام چلے گئے تھے…… دحیم اور احمد بن صالح کے مطابق آپ کی پیدائش سنہ 50ہجری میں اور خلیفہ بن خیاط کے مطابق سنہ 51 ہجری میں ہوئی۔(بعض نے سن ولادت 56ھ یا 58ھ بھی بتایا ہے)۔
(سیر اعلام النبلاء، ج 5 ص326، مؤسسۃ الرسالۃ/تذکرۃ الحفاظ، ج1 ص108، دار الکتب العلمیۃ)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(متوفی 852ھ) نے ان کا تعارف یوں کروایاہے :
’’محمد بن مسلم بن عبید اللّٰہ بن عبداللّٰہ بن شہاب بن عبداللّٰہ بن الحارث بن زہرۃ بن کلاب القرشی الزہری وکنیتہ ابوبکر ، الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ واتقانہ وثبتہ وہو من رؤوس الطبقۃ الرابعۃ۔‘‘
محمد بن مسلم قرشی زہری جن کی کنیت ابوبکر ہے وہ فقیہ اور (حدیث کے) حافظ تھے جن کی جلالتِ شان ، پختگی اور درستگی پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے، آپ (راویوں کے) چوتھے طبقے کی سرکردہ شخصیات میں سے ہیں۔
(تقریب التہذیب: ص 506، دار الرشید۔حلب)
اپنی دوسری کتاب ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں لکھتے ہیں : أحد الأئمۃ الأعلام وعالم الحجاز والشام، مشہور ائمہ میں سے ہیں اور حجاز وشام کے عالم ہیں ۔
(تہذیب التہذیب: ج9 ص440، مؤسسۃ الرسالۃ)
امام احمد بن عبداﷲ العِجلیؒ (متوفی 261ھ) اِن کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’مدني تابعي ثقۃ ، ادرک الزہريُ من اصحاب النبیصلی اﷲ علیہ وسلم انس بن مالک، سہل بن سعد الساعدی وعبدالرحمن بن ایمن بن نابل ومحمود بن الربیع الانصاری وعبداللّٰہ بن عُمر وسائب بن یزید‘‘ ۔
مدینہ کے رہنے والے ثقہ تابعی ہیں ، انہوں نے نبی کریم کے صحابہ میں سے انس ؓ بن مالک ، سہلؓ بن سعد الساعدی، عبدالرحمنؓ بن ایمن بن نابل ، محمودؓ بن ربیع انصاری، عبداﷲؓ بن عمرؓ اور سائبؓ بن یزید کو پایا ہے ۔
(معرفۃ الثقات للعِجلی، ج 2 ص253، مکتبۃ الدار۔مدینہ منورہ)
اب آئیے ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں دوسرے ائمہ حدیث وجرح وتعدیل کے اقوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں :
علی بن المدینیؒ نے کہا :’’چھ لوگ ایسے تھے جن پر لوگ حدیث کے معاملے میں اعتماد کرتے تھے ، مدینہ والوں کے لئے ابن شہاب زہری، مکہ والوں کے لئے عمرو بن دینار، کوفہ والوں کے لئے ابواسحاق اور اعمش، اور بصرہ والوں کے لئے یحییٰ بن کثیراور قتادہ۔‘‘
علی بن المدینی ؒ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کبار تابعین کے بعد مدینہ میں ابن شہاب، یحییٰ بن سعید، ابو الزناد اور بکیر بن عبداﷲ سے بڑا عالم نہیں ہوا‘‘۔ سفیان بن عیینہؒ نے فرمایا : ’’میں نے ابن شہاب زہری کے بعد اہل حجاز اور اہل مدینہ کی احادیث کا یحییٰ بن ابی کثیر سے بڑا عالم نہیں پایا‘‘۔ ایسی ہی بات ایوب سختیانی ؒسے بھی منقول ہے۔ عراک بن مالک مکی ؒسے سوال ہوا کہ مدینہ کا سب سے بڑا فقیہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : ’’میرے نزدیک اہل مدینہ کے سب سے بڑے عالم ابن شہاب زہری ہیں‘‘۔ فقیہ مصر لیثؒ بن سعد نے فرمایا: ’’میں نے ابن شہاب سے زیادہ علم جمع کرنے والا اور اُن سے بڑا عالم نہیں دیکھا ‘‘۔ یہی لیث بن سعد کہتے ہیں کہ : ’’میں نے ابن شہاب سے بڑا سخی نہیں دیکھا ، وہ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے یہاں تک کہ اگر اُن کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں بچتا تھا تو اپنے ساتھیوں اور غلاموں سے ادھار لے کر مانگنے والے کو دیتے تھے‘‘۔ لیث بن سعد ہی کا بیان ہے کہ میں نے ابن شہاب زہری کو یہ کہتے سنا کہ : ’’ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کوئی چیز اپنے دل میں محفوظ کی ہو (یاد کی ہو ) اور پھر بھول گیا ہوں‘‘۔ معمر بیان کرتے ہیں کہ زہری نے اُن سے کہا: ’’میں آٹھ سال تک سعید بن المسیب کے گھٹنے سے گھٹنا جوڑ کر بیٹھا رہا۔‘‘ (یعنی آٹھ سال تک اُن سے علم حاصل کرتا رہا) ۔ یحییٰ بن سعید ؒنے کہا : ’’جتنا علم ابن شہاب زہری کے پاس ہے اتنا کسی اور کے پاس نہیں‘‘۔ عمرو بن دینار مکی ؒنے فرمایا: ’’میں نے حدیث کو ابن شہاب سے زیادہ اچھا بیان کرنے والا نہیں دیکھا ‘‘۔ سفیان ؒنے کہا : ’’جس وقت زہری کی وفا ت ہوئی اُس وقت اُن سے بڑا سنت کا عالم کوئی نہ تھا‘‘۔مکحول شامیؒ سے سوال ہواکہ سب سے بڑے اُس عالم کا نام بتائیں جسے آپ ملے ہیں، تو انہوں نے فرمایا: ابن شہاب، سوال ہوا پھر کون؟ تو انہوں نے کہا : ابن شہاب، پوچھا گیا پھر کون؟ تو جواب دیا : ابن شہاب‘‘۔ ایوب سختیانی ؒ نے فرمایا: ’’میں نے زہری سے بڑا عالم نہیں دیکھا‘‘۔ امام مالکؒ نے فرمایا : ’’ابن شہاب باقی رہ گئے اور لوگوں میں اُن جیسا کوئی نہیں‘‘۔امام مالکؒ سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جب زہری مدینہ منورہ میں داخل ہوجاتے تھے تو جب تک آپ مدینہ میں رہتے کوئی اور حدیث بیان نہیں کرتا تھا‘‘۔ امام مالکؒ ہی کا قول ہے کہ : ’’میں نے مدینہ میں ستر اسّی سال کے ایسے بوڑھے بھی دیکھے ہیں جن سے کوئی علم نہیں لیتا تھا، جب ابن شہاب آتے تھے جو کہ عمر میں اُن بوڑھوں سے چھوٹے تھے تو (اُن سے علم حاصل کرنے کے لئے) ان کے اردگرد لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا تھا‘‘۔ احمد بن حنبل ؒنے فرمایا : ’’زہری لوگوں میں سب سے اچھی حدیث والے اور سب سے عمدہ سند والے ہیں‘‘۔ ابوبکر ہذلی ؒ نے کہا: ’’میں حسن (بصری) اور (محمد) بن سیرین کی مجالس میں اٹھتا بیٹھتا رہا ہوں لیکن میں نے زہری سے بڑا عالم نہیں دیکھا‘‘۔ محمد بن سعدؒ کہتے ہیں : ’’زہری ثقہ اور حدیث اور روایت کا بہت زیادہ علم رکھنے والے تھے اور جامع فقیہ تھے‘‘۔ معمر ؒنے عمر بن عبدالعزیز ؒکے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ نے اپنے ہم نشینوں سے کہا: ’’کیا تم ابن شہاب کے ہاں حاضر ہوتے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہم ان کے ہاں حاضر ہوتے ہیں،تو عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: ان کے پاس حاضر ہوا کرو کیونکہ اُن سے زیادہ سنت کا علم رکھنے والا کوئی نہیں رہا‘‘۔ ابن ابی حاتم ؒ نے اپنے والد ابوحاتم رازی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’زہری مجھے اعمش سے زیادہ محبوب ہیں،ان کی حدیث حجت ہے ، حضرت انسؓ کے اصحاب میں سب سے پکے (ثبت)زہری ہی ہیں‘‘۔
(التاریخ الکبیر، ج1 ص220 /المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان ، ج1 ص620 وما بعد /تہذیب التہذیب: ج9 ص445 وما بعد/سیر اعلام النبلاء:ج5 ص326 وما بعد/الجرح والتعدیل : ج8 ص71 ومابعد/تاریخ ابن عساکر، ج55 ص 351 ومابعد /معرفۃ الثقات للعِجلي، ج1ص253 /ثقات ابن حِبان، ج5 ص349 /تاریخ الاسلام، ج3 ص499)۔
جناب تمنا عنادی کی امام زہری ؒ پر تنقید کا جائزہ :
جیسا کہ آپ نے پڑھا امام ابن شہاب زہریؒ مدنی ایک جلیل القدر تابعی ہیں جن کا اہل مدینہ کے علماء حدیث میں ایک بلند مقام تھا، ان کی جلالت شان اور ثقہ ہونے پر تمام ائمہ جرح وتعدیل ومحدثین کا اتفاق ہے ، کسی ایک نے بھی ان کے حفظ، اتقان یا عدل کے حوالے سے ان پر تنقید نہیں کی ، نیز تمام علماء انساب و ائمہ جرح وتعدیل کا اتفاق ہے کہ امام زہریؒ اصلاً مدنی ہیں اور خاندان قریش کے چشم وچراغ ہیں ، کسی ایک ماہر انساب نے بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ کا اصل وطن شام تھا اور آپ قریشی نہ تھے ، ان سب شہادات کے ہوتے ہوئے انیسویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والے ایک شخص کی امام زہریؒ کے خاندان یا آپ کی ذات پر تنقید کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اور نہ اس پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت ہے ، لیکن چونکہ عوام الناس کو مغالطہ دینے کے لئے تحقیق کے نام پر تلبیس کو پیش کیا گیا، اور ثابت شدہ حقائق کو خیالی مفروضوں کے تانے بانے کا سہارا لے کر مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی اس لئے ضروری ہے کہ جناب تمنا عمادی صاحب کی طرف سے امام ابن شہاب زہریؒ پر کی گئی تنقید کا جائزہ لیا جائے ۔
تمنا عمادی صاحب کا فن یہ ہے کہ وہ پہلے ایک چیز فرض کرتے ہیں اور پھراپنے اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لئے اپنے ذہن میں دلائل کا تانا بانا بُنتے ہیں اور زمین و آسمان کے قلابے ملا کرسچ کو جھوٹ، سفید کو سیاہ اور اجالے کو اندھیرا ثابت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ، آئیے سب سے پہلے عمادی صاحب کی کتاب ’’امام زہری وامام طبری۔ تصویر کا دوسرا رُخ‘‘ سے چند اقتباسات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر آگے چلتے ہیں :

امام زہریؒکے نسب اور وطن کے بارے میں تمنائی تلبیسات :
’’ابن شہاب کا اصل وطن اور ان کا تجارتی کاروبار مقام ایلہ میں تھااور یہ وہیں رہتے تھے…… غرض ایلہ زہری کا آبائی وطن تھا ، ان کے جد اعلی کا نام شہاب بھی بتا رہا ہے کہ ان کا تعلق مصر یا شام کے اطراف سے تھا ۔‘‘
(امام زہری وامام طبری، ص 131 – 132)
’’محدثین و ائمہ رجال زہری کا سلسلہ نسب حسب تصریح ذیل لکھتے ہیں محمد بن مسلم بن عبیداﷲ بن عبداﷲ بن شہاب بن عبداﷲ بن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرّہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر ، یہی نضر ہیں جن کو قریش کہا جاتا ہے ، مگر ائمہ تاریخ ونسب حارث بن زہرہ کے کسی بیٹے کا نام عبداﷲ نہیں لکھتے اُن کے نزدیک حارث کے صرف ایک ہی بیٹے تھے عبد اور اُن کے بیٹے عبد غوث۔‘‘ (امام زہری وامام طبری، ص 80)
’’ابن شہاب کے خاندان کا قریش کے خاندا ن سے بھی رشتہ مصاہرت ومناکحت کا نہ ہونا اس کی صاف اور کھلی ہوئی دلیل ہے کہ ان کو خاندان قریش سے کوئی نسبی تعلق نہ تھااور یہ تو ہم اپنے مضمون میں ثبوت کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ ابن شہاب شامی تھے ، ایلہ کے رہنے والے تھے ، مدنی ہرگز نہ تھے ، ان کے بنی زہرہ ہونے کے گمان پر محدثین ومؤرخین نے ان کو مدنی لکھ دیا ہے ۔‘‘
(امام زہری وامام طبری، ص 77 – 78)
’’حقیقت یہ ہے کہ شہاب نہ فقط خاندان قریش بلکہ ان کے اوپر کے شجروں میں بھی دیکھیے تو کسی ایک فرد کا بھی یہ نام آپ کو نظر نہ آئے گا۔ خاص خاندانِ قریش میں یہ نام ایک اجنبی سا معلوم ہوتا ہے جو اس حقیقت کو واضح کررہا ہے کہ یہ کوئی باہر کے آدمی تھے، یہ بخوبی ممکن ہے کہ بنی زہرہ کے موالی میں سے ہوں اور مولیٰ بنی زہرہ ہونے کی وجہ سے زہری وقریشی کہے جانے لگے‘‘ (امام زہری وامام طبری، ص 85 )
’’قرینہ غالب یہ ہے کہ شہاب خود اپنے آخر وقت میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہوں اور اوائل اسلام ہی میں وفات پاگئے ہوں ، یا عبداﷲ الاکبر بن شہاب جو صحابی تھے یعنی زہری کے پڑدادا ، وہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر ایمان لائے ہوں، یا عبیداﷲ بن عبداﷲ بن شہاب ، جو زہری کے دادا تھے وہ اپنے باپ کے انتقال کے وقت کم عمر ہوں اور باپ کے بعد عبداﷲ الاصغر بن شہاب اپنے چچا کے زیر تربیت رہنے کی وجہ سے ان کے ساتھ بوقت بلوغ حالت کفر میں ہوں ، مگر عبدالرحمن بن عوف کی تبلیغ کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہوں ، غرض قرینہ غالب یہی ہے کہ مذکورہ وجوہ کی بنا پر خود شہاب ، یا عبداﷲ بن شہاب، یا عبیداﷲ بن شہاب بسبب ولایت عبدالرحمن بن عوف زہری کہلانے لگے۔‘‘ (امام زہری وامام طبری، ص 85 – 86)
’’صرف اس لئے کہ یہ بھی اپنے کو زہری نسباً ثابت کرتے رہے یہاں تک کہ انساب قریش پر ایک کتاب لکھ ڈالی اور حارث بن زہری کا ایک تیسرا بیٹا عبداﷲ تصنیف کر کے اپنا نسب اس سے جوڑ دیا تو متأخرین ان کے دعوے پر اعتماد کر کے ان کو نسباً زہری سمجھنے لگے۔‘‘ (امام زہری وامام طبری، ص 79)
قارئین محترم! حدیث کے کسی راوی کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے سے اس کے وطن یا خاندان کا کوئی تعلق نہیں، امام زہری ؒ شامی ہوں یا مدنی، قریشی ہوں یا نہ ہوں، ان کے ثقہ ، ثبت اور عالی مرتبت تابعی ہونے پر محدثین و ائمہ جرح وتعدیل کا اتفاق چلا آرہا ہے، پھر ان باتوں کو لے کر صفحات سیاہ کرنے سے عمادی صاحب کی کیا غرض ہوسکتی ہے؟ہمارے خیال میں عمادی صاحب کی دشمنی امام زہریؒ سے نہیں بلکہ حدیث سے ہے ، انہوں نے جب دیکھا کہ تابعین میں امام زہری ؒ کے واسطے سے احادیث کی ایک کثیر تعداد مروی ہے تو انہوں نے امام زہریؒ کو نشانہ بنایا اور صد افسوس کہ غلط بیانی سے کام لیا ۔
تمام ائمہ رجال و علماء انساب نے امام زہریؒ کو مدنی بتایا ہے ، کسی نے بھی نہیں لکھا کہ ان کا اصل وطن شام یا ایلہ تھا، امام ذہبی ؒ نے سیر اعلام النبلاء میں ’’المدنی نزیل الشام‘‘ لکھا ہے یعنی اصل وطن مدینہ لیکن شام میں جابسے۔
نیز خود امام زہری ؒ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: مکثتُ خمساً واربعین سنۃ اختلف من الحجازِ الی الشامِ ومن الشامِ الي الحجازِ ۔ میں پنتالیس سال حجاز سے شام اور شام سے حجاز آتا جاتا رہا۔
(کتاب المعرفۃ والتاریخ، ج1 ص636)
اگر اس طرح کسی دوسری جگہ بسنے یا اپنے اصل وطن کے علاوہ کہیں زمین جائیداد ہونے سے کسی کا اصل وطن بدل جاتا ہے تو جناب تمنا عمادی صاحب کو ’’پھلواروی‘‘ یا ’’بہاری‘‘ کہنا غلط ہوگا کیونکہ وہ 1948ء میں ڈھاکہ اور پھر آخر عمر میں کراچی آگئے تھے اور یہیں سنہ1972ء میں ان کی وفات ہوئی لہٰذا اُن کا اصل وطن ان کی اپنی منطق کے مطابق ڈھاکہ یا کراچی ہوگا اور انہیں ’’پھلواروی‘‘ کہنا غلط ہوگا۔ پتہ نہیں عمادی صاحب پر انبیاء کی طرح وحی نازل ہوتی تھی کہ انہوں نے یقین کے ساتھ لکھ دیا کہ ’’زہری کا آبائی وطن ایلہ تھا، اور وہ مدنی ہرگز نہ تھے‘‘ جبکہ وہ خود تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ تمام ائمہ رجال ومحدثین نے امام زہریؒ کا جو نسب بیان کیا ہے اس کے مطابق وہ قریشی اور مدنی ہیں ۔
عمادی صاحب نے سوائے اپنے خود ساختہ مفروضوں کے کوئی ٹھوس دلیل نہیں پیش کی جس سے ثابت ہوکہ امام زہریؒ مدنی نہیں تھے ، انہوں نے ایک غلط بیانی بھی کی ہے کہ ’’ ائمہ تاریخ ونسب حارث بن زہرہ کے کسی بیٹے کا نام عبداﷲ نہیں لکھتے‘‘ آئیے دیکھتے ہیں اِن ’’محدث العصر‘‘ کی یہ بات درست ہے یا غلط۔معروف ماہر انساب ابوعبداﷲ المصعب بن عبداﷲ الزبیری (متوفی236ھ) اپنی کتاب ’’نسب قریش‘‘ میں ’’حارث بن زہرہ‘‘ کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وَوَلدَ الحارِثُ بن زُہرَۃ: عَبداً ، وعبداللّٰہ، وأمہما : قیلۃ بنت ابی قیلۃ…… (الی ان کتب)…… ووہب بن الحارث بن زُہرۃ ، الذی یُقال لہ ذو القریّۃ ، وشہاب بن الحارث ، وأمہما : لُبنیٰ ابنۃ ابی سلمۃبن عبدالعُزّیٰ……الخ۔‘‘ حارث بن زُہرہ کے دو بیٹے ’’عبد‘‘ اور ’’عبداﷲ‘‘ تھے جن کی ماں کا نام قیلۃ بنت ابی قیلہ تھا …… اور دو بیٹے وہب بن الحارث اور شہاب بن الحارث بھی تھے جن کی ماں کا نام لبنیٰ بنت ابی سلمہ بن عبدالعُزّیٰ تھا۔
(نسب قریش، ص 265، دار المعارف ۔ القاہرۃ)
پھر ’’عبداﷲ بن حارث بن زُہرہ‘‘ کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’وَوَلَدَ عبداللّٰہِ بن الحارثِ بن زُہرۃ شِہاباً ، وأمّہ : اُمیمَۃ بنت عامر بن ربیعۃ بن عمرو بن ہلال بن اُہیب بن ضبّۃ بن الحارث بن فِہر ، واِلیہ یُنسبُ ابنُ شِہاب المحدِّث ، وابن شہاب المحدِّث اسمہ: محمد بن مسلم بن عُبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ الأصغر بن شِہاب، وأمہ من بنی الدُّئَلِ۔‘‘ عبداﷲ بن حارث بن زہرہ کے بیٹے شِہاب تھے ، ان کی ماں کا نام امیمۃ بن عامر تھا ، اور محدث ابن شہاب کی نسبت انہی (شہاب) کی طرف ہے ، ان کا نام محمد بن مسلم بن عبیداﷲ بن عبداﷲ اصغر بن شہاب تھا، ان کی ماں بنی دُئَل سے تھیں۔
(نسب قریش، ص 274، دار المعارف ۔ القاہرۃ)
امام ابن حزم اندلسیؒ(متوفی 456ھ) لکھتے ہیں :
’’وَوَلَدُ الحارث بن زُہرۃ بن کلاب : وَہب ذو القریۃ ، وأہیب، وعبداللّٰہ ، وعبد، انقرض وہب وأہیب ، وَوَلد عبداللّٰہ بن الحارث بن زہرۃ : شہاب ، فولد شہاب بن عبداللّٰہ: عبدالجانّ، سمّاہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عبداللّٰہ، وہو الأکبر من مہاجرۃ الحَبَشَۃِ ، مات قبل الہجرۃ الی المدینۃ ، ولا عقب لہ، وعبداللّٰہ الأصغر بن شہاب ، شَہِدَ اُحداً مع مع المشرِکین، ثُمَّ اسلَمَ بعدُ، فولد عبداللّٰہ الأصغر بن شہاب بن عبداللّٰہ بن الحارث بن زُہرۃ: عُبیداللّٰہ ، فولدُ عُبیدِ اللّٰہ : مُسلِم، فوَلَدُ مُسلِم: عبداللّٰہ، ومحمّد، وہو الفقیہ أبوبکر الزُّہری المُحَدِّث۔‘‘ حارث بن زُہرۃ بن کلاب کے بیٹوں کے نام : وہب ، اہیب، عبداﷲ اور عبد تھے، وہب اور اُہیب کی آگے کوئی اولاد نہیں چلی، عبداﷲ بن حارث بن زہرۃ کے بیٹے شہاب تھے، پھر شہاب بن عبداﷲ کے ایک بیٹے عبدالجان تھے، جن کا نام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبداﷲ رکھ دیا تھا ، انہیں (عبداﷲ) الاکبر کہا جاتا ہے ، یہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں، ان کی وفات ہجرتِ مدینہ سے پہلے ہوگئی تھی اور ان کی بھی آگے نسل نہیں چلی،اور رہے عبداﷲ اصغر بن شہاب ، تو یہ غزوہ احد میں مشرکین مکہ کی طرف سے شریک ہوئے تھے، پھر بعد میں مسلمان ہوگئے، ان عبداﷲ اصغر بن شہاب کے بیٹے تھے عُبیداﷲ، پھر عبیداﷲ کے بیٹے تھے مسلم، اور مسلم کے دو بیٹے تھے ، عبداﷲ اور محمد ، (یہ محمد) فقیہ اور محدث ابوبکر زہری تھے۔
(جمہرۃ انساب العرب، ص 130، دار المعارف۔ القاہرۃ)
حافظ یوسف بن عبدالبرّ القرطبیؒ (متوفی 463ھ) عبداﷲ بن شہاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’عبداللّٰہ بن شہاب بن عبداللّٰہ بن الحارث بن زُہرۃ بن کلاب القرشی الزہری، وہُو جدُّ ابن شہاب الزُہری الفقیہ۔‘‘ عبداﷲ شہاب بن عبداﷲ بن الحارث بن زہرہ بن کلاب قرشی زہری، یہ ابن شہاب زہری فقیہ کے دادا ہیں۔
(الاستیعاب فی أسماء الأصحاب: ج1 ص554، دار الفکر بیروت)
اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود تمنا عمادی صاحب نے حافظ ابن عبدالبرّ کا یہ حوالہ نقل بھی کیا ہے جس میں ’’حارث بن زہرہ‘‘ کے بیٹے ’’عبداﷲ‘‘ کا صریح ذکر ہے (امام زہری وامام طبری، ص 81)۔
محترم قارئین! یہ ہم نے ان کتابوں کے حوالے پیش کیے ہیں جو انساب ومعرفۃ رجال کی معروف کتابیں ہیں ، اور آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان کتابوں میں حارث بن زہرہ کے بیٹے عبداﷲ کا صریح طور پر ذکر ہے اور پھر انہی کی اولاد میں امام محمد بن مسلم زہری کا بھی ذکر ہے ، پھر نہ جانے عمادی صاحب نے یہ غلط بیانی کیوں کی کہ ’’ائمہ تاریخ ونسب حارث بن زہر ۃ کے کسی بیٹے کا نام عبداﷲ نہیں لکھتے، ان کے نزدیک حارث کے صرف ایک ہی بیٹے تھے عبد اور ان کے بیٹے عبدعوف‘‘۔ اور پھر خود ہی حافظ ابن عبدالبرّ کا حوالہ ذکر کرکے اپنی بات کو غلط بھی ثابت کردیا۔
جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا

7تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا
I پھر کیا خوب استدلال ہے کہ چونکہ ’’شہاب‘‘ نام خاندانِ قریش میں آپ کو نظر نہیں آئے گا لہٰذا ثابت ہوا کہ شہاب قریشی نہیں ‘‘۔ یعنی بقول عمادی صاحب کسی قبیلے کے حقیقی ناموں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نام سلسلہ نسب میں بار بار آئیں۔ اب اگر اس ’’تمنائی منطق‘‘ کو مزید وسیع کردیا جائے تو ’’لؤی‘‘ ، ’’عدنان‘‘ ، ’’فہر‘‘ اور ’’معد‘‘ جیسے ناموں کا قریشی ہونا مشکوک ٹھہرے گا کیونکہ ان ناموں کا تکرار نسب قریش میں نظر نہیں آتا۔
عمادی صاحب کو اچھی طرح علم تھا کہ تمام ائمہ رجا ل ومحدثین کے نزدیک امام زہریؒ کا مدنی اور قریشی ہونا متفق علیہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ضد پر قائم ہیں جس کا علاج اﷲ کے سوا کسی کے پاس نہیں، لکھتے ہیں ’’یہ بھی (یعنی امام زہری۔ناقل) اپنے کو زہری نسباً ثابت کرتے رہے یہاں تک کہ انساب قریش پر ایک کتاب لکھ ڈالی اور حارث بن زہرہ کا ایک تیسرا بیٹا عبداﷲ تصنیف کر کے اپنا نسب اس سے جوڑ دیا تو متأخرین ان کے دعوے پر اعتماد کر کے ان کو نسباً زہری سمجھنے لگے ‘‘ ، کتنا بڑا دعویٰ بلکہ الزام ہے ، کیا ماہرین انساب وعلم رجال نے کہیں یہ لکھا ہے کہ چونکہ امام زہریؒ نے اپنی کتاب میں حارث بن زہرہ کا ایک تیسرا بیٹا تصنیف کرکے اپنا نسب اس کے ساتھ جوڑ دیا ہے لہٰذا ہم اسی پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں زہری لکھ رہے ہیں؟ یہ صرف عمادی صاحب کی خیالی دنیا ہے جس کی دلائل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں، نیز انہوں نے امام زہری کی اس کتاب کا نام نہیں لکھا جس میں انہوں نے حارث بن زہرہ کا ایک نیا بیٹا ’’ایجاد‘‘ کیا اور پھر اپنا نسب اس کے ساتھ جوڑ دیا ، لیکن پھر بھی ان کی ضد ہے کہ تمام ماہرین انساب وعلماء رجال ومحدثین عظام کے بارے میں یہ قبول کیا جائے کہ انہیں امام زہریؒ کے نسب اور وطن اصلی کے بارے میں دھوکہ لگ گیا اور حقیقت چودھویں صدی ہجری کے ’’محدث العصر‘‘ صاحب پر منکشف ہوئی، اور کیسی عجیب بات ہے کہ خود ’’قرینہ غالب یہ ہے کہ ایسا ہوا ہو ویسا ہوا ہو……‘‘ اور ’’یہ بخوبی ممکن ہے ……‘‘ جیسے الفاظ سے مفروضے پیش کرکے لوگوں کو مغالطہ دیا جارہا ہے ۔
امام زہریؒ کی ولادت باختلاف اقوال سنہ50 اور 58 ہجری کے درمیان ہوئی اور وفات سنہ 124ہجری میں ہوئی۔ جناب عمادی صاحب کی ولادت سے پہلے تقریباً بارہ سو سال کے عرصہ میں امام زہری کے ہم عصر، دوست، آپ کے مداح ونقاد اور ائمہ جرح وتعدیل گزرے، امام زہری پر ارسال اور تدلیس جیسی جرحیں کی گئیں ، لیکن آپ کے نسب پر جرح کا کسی کو حوصلہ نہ ہوااورنہ ہی آپ کے عجمی یا غیر قریشی ہونے کا کسی پر انکشاف ہوا، یہ راز کھلا تو صرف عمادی صاحب پر اور غالباً بذریعہ الہام ووحی ہی کھلا ہوگا کیونکہ آپ کا دعویٰ تو کتب رجال وجرح وتعدیل سے ناقل ہونے کا ہے اور ان کتب میں امام زہریؒ کا نسب قریشی اور مدنی ہی لکھا ہے۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.