مولانا زاہد الراشدی
’’عشرۂ ختم نبوت‘‘ کے اختتام پر 9 ستمبر کو گکھڑ اور 10 ستمبر کو چیچہ وطنی میں اس حوالہ سے چند اجتماعات میں حاضری و گفتگو کا موقع ملا۔ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی مسجد میں 9 ستمبر کو بعد نماز مغرب ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں جماعت اسلامی پنجاب کے سیکرٹری جنرل جناب بلال قدرت بٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے چودھری محمد اشرف وڑائچ، پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر میاں راشد طفیل، اور وزیرآباد بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری اعجاز احمد ایڈووکیٹ کے علاوہ مولانا قاری حماد الزہراوی، مولانا قاری منہاج الحق خان راشد، مولانا قاری محمود اختر ، حافظ بشیر احمد چیمہ اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ چیچہ وطنی کے معروف احرار مرکز کے تحت مختلف تقریبات میں 10 و 11 ستمبر کو حاضری ہوئی۔
’’احرار گرلز آرگنائزیشن‘‘ کی فکری نشست میں ’’عالمی تہذیبی کشمکش کی موجودہ صورتحال‘‘ پر اسکول و کالج کی طالبات کے سامنے اسلامی اور مغربی تہذیب میں اختلافات کے پس منظر پر گفتگو کی اور یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ برادرم حاجی عبد اللطیف چیمہ اور مولانا قاری محمد وقاص سعید کی محنت سے یہاں خواتین اور طالبات میں علمی و فکری گفتگو کا ایک اچھا ماحول موجود ہے جو ہمارے دور کی اہم ضروریات میں سے ہے۔ تہذیبی کشمکش کے فکری پس منظر اور بنیادوں کے بارے میں گفتگو بسا اوقات علماء اور طلبہ کے ماحول میں مشکل ہو جاتی ہے مگر میری کم و بیش پون گھنٹے کی گفتگو کو طالبات نے نہ صرف توجہ سے سنا بلکہ سوالات بھی کیے۔ مرکز احرار میں عصر کے بعد پریس کانفرنس تھی، عشاء کے بعد جامع مسجد عثمانیہ میں درس ختم نبوت ہوا جبکہ دوسرے روز فجر کی نماز رحمان سٹی کی مسجد ختم نبوت میں پڑھی اور حج بیت اﷲ کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کیں۔ چونکہ یہ تقریبات عشرۂ ختم نبوت کے سلسلہ میں تھیں اس لیے ان میں قادیانیت کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
(۱) 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کیوں قرار دیا گیا تھا؟ اس کے بارے میں ضرورت کے مواقع پر تفصیلی گفتگو کی جاتی ہے مگر میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے جذبات و احساسات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس فیصلے کے وقت پارلیمنٹ کے قائد ایوان تھے۔ انہوں نے اس فیصلہ کی خود وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ
٭ قادیانی حضرات ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے،
٭ قادیانی امت پاکستان میں وہ مقام حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر تشکیل نہ پا سکے، اور
٭ وہ (بھٹو مرحوم) یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ فیصلہ اور اقدام قیامت کے دن ان کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔
میرے خیال میں اس تاریخی فیصلے کے بارے میں سب مسلمانوں کے جذبات اسی قسم کے ہیں اور یہ صرف دینی حلقوں کا نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے ہر طبقہ کا مسئلہ ہے اور ایک قومی مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
(۲) یہ کہا جاتا ہے کہ جب پارلیمنٹ نے فیصلہ کر دیا تھا جو دستور کا حصہ بن چکا ہے تو پھر یہ مسئلہ ابھی تک باقی کیوں ہے، اسے اصولًا نمٹ جانا چاہیے تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں نے نہیں بلکہ قادیانیوں نے باقی رکھا ہوا ہے۔ وہ اگر اس اجتماعی اور قومی فیصلے کو تسلیم کر لیتے، اس کے مطابق دستور کے تحت ملک کے معاشرے کا حصہ بن جاتے اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ملک میں آرام سے رہتے تو مسئلہ ختم ہو جاتا۔ مگر انہوں نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا، دستور کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کے خلاف عالمی سطح پر محاذ آرئی کا حصہ بن گئے، اور دستور کے فیصلے پر عملدرآمد کے عمل کا بائیکاٹ کر دیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی تک باقی ہے۔ قادیانیوں نے پوری دنیا میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کے ٹائٹل کے ساتھ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں جو شرعی، قانونی، اور اخلاقی کسی بھی لحاظ سے ان کا حق نہیں بنتا۔ اس لیے ہمیں بھی بیداری قائم رکھنے اور ان کے دجل و فریب سے مسلم سوسائٹی بالخصوص نئی نسل کو بچانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنا پڑ رہی ہے۔ اور جب تک قادیانیوں کا یہ رویہ اور سرگرمیاں جاری رہیں گی ہماری یہ جدوجہد بھی جاری رہے گی اور اس کی ذمہ داری قادیانیوں کے غلط رویہ اور طرز عمل پر ہی ہوگی۔
(۳) قادیانیوں کے حقوق کے بارے میں بڑے شد و مد کے ساتھ بات کی جاتی ہے مگر ان حقوق کا انحصار دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ حقوق کا تعین اور عملداری بہرحال دستور کے تحت ہوگی جسے قادیانی تسلیم نہیں کر رہے اس لیے ان کے حقوق کا معاملہ مسلسل ابہام میں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ان کے حقوق ان کی آبادی کے تناسب سے ہی طے ہوں گے۔ ظاہر بات ہے کہ ملک کی آبادی میں ان کا جو تناسب ہے حقوق و معاملات میں بھی اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ جبکہ آبادی میں ان کا تناسب صحیح طور پر معلوم ہونے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ووٹروں کی فہرست میں اپنے ناموں کے اندراج کا بائیکاٹ ختم کر کے ووٹ درج کرائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ملک میں ان کی تعداد کیا ہے؟ اور دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ مردم شماری میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ قادیانیوں کی صحیح تعداد معلوم ہو جائے۔ اس کے بغیر ان کی تعداد معلوم نہیں ہو سکتی اور جب تک صحیح تعداد سامنے نہ آئے بہت سے حقوق کا سرے سے تعین ہی نہیں ہو سکتا۔ جبکہ قادیانیوں نے ووٹروں کی فہرست میں نام لکھوانے کا بائیکاٹ غالبًا اسی لیے کر رکھا ہے تاکہ ان کی صحیح تعداد سامنے نہ آسکے اور وہ دنیا کے سامنے جعلی اعداد و شمار کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں۔
قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی سرحدی تقسیم کے موقع پر ضلع گورداس پور میں قادیانی حضرات نے اپنی آبادی کو خود ہی مسلمانوں سے الگ شمار کروایا تھا اس لیے انہیں اس بات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی آبادی کو الگ طور پر شمار کیا جائے۔ جبکہ یہ بات دستور پاکستان کے مطابق ان کے حقوق اور معاشرتی حیثیت کے صحیح طے ہونے کا ذریعہ بھی ہے۔
ہمیں قادیانیوں کے سیاسی، شہری، انسانی، اور معاشرتی حقوق سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کو تسلیم کریں اور آبادی میں اپنی صحیح تعداد کے تعین کے بارے میں ووٹوں کے اندراج یا مردم شماری کی صورت میں تعاون کریں، اس کے بغیر ان کے حقوق کے بارے میں کنفیوژن کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ اور قادیانیوں کی تعداد کے بارے میں ان کے اپنے پیش کردہ اعداد و شمار پر اعتماد اس وجہ سے بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے پیشوا کا حساب و کتاب کا ضابطہ دوسری دنیا سے مختلف ہے۔ مرزا قادیانی نے پچاس جلدوں میں ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھنے کا وعدہ کیا تھا مگر پانچ جلدوں کی اشاعت کے بعد سلسلہ ختم کر دیا اور یہ کہہ کر حساب نمٹا دیا تھا کہ پانچ اور پچاس میں صرف ایک صفر کا فرق ہی تو ہوتا ہے۔ مگر کیا یہ فارمولا اپنی تعداد کے بارے میں قادیانیوں کے اعداد و شمار میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟
ء ء ء