محمد اکرم رانجھا
میں الیکشن کے روز ۱۱؍مئی ۲۰۱۳ء سے چار پائی پر ہوں نہ صحت مند ہوں اور نہ ہی بیمار۔ سال کا کچھ حصہ گاؤں میں ہوتا ہوں اور کچھ منصورہ۔ لاہور میں مجھے سلیم بیٹے نے بتلایا کہ گاؤں میں محمد ترکھان اﷲ کے حضور حاضرہوگیا ہے۔ مجھے دھچکا لگا کیونکہ میں محمد ترکھان کو گاؤں بھر میں درجہ اوّل کا انسان سمجھتا تھا۔ گاؤں کے لوگ تین حیثیت کے ہوتے ہیں۔ ایک زمیندار اور صاحب اقتدار لوگ دوسرے کاشت کار، تیسرے دستکار او رکمین لوگ۔ محمد ترکھان تیسرے کیٹیگری درجہ (یعنی) کمین لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کے پاس اپنا دست و بازو ہی اس کا ذریعہ معاش تھا کلہاڑا اس کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جس سے وہ روزی کماتا تھا اور بیشتر اوقات کلہاڑا مسجد کی دہلیز کے پاس زمین پر پڑا ہوتا اور نمازی محمد ترکھان اپنے اﷲ کے حضور سر بسجود ہوتا۔ ’’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘‘ (القرآن) یعنی اﷲ پاک کا فرمان ہے کہ ’’سجدہ کر اور میرے قریب ہو جا‘‘والی بات اس پر صادق آتی تھی۔ سجدے میں پھیلے ہوئے ہاتھ اتنے گدلے اور بدنما ہوتے کہ خیال آتا کہ ایسے ہی بدنما اور گدلے ہاتھ ہوں گے اس مزدور صحابی رضی اﷲ عنہ کے جن کو جناب سرورمآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے بوسہ دیا تھا۔
محمد ترکھان کے دو کام تھے محنت مزدوری کرنا یا پھر عبادت و ریاضت کرنا ، تیسرا شوق محمد ترکھان کو یہ تھاکہ اس کی نرینہ اولاد قرآن پاک حفظ کر جائے اور اس کی بیٹیاں دست کاربن جائیں۔ اﷲ کے حضور جانے سے قبل محمد ترکھان دو بیٹوں اور ایک پوتے کو حافظ قرآن بنا کر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوگیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اور انھیں اپنے گھر آباد کیا وہ قیامت کے روز میرا پڑوسی ہوگا۔ محمد ترکھان نے تین بیٹیوں کا گھر آباد کیا اور اس خوشخبری کا مصداق بنا۔ زندگی میں اس کی نماز کوئی قضا نہ تھی کوئی روزہ قضا نہ تھا۔ اسے موت سے پہلے حج نصیب ہوا اس کے دو بیٹے اور ایک پوتا حافظ قرآن تھا۔ تین بیٹیاں شادی شدہ اپنے گھر آباد تھیں۔ ان نمبروں کو اگر شمار کیا جائے تو یہ مخصوص نمبر کسی شخص کے گاؤں بھر میں نہ تھے۔ محمد ترکھان کو یہ مخصوص فوقیت بھی حاصل تھی کہ وہ مسجد کے گرد و نواح میں گھومتا پھرتا نظر آتا تھا۔ حالانکہ اس کا مٹی کا بنا ہوا کچا مکان گاؤں کے جانبِ شمال واقع تھا جبکہ مسجد جانبِ جنوب۔ دن بھر میں پانچ مرتبہ مرد درویش ان راہوں میں گھومتا نظر آتا تھا۔
محمد ترکھان کی زندگی کے تقریباً ۷۵سال کا بیشتر حصہ مسجد کے جنوب اور مکان کے شمال میں چلتے گزر گیا۔ میں جب نئی نویلی ٹیوٹا کار پر سوار ہو کر کنویں کے باغات دیکھنے جاتا تو محمد ترکھان مجھے ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے مل جاتا اور جب میں واپس گاؤں داخل ہوتا تو محمد ترکھان مجھے عصر کی نماز پڑھنے کے لیے آتا ہوا مل جاتا اور میں حیران رہ جاتا کہ یہ شخص ہمہ وقت مسجد کی راہوں میں ہے۔
محمد ترکھان کو گاؤں کے کاشت کار اور زمیندار کمین کہہ کر پکارتے تو میں کانپ اٹھتا کہ جس کا رزق حلال اور کفاف ہے جس کی کوئی نماز اور روز قضا نہیں جسے حج کی سعادت نصیب ہوئی اور جو نماز باجماعت کی خاطر مسجد کی گلیوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ وہ تو کمین ہوا اور اسے کمین کہنے والے لوگ ساہوکار ہوئے جنھیں منکرات کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ اس گاؤں میں ایسے بدنصیب بھی ہوگزرے ہیں جنھیں عمر بھر میں نے مسجد میں نہیں دیکھا۔ جنھیں حج نصیب نہیں ہوا۔ جن کا رزق مارے دھاڑے کا ہے جن کی اولاد نے قرآن حفظ نہیں کیا اور جنھیں طبعاً امرا کے پیچھے طبقہ غربا چلتا نظر نہیں آتا۔
یہاں اکثر غریب لوگ نمازی ہیں جن کے سرخیل محمد ترکھان ، یوسف لوہار اور احمد مسلی جیسے لوگ ہیں اور طبقہ امراء کے سرخیل وہ لوگ ہیں جو ذیلدار سفید پوش اور نمبر دار قسم کے اپنے اقتدار اور خوشخالی میں مست ہیں۔ عمرانی طور پر یا تو طبقہ امرا نیک اور خدا مست ہونا چاہیے یا پھر امیروں کی پیروی میں غربا کو ان جیسا ہونا چاہیے لیکن یہاں واضح طور پر تضاد موجود ہے۔
میں نے محمد ترکھان سے ایک مرتبہ پوچھا بھائی تم نے مسجد کا طواف کہاں سے سیکھا۔ اس نے کہا میرے بچپن میں نواحی گاؤں ’’ریڑ کا بالا‘‘ میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سالانہ جلسہ کیا کرتے تھے اور میرا باپ ’’صالحوں‘‘ مجھے کان سے پکڑ کر اپنی گھوڑی پر بٹھا کر لے جایا کرتا تھا۔ میں نے دس گیارہ بار سید صاحب کے باطن خداوندی سے قرآن حکیم سنا تو میرے دل کی دنیا بدل گئی اور بچپن کے وہ نقوش ان مٹ شکل میں آج ۷۰ سال بعد بھی مٹائے نہیں مٹ سکتے۔ سید صاحب دنیا سے رخصت ہوگئے اور میں زمانہ حال سے انھیں آوازیں دیتا رہا۔
میں نے محمد ترکھان کو مزید کچھ کہنے کا عندیہ دیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ اس نے سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کی معیت میں گزرے ہوئے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’میں شاہ صاحب مرحوم و مغفور کو بھلائے نہیں بھول سکا وہ میرے من کی دنیا کے بادشاہ تھے۔ علاقے میں گوندل بار اور کڑانہ بار کے ہیرو کوئی اور لوگ ہوں گے۔ میرے من کی دنیا کا سرتاج سید رحمتہ اﷲ علیہ ہے وہ میرے لیے ایسا سامان چھوڑ گئے کہ میں گدا نہیں بادشاہ ہوں۔ میرے لیے حافظ اولاد اور افراد خاندان کا بہترین سرمایہ حیات ہیں۔ جب رات کے پچھلے پہر کوئل کو کتی ہے تو مجھے اپنے مالک اور خالق کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور میں کائنات کے والی پردرود و سلام بھیجتا ہوں جس کو بلال حبشی رضی اﷲ عنہ بھلائے نہ بھول سکا‘‘
محمد ترکھان اگرچہ چٹا ان پڑھ تھا اس کی پونجی فقط سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی محبت اور عقیدت اور ان کے زیرِ اثر اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے دیوانگی کی حد تک پیار اور محبت تھا۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی محبت اسے اپنے مذہب سے بہت حد تک واقف کار بنا گئی تھی کہ وہ بہت سی عالمانہ باتیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے شہادت کی بات کی کہ راہ خدا میں جان قربان کرنا اسلام کی سب سے بڑی عبادت ہے تو اس نے معلومات اور علمی باتوں کا دریا بہادیا۔ اس نے فلسفہ جہاد و شہادت پر عالمانہ روشنی ڈالی۔ وہ یہ کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہادت کے بے حد متمنی ہوا کرتے تھے۔ وجہ اس شوق اور ولولہ کی یہ تھی کہ وہ ایمان لانے سے پہلے اپنی مرضی کی زندگی گزارتے رہے تھے۔ مثلاً حضرت عمر رضی اﷲ عنہ قبل از اسلام سخت زندگی گزارتے رہے اور من مانی کرتے رہے۔ بعداز اسلام انھیں یہ احساس ہوا کہ سابقہ زندگی سے دامن چھڑانے کا امکانی ذریعہ یہ ہے کہ اﷲ کی راہ میں جان قربان کردی جائے۔ لہٰذا دعا کرتے ہیں کہ انھیں اﷲ شہادت کی موت دے اور مدینہ طیبہ کی پرنور بستی میں شہادت کی موت دے۔ کیونکہ اس طرح ان کے لیے راہ نجات کا یقینی سامان ہوگا۔ اﷲ نے دعاقبول کی انھیں شہادت کی موت مدینۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں نصیب ہوئی۔ اور تیسری خوش نصیبی یہ ملی کہ انھیں محراب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں شہید کیا گیا۔ ترکھان نے اپنی بات کو پھر سے واضح کیا کہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے نمازِ عصر کے بعد دیکھا کہ ایک صحابی رضی اﷲ عنہ زاروقطار رو رہے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم گھبرا گئے اور اٹھ کر صحابی رضی اﷲ عنہ کے پاس آبیٹھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو اس نے جواب دیا کہ اس کے رونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قبل از اسلام معصوم بیٹی کو زندہ دفن کیا تھا اور اب بھی کبھی کبھار اس کے کانوں میں معصوم بچی کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے تسلی دی اور وہ آیتیں پڑھ کر سنائیں کہ توبہ کرنے اور ایمان لانے کے بعد اس کے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی صحابہ رضی اﷲ عنہم بخشش کا دارومدار شہادت کی موت پر سمجھتے ہیں۔ محمد ترکھان نے اپنے نقطہ نظر کو مزید واضح کیا کہ جنگ احد کی رات ۴؍شوال تین ہجری کو دو صحابی رضی اﷲ عنہما مدینہ کی حفاظت کے لیے پہرہ دے رہے تھے۔ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ عنہما تھے جو بدری صحابہ رضی اﷲ عنہ تھے اور آپس میں گہرے دوست بھی تھے۔ دورانِ پہرہ انھوں نے گفتگو کی کہ ایک دعا مانگنے اور دوسرا آمین کہے۔حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے دعا مانگی کہ اگلے روز میدانِ جنگ میں وہ شہید ہوجائیں اور ان کی نعش کامثلہ کیا جائے اور وہ اس حال میں اﷲ کے حضور پیش کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ پوچھیں کہ اے عبداﷲ تمہاری یہ حالت کیوں کی گئی تو میں جواب دوں کہ میرے مولا میری یہ حالت تیرے لیے کی گئی۔ جس پر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے آمین کہی۔ پھر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے دعا کی کہ وہ اگلی صبح میدان جنگ میں فاتح بنیں اور مالِ غنیمت حاصل کریں۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے اس پر آمین کہی۔ اگلے دن دونوں دعائیں قبول ہوئی۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کی مثلہ شدہ نعش کو دیکھ کر ان کا نوجوان فرزند سخت زار و قطار رونے لگا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے حوصلہ دلایا او رکہا کہ اﷲ تعالیٰ کے روبرو تیرے باپ کو اسی حال میں پیش کیا گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اسے شاباش دی او ریہ آیت پڑھ کر سنائی کہ ’’شہدا کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور تمھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں۔‘‘ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کی دعا قبول ہوئی اور وہ لشکر اسلام کے زبردست سالاربنے۔ لیکن کہا کرتے تھے کہ میری دعا سے عبداﷲ کی دعا بہتر تھی۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راہِ خدا میں شہادت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، محمد ترکھان نے بات کو او رآگے بڑھایا اور اُمتِ مسلمہ کو شہادت کا والد اور شہید ثابت کیا۔ اس نے بات بڑھائی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ میں ایک ہی میزبان تھے۔ وہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ وہ ۹۳ سال کی عمر میں ترکی کی قسطنطنیہ کی مہم میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے عہد میں شامل ہوئے۔مدینہ کے لوگوں نے انھیں کہا کہ آپ اس ضعیف العمری میں جہاد پر نہ جائیں کیونکہ طویل سفر ہے اور آپ کی عمر اور صحت کا تقاضا ہے کہ آپ جہاد پر نہ جائیں۔
مزید یہ کہ آپ رضی اﷲ عنہ واحد میزبان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں او رآپ کا مدینہ میں رہنا باعث برکت ہے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیاکہ میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو ترکی فتح کرے گا (نامی) ہوگا اور مزید مجھے شہادت کے حصول کا شوق ہے۔ مدینہ اور ترکی کا ۴ ہزار میل کا فاسلہ انھوں نے طے کیا اور شہادت پائی اور وہاں ہی دفن ہوئے۔
قسطنطنیہ وہ حیرت انگیز مقام ہے جسے آج کے عہدمیں استنبول بولا جاتا ہے۔ یعنی اسلام آباد۔ محمد ترکھان نے مجھے یہ بات بھی بتلائی کہ سیف اﷲ حضرت خالد بن ولید کے جسم کے روئیں روئیں پر ہر مروجہ ہتھیار کا زخم موجود تھا۔ لیکن وہ دل شکستہ حالت میں حمص کی ایک مسجد میں دمِ واپسیں کہہ رہے تھے کہ میں نے معلوم آدھی دنیا کو فتح کیا لیکن آج میں شہادت سے محروم اونٹ کی موت مررہا ہوں۔ محمد ترکھان کے منہ سے یہ عملی باتیں سن کرمیں حیران ہوا اور’’ مصحف صالح ترا صالح کند‘‘ کا قائل ہوا کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری مرحوم جہاں سے گزرے گلو گیر چھوڑ گئے اور ان پڑھ لوگ بھی ان کی محبت سے عالمِ دین کی طرح باتیں کرنے لگے۔
(مطبوعہ: ماہناہ اردو ڈائجسٹ لاہور، جون ۲۰۱۶ء،صفحہ ۶۹ تا ۷۲)