مولا نا زاہدالراشدی
یوں لگتا ہے کہ دینی مدارس کے خلاف کاروائیوں کا ایک نیا راؤنڈ شروع ہونے والا ہے اور اس بار اس کا دائرہ و ہدف پنجاب نظر آرہا ہے۔ سندھ میں یہ سلسلہ اس وقت جاری ہے جبکہ پنجاب میں اس کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران دو مختلف اخباروں میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق اس حوالہ سے پنجاب حکومت کی سرگرمیوں کا جو نقشہ سامنے آرہا ہے وہ کچھ اس طرح کا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے صوبائی اپیکس کمیٹی کے ممبران جن میں کور کمانڈر لاہور، صوبائی وزیر داخلہ، چیف سیکرٹری پنجاب، ڈی جی رینجرز پنجاب، جنرل آفیسر کمانڈنگ ۱۰ ڈویژن، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور اور دیگر کے ساتھ متعدد اجلاس منعقد کر کے دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی غرض سے سفارشات تیار کی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
٭ صوبے میں موجود تمام مدارس کو وزارت تعلیمات حکومت پاکستان کے زیر انتظام لایا جائے۔
٭ مدارس کے نصاب میں تبدیلی ضروری ہے مگر وہ صوبائی سطح پر نہیں وفاقی سطح پر کی جائے تاکہ پورے ملک میں یکساں نصاب رائج ہو۔
٭ ریگولیٹری اتھارٹی، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو مضبوط بنایا جائے۔
٭ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ مستقل بنیادوں پر نصابی پالیسی تشکیل دے۔
٭ دینی مدارس میں ان کے اپنے نصاب کے ساتھ کلاس ششم کے طلبہ و طالبات کو باضابطہ طور پر انگلش کا لازمی مضمون پڑھایا جائے۔
٭ چونکہ حکومت مدارس میں اپنا نصاب پڑھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے اس لیے سرکاری کتب پڑھانے کے لیے جو اساتذہ رکھے جائیں ان کی تنخواہیں حکومت پاکستان ادا کرے تاکہ مدارس پر اضافی مالی بوجھ نہ پڑے۔
یہ تو وہ سفارشات ہیں جو پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو بھجوائی ہیں جبکہ ایک خبر کے مطابق خود پنجاب حکومت نے اپنے طور پر جو فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ
٭ پنجاب حکومت نے دینی مدارس کا آڈٹ سکیورٹی اداروں سے کروانے کی منظوری دے دی ہے۔
٭ سابقہ ریکارڈ کی چھان بین کومبنگ آپریشن کا حصہ ہے۔
٭ سکیورٹی ادارے مدارس کا تمام ریکارڈ چیک کریں گے اور ضرورت کے مطابق چھان بین بھی کریں گے۔
یہ دینی مدارس کے حوالہ سے مستقبل کے حکومتی عزائم اور اقدامات کی ایک جھلک ہے جس کی تیاریاں جاری ہیں جبکہ بعض ذرائع کے مطابق پنجاب کے معاملات میں رینجرز کی آمد بھی اسی حوالہ سے محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ رینجرز اور پولیس کے درمیان اس آپریشن کے حوالہ سے اختیارات کی تقسیم کا کوئی حتمی فارمولا طے ہوجانے پر سرگرمیوں کا آغاز ہونے والا ہے۔
دینی مدارس ایک عرصہ سے اس قسم کی سرکاری پالیسیوں کا ہدف چلے آرہے ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی نہ کوئی نیا فارمولا سامنے آتا رہتا ہے۔ اور اب محسوس یہ ہو رہا ہے کہ دینی مدارس پر یہ دباؤ عالمی سطح کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی اپنی انتہا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دینی مدارس کا بنیادی کردار یہ ہے کہ وہ پاکستانی معاشرہ میں دینی تعلیم کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں جو دستوری حوالہ سے تو خود ریاستی تعلیمی نظام کی ذمہ داری بنتا ہے لیکن چونکہ ریاستی تعلیمی ادارے اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے آج تک تیار نہیں ہوئے اس لیے دینی مدارس اپنا کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اہم شخصیت نے مجھ سے پوچھا کہ دینی مدارس یہ تعلیم کیوں دے رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یہ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومت نہیں دے رہی اس لیے دینی مدارس معاشرے کی یہ دینی ضرورت پوری کرر ہے ہیں۔ ورنہ اگر سعودی عرب، مصر، سوڈان، اور دیگر بہت سے مسلم ممالک کی طرح قرآن و حدیث، فقہ و شریعت، اور عربی کی تعلیم کو ریاستی تعلیمی نصاب کا حصہ بنا لیا جائے اور قومی و معاشرتی ضروریات کے مطابق اس کا عملی اہتمام بھی کیا جائے تو دینی مدرس کے موجودہ نظام کی ضرورت و افادیت کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر حکومت خود بھی دینی تعلیم نہ دے اور جو ادارے یہ تعلیم دے رہے ہیں ان کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے یا مداخلت کر کے ان میں اپنا مشکوک ایجنڈا شامل کرتی رہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بتدریج دینی تعلیم کو ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔ اور ماضی میں جامعہ عباسیہ بہاولپور اور جامعہ عثمانیہ طرز کے بیسیوں مدارس کے حوالے سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ دینی مدارس کے بارے میں اس قسم کی کوئی پالیسی جب بھی سامنے آتی ہے تو نہ صرف دینی حلقوں بلکہ ایک عام مسلمان کے ذہن میں بھی پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ یہ اقدامات دینی مدارس کے خلاف نہیں بلکہ دینی تعلیم کے خلاف ہیں اور پھر ان پالیسیوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی اسی تناظر اور نفسیات کے دائرے میں کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف دینی مدارس کے نظام و نصاب کی نمائندگی کرنے والے وفاقوں کی صورتحال یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے ساتھ کوئی دوٹوک بات کرنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعہ وقت گزاری کے عمل کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ مذاکرات کے ہر عمل کے بعد حکومتی مطالبات کا کوئی نہ کوئی حصہ تو دینی مدارس کے نصاب و نظام کا حصہ بن جاتا ہے مگر دینی مدارس کے خلاف دباؤ میں کمی اور ان کی آزادی و خودمختاری کے تحفظ کی کوئی ضمانت حکومتی حلقوں کی طرف سے سامنے نہیں آتی۔ بلکہ ہم تو حکومتی حلقوں کو شاید یہ بھی نہیں کہہ پا رہے کہ جب ملک بھر میں مختلف شعبوں میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نظام اور نیٹ ورک موجود ہے جس کا دائرہ مسلسل پھیل رہا ہے تو پرائیویٹ سیکٹر میں صرف دینی مدارس کی موجودگی ہی ریاستی اداروں کو کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ بہرحال اس سلسلہ میں موجودہ صورتحال کا ازسرنو جائزہ لینا اور دینی تعلیم کے تحفظ کی جدوجہد کی نئی ترجیحات طے کرنا ضروری ہوگیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ کام کرے گا کون؟