پروفیسر خالد شبیر
آف شور کمپنیوں کے شور کے پیچھے ایک اور شور بھی ہے اور وہ شور نہیں بلکہ اب شر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سیاسی رقابت اپنے پورے عروج پر ہے۔ اس عروج کے پیچھے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ پھر وہی کچھ ہونے والا ہے جو پہلے ہوا تھا، یہ ملک کے لیے ایک خطرناک صورت حال ہوگی۔ اس ملک کے سیاسی پنڈتوں کی بیان بازی نے ہر محب وطن شہری کی نیند حرام کر کے رکھ دی ہے۔ اس بیان بازی میں نہ شعور ہے نہ تدبر نہ تفکر۔ بس اپنے اپنے مورچے میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر اپنے دلوں کی کدورت کے تیر چلائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج ملک اور وطن کے لیے کیا ہونگے۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ جو دراصل جنگ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی سازش تھی جس میں خود اس وقت کے ہمارے سیاست دان بھی برابر کے شریک تھے۔ اس حادثے کا ہدف بھی وفاق بنا کہ ایک صوبہ، مرکز یعنی وفاق سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا اور آج کی موجودہ سیاسی ابتری میں بھی خدشہ یہی ہے کہ اس سے بھی نقصان وفاق کو ہی ہوگا۔ کیونکہ کچھ سیاسی جماعتوں کی توپوں کا رخ وفاق کی طرف ہے۔ اب صوبے وفاق کو چیلنج کررہے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوا، جیسا کہ وہ چاہتے ہیں اور ستم یہ ہے کہ (وہ کیوں چاہتے ہیں اور کیا چاہتے اسے خود بھی نہیں جانتے) تو پھر وفاق ٹوٹ جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا جس کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت پر ہوگی۔ یہ صورت حال دیکھ کر دل غم واندوہ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب ڈوب جاتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ فقط اس لیے کہ یہ لوگ جوبزعم خویش اپنے آپ کو آسمان کے ستارے سمجھتے ہیں دراصل آسمان سے برسنے والے آگ کے انگارے ہیں۔ اور انگارے اس لیے بن گئے ہیں کہ انھیں اس ملک کے استحکام سے کوئی سروکار نہیں اور اس کی وجہ بھی ایک ہی ہے کہ اس ملک کو غلامی سے آزاد کرانے میں ان تمام جماعتوں کے کوئی کردار تھا اورنہ ہی ان کے آباؤاجداد کا کوئی حصہ۔ بلکہ یہ حکمران ان لوگوں کی اولادیں ہیں جو انگریزوں کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے اپنے وطن کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے۔ان سے مراعتیں اور خطاب حاصل کیے۔ مربعے حاصل کر کے اپنی معاشی حیثیت کو مضبوط بنا کر انگریزوں کے گماشتوں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے دست و بازو بنے۔ اب انھی کی اولاد نے مختلف سیاسی جماعتیں بنا کر اس انتہائی قیمتی ملک جو کہ حریت پسندوں کی قربانی ان کی جان فروشی اور ان کی مسلسل انگریزوں سے بغاوت کے نتیجے میں بنا اس پر آج حکومت کافریضہ ادا کرتے نظرآرہے ہیں۔ انھیں کیا پتہ کہ آزادی کیسے مشکل مراحل طے کر کے حاصل کی گئی تھی۔ انگریز جس نے اس ملک پر قبضہ کر کے دنیا کے آدھے سے زیادہ ملکوں کو اپنی غلامی کا شکار بنالیا اس ملک کو نوے سال سے زیادہ غلام نہ رکھ سکا۔ انگریز کے ان خوشہ چینوں کا اس طرح سیاست کے میدان میں اہم مقام حاصل کرلینا ان کی تو جیسے اربوں کھربوں کی لاٹری نکل آئی ہو۔
بلاول صاحب، زرداری صاحب، نواز شریف صاحب، عمران خان صاحب، یا پھر ان کی اولاد سے کوئی ایک شخص بتا سکتا ہے کہ جنگ آزادی کے ہیرو کون لوگ تھے۔ مولانا اسحاق رحمہ اﷲ کے شاگرد مولانا عنایت اﷲ اور مولانا ولایت علی کون تھے اور ان کا انگریزوں کے خلاف جہاد میں کیا حصہ ہے۔ شاہ ولی اﷲ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز دہلوی کا فتوی جہاد کیا تھا۔ شاہ ولی اﷲ نے احمد شاہ ابدانی کو ہندوستان کیوں بلایا۔ پانی پت کی تیسری جنگ ۷۶۱اء میں کیوں اور کن کے خلاف لڑی گئی۔ جنگ پلاسی میں کیا ہوا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بہادر شاہ کے دو جرنیل جنرل احمد اور جنرل بخت کون تھے؟تحریک ریشمی رومال کی غرض و غایت کیا تھی، شیخ الہند محمود حسن ’’کالاپانی‘‘ کیوں قید ہوئے، جو علماء آزادی کی تحریک میں سرپر کفن باندھ کر انگریزوں کے خلاف لڑے وہ اس مادر پدر آزاد جمہوریت کے لیے لڑے تھے یا پھر احیائے اسلام کے لیے؟ یہ ۱۹۳۶-۳۷ء میں انگریز نے جو جمہوریت کا کھلونا آپ کو دیا، سوچو اس کھلونے نے آپ کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا ہے، احیائے اسلام کی تحریکوں سے ہم جمہوریت کی وجہ سے اس خلفشار تک آئے ہیں جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ سوچنا پڑے گا کہ اس جمہوریت نے ہم سے کیا لیا ہے اور بدلے میں کیا دیا ہے۔یہ کرپشن بھی تو اسی جمہوریت کے بطن سے ہی پید اہوئی ہے جس نے ملک کو ایک تماشہ بناکے رکھ دیا ہے۔
کِتھو چل کے کِتھے آئے کون سنے تے کون سنائے
نویں تھاں و ساون لئی گیت خوشی دے گاون لئی
اپنا آپ سجاون لئی اپنے اپنے گھر چھڈے سن
کجھ وی راس نہ آیا سانوں جو وی کیتا
آپ ای کیتا اپنے نال کر لیا مندا حال
اینج رل گئے آں اسیں ایتھے جیویں پیار نبھاون لئی
سسی رلی تھل دے اندر