محمد عرفان الحق ایڈووکیٹ
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ تیسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ ؓ کے پر نور چہرہ پر چیچک کے نشانات تھے جبکہ آں موصوفؓ کی رنگت سفید مائل زردی تھی اور زلفیں کندھوں تک آئی ہوتی تھیں۔ آپؓ خاندان بنو امیہ سے تھے۔ ذہن میں رہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے خواہش کے مطابق مشرقی و مغربی پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے عثمانی برادران (مولانا شبیر احمد عثمانی و مولانا ظفر احمد عثمانی) بھی سیدنا عثمانؓ کے خاندان سے تھے۔ اور قائداعظم محمد علی جناح کی وصیت کے مطابق ان کا جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانی ہی نے پڑھایا تھا۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ آپ رضی اﷲ عنہ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوہرے داماد تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہ ؓ، سیدہ ام کلثوم ؓاور سیدہ فاطمہؓ۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ سے ہوا۔ سیدہ رقیہؓ سے سیدنا عثمانؓ کے فرزند حضرت عبداﷲؓ پیدا ہوئے اور انہی عبداﷲؓ کے نام پر سیدنا عثمانؓ کی کنیت ’’ابو عبداﷲ‘‘ تھی۔مروج الذہب کے مطابق ان عبداﷲؓ بن عثمانؓ کا انتقال 76سال کی عمر میں ہوا۔ سیدنا عثمانؓ اور سیدہ رقیہؓ کے ان صاحب زادے اور نبی عیہ السلام کے نواسے جناب عبداﷲؓ کی اولادد فی زمانہ بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں موجود ہے۔ سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا کے انتقال پر ملال کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی، سیدہ ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ سے کر دیا۔ جب وہ بھی وفات پا گئیں تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اگر میری چالیس بیٹیاں (ایک روایت کے مطابق سو) بھی ہوتیں تو میں اسی طرح ایک کے بعد ایک، عثمانؓ کے نکاح میں دیتا جاتا۔ خیال رہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جن کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ اس صفت میں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا عثمانؓ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دو نوروں (روشنیوں) والا‘‘ ہے۔
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آذر بائیجان، آرمینیا، ہمدان کے علاقوں میں بغاوت ہوئی، جس کا قلع قمع امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت میں ہی ہوا۔ اور اس بغاوت کا سدباب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور کی بغاوتوں کے سدباب کی طرح ہی اہم تھا۔ مزید یہ کہ ایران کے کئی علاقے مثلاً بیہق، نیشاپور،شیراز، طوس، خراسان وغیرہ بھی خلافت عثمانی میں ہی فتح ہوئے اور قیصر روم بھی آں محترمؓ کے دور میں ہی واصل نار ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ہی بحری جہاد کا آغاز ہوا۔ بحری جہاد کی ابتداء کرنے والے لشکر کے لیے جنت کی خوشخبری نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی لسان مبارکہ سے ارشاد فرما چکے تھے۔ ۲۸/۲۷ہجری میں امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی اجازت سے اس وقت کے حاکم شام سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار کیا اور جزیرۂ قبرص سمیت کئی اہم خطوں پر پرچم اسلام لہرایا۔
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ شرم و حیا اور جود و سخا کے پیکر تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے کبھی زنا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی شراب نوشی کی۔ آپ رضی اﷲ عنہ انتہائی نرم خو اور سخی تھے۔ متعدد مرتبہ نادار اور مجبور مسلمانوں کے لیے اپنا مال بغیر کسی قیمت کے فی سبیل اﷲ خرچ کیا۔ اور کئی دفعہ جہاد کے لیے مالی طور پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں مال و زر پیش کیا۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سخاوت جنت کا درخت ہے اور عثمانؓ اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہیں اور کمینگی جہنم کا درخت ہے اور ابو جہل اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی ہے(کنزالعمال)۔ ایک مرتبہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پنڈلی مبارک سے کپڑا نسبتاً زیادہ اوپر اٹھا ہوا تھا اسی اثناء میں علم ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ چلے آرہے ہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انتہائی عجلت میں کپڑا نیچے کر دیا۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے جانے کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے اس ضمن میں استفسار فرمایا تو آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ: کیا میں اْس سے حیا نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں(مسلم)۔ سیدنا عثمانؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر کے موقع پر سیدنا عثمانؓ کی اہلیہ محترمہ دختر نبیؐ سیدہ رقیہ ؓ علیل تھیں، جس وجہ سے نبی علیہ السلام نے خود سیدنا عثمانؓ کو غزوہ بدر میں شرکت سے رخصت دی، مگر سیدنا عثمانؓ اس عدم شرکت کے باوجود فضائل و مناقب کے لحاظ سے شرکاء بدر میں شامل ہیں۔ آپؓ نے ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں میں شرکت فرمائی، اسی لیے آپؓ کو ذوالہجرتین (دو ہجرتوں والا) بھی کہا جاتا ہے۔ سیدنا عثمانؓ کا شمار مال دار صحابہؓ میں ہوتا تھا۔ آپؓ نے اپنے مال کو ہمیشہ اہل اسلام اور راہ باری تعالیٰ میں خرچ کیا اور اس ضمن میں ہمیشہ صف اول میں بھی سب سے آگے ہوا کرتے۔ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی پانی کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے بئر رومہ نامی کنواں خریدنا ہو یا غزوہ تبوک کے موقع پر بے سر وسامان صحابہؓ کے لشکر پر خرچ کرنے کا موقع ہو، ہر موقع پر سیدنا عثمانؓ نے اپنے اموال اﷲ کی راہ میں بے درـیغ نچھاور کیے۔ سیدنا عثمانؓ کے صالحانہ و بے لوث کردار اور خدمت اسلام کی وجہ سے ہی نبی علیہ السلام نے غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا کہ ـ’’آج کے بعد عثمانؓ پر ان کے کسی عمل کے سبب پکڑ نہ ہوگی۔ مسجد نبوی کے توسیع میں بھی سیدنا عثمانؓ کا مالی کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی چند لوگوں کو ہی معلوم ہوگی کہ اسلام میں سب سے پہلے سیدنا عثمانؓ نے حلوہ تیار فرمایا، جسے ـخَبِیْص کہا جاتا ہے جو کہ شہد، میدے/آٹے اور گھی سے تیار کیا گیا۔ سیدناعثمانؓ نے حلوہ تیار کر کے اسے نبی علیہ السلام کی خدمت میں، جو کہ اس وقت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہؓ کے گھر تشریف فرما تھے، پیش کیا تو نبی علیہ السلام نے حلوہ تناول فرما کر اس کی تعریف فرمائی اور استفسار فرمایا کہ کس نے بھیجا ہے؟ معلوم ہوا کہ عثمانؓ نے بھیجا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے عثمانؓ کے ساتھ راضی ہونے کی دعا فرمائی۔
صلح حدیبیہ کے سال نبی علیہ السلام اپنے صحابہ کرامؓ کی معیت میں عمرہ کے ارادہ سے جانب مکہ عازم سفر ہوئے مگر معلوم ہوا کہ کفار مکہ آپﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمرہ ادا کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر گفت و شنید کے لیے مکہ بھیجا جہاں کفار نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی افواہ اڑادی۔ اس پر نبی علیہ السلام کو انتہائی رنج و قلق ہوا اور آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے قتل ناحق کا انتقام لینے کے لیے اپنے ساتھ موجود تقریباًڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ سے فرداً فرداًبیعت لی، اسے بیعت رضوان کہا جاتاہے۔ بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے انؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے فرمایا تھا کہ اﷲ آپ کو ایک قمیص پہنائے گا (یعنی خلافت عطا فرمائے گا) لوگ چاہیں گے کہ آ پ وہ قمیص اتار دیں(یعنی خلافت سے دستبردار ہو جائیں) اگر آپ لوگوں کی وجہ سے اس سے دستبردار ہوئے تو آپ کو جنت کی خوشبو بھی نہ ملے گی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ سبائی بلوائیوں کے پرْ زور مطالبہ کے باوجود بھی منصب ِخلافت سے دستبردار نہ ہوئے اور اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر جان لٹا دی۔ انہی نا ہنجار سبائیوں کے محاصرہ کے دوران آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے گھر کے دریچہ سے ظاہر ہو کر انتہائی مشفقانہ انداز میں ان عاقبت نا اندیش سبائی آلہ کاروں کو ان الفاظ میں تنبیہ کی:
’’میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے مگر تم لوگ آج ان کا لحاظ نہیں کر رہے
۱۔ میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں
۲۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادیؓ میرے نکاح میں دی
۳۔ جب پہلی صاحب زادیؓ فوت ہوئی تو دوسری میرے نکاح میں دے دی
۴۔ میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا
۵۔ میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی
۶۔ جس ہاتھ سے حضور علیہ السلام کی بیعت کی، اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا
۷۔ میں نے جب سے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہو، اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں تھا تو میں نے اس کی قضاء کی
۸۔ زمانۂ جاہلیت اور حالت اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا
۹۔ میں نے کبھی چوری نہیں کی
۱۰۔ میں نے نبی علیہ السلام کے زمانہ میں ہی پورا قرآن حفظ کر لیا تھا
اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرا لو۔ واﷲ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کر سکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا‘‘۔
مگر سازشی مفسدینکی سعقلیں ماؤف اور ضمیر مردہ ہو چکے تھے۔اسی سبائی سازش کے نتیجہ میں خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیاگیا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور عام مسلمان بغرض حج مکہ مکرمہ میں تھے۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو خلافت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا مگر بحکم نبوی آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ مطالبہ رَد کر دیا۔ اور چالیس دن بھوکے پیاسے روزہ کی حالت میں ان سازشی سبائیوں کے محاصرہ میں اپنے گھر میں ہی مقید رہے۔ دن رات نماز و تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ اوربالآخر ۱۸ذی الحج، ۳۵ہجری کو دوران تلاوت شہید کر دیے گئے۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
امام جود و سخا، پیکر شرم و حیا، ہم زلف علی مرتضیٰؓ،کاتب ِوحی، ذوالنورین، فاتح افریقہ،خلیفۂ راشد سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لیے یہ سطور ناکافی ہیں اس لیے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپرد تحریر کیے گئے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے، نیز ان مقدس شخصیات کی عظمت کے تحفظ کیلئے ہماری جان، مال اور وقت اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول فرما لے،اٰمین۔
بروایت ترمذی ،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنت عثمانؓ ہیں۔ ترمذی ہی کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کسی کا جنازہ لایا گیا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا ،صحابہؓ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اﷲ ! ہم نے تو کبھی آپ کو کسی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتے نہیں دیکھا، تو رحمت اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِس شخص کو عثمانؓ سے بغض تھا پس اﷲ کو بھی اس سے نفرت ہے۔ بروایت بخاری، ایک مرتبہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروق ؓاور سیدنا عثمان ذوالنورینؓ احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احد! رک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔غور فرمائیے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کے لیے پہاڑ کی حرکت بھی برداشت نہیں کرتے بلکہ پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ رک جا! سوچیے کیا آج صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی عظمت و رفعت اور علو شان کے منافی فکر رکھنے والوں کی دارو گیر اور سرزنش روک دی جائے؟ صحابہ کرامؓ کے لیے، نبی کریم، رحمت اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم تو پہاڑ کی حرکت برداشت نہیں کرتے تو کیا آج نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محنت یعنی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے ایمان و ایقان پر اعتراضات برداشت کر لیے جائیں؟ کیا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے باغ کے ان مہکتے پھولوں کو ایمان سے عاری مشہور کرنے کا متوازی اسلام منصوبہ بآسانی پنپنے دیا جائے؟ہرگز نہیں! ! ! اﷲ تعالیٰ ہمیں عظمت ِصحابہؓ کے تحفظ کے لیے حتی المقدور سعی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ چونکہ مکتب نبوت کے ایک اہم اور لائق شاگرد تھے انہوں نے اپنے مربی نبی کریمﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں جہاں اور کئی مواقع پر آں حضرتﷺ کی تربیت کے مطابق قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے احسن اندازاختیار فرمائے وہاں سیدنا عثمانؓ نے وقتاً فوقتاً علم و حکمت اور دانائی و تدبر سے بھر پور کلمات بھی ارشاد فرمائے جن میں سے چند ایک پیش ہیں :
٭ اﷲکے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہو گا
٭ بندگی اس کو کہتے ہیں کہ احکام الہٰی کی حفاظت کرے اور جو عہد کسی سے کرے اس کو پورا کرے اور جوکچھ مل جائے اس پر راضی ہو جائے اور جو نہ ملے اس پر صبر کرے
٭ دنیا کی فکر کرنے سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی فکر کرنے سے روشنی پیدا ہوتی ہے
٭ متقی کی علامت یہ ہے کہ اور سب لوگوں کو تو سمجھے کہ وہ نجات پا جائیں گے اور اپنے آپ کو سمجھے کہ ہلاک ہو گیا
٭ سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی تیاری نہ کرے
٭ دنیا جس کے لیے قید خانہ ہو قبر اس کے لیے باعث راحت ہوگی
٭ اگر تمہارے دل پاک ہو جائیں تو کبھی قرآن شریف کی تلاوت یا سماعت سے سیری نہ ہو
٭ محاصرہ کے زمانہ میں جب اتمام حجت کے لیے آپ نے بالاخانہ سے سر باہر نکالا تو فرمایا مجھے قتل نہ کرو بلکہ صلح کی کوشش کرو، خدا کی قسم میرے قتل کے بعد پھر تم لوگ متفقہ قوت کے ساتھ قتال نہ کر سکو گے اور کافروں سے جہاد موقوف ہو جائے گا اور باہم مختلف ہو جاؤ گے
٭ محاصرہ کے زمانہ میں لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین! آپ تو مسجد نہیں جا سکتے انہی باغیوں میں سے کوئی شخص امام بنتا ہے، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہ نماز اچھا کام ہے جب لوگوں کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جا یا کرو، ہاں برے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت نہ کرو۔
ء ء ء