پروفیسر توحید الرحمن خان
شہرِ نبی کی گلیوں کو سنسان دیکھ کر
حیراں بہت وہب ہوئے یہ ماجرا ہے کیا
مردانِ حق پرست سے خالی ہے شہر کیوں
غائب ہیں کیوں دیار سے سب لوگ با صفا
جلوہ فگن کہاں ہیں رسالت مآب آج
ہے نور بیز کس جگہ وہ شمعِ حق نما
پھرتے تھے راستوں پہ یہی سوچتے ہوئے
;درپیش ان کو آج معمہ عجیب تھا
دامن ابھی تھا دولتِ ایمان سے تہی
قلبِ سلیم واقفِ دردِ وفا نہ تھا
وہ بیچنے نواح سے آئے تھے بکریاں
مقصد یہاں ورود کا اس کے سوا نہ تھا
بارے کھلا کہ رحمتِ عالم کے ہم رکاب
کوہِ احد پہ ساتھی ہیں سب تیغ آزما
دینِ خدا کو جڑ سے مٹانے کے زُعم میں
بد مست ہو کے جیشِ عزازیل آگیا
میدانِ کار زار میں پہنچے یہاں سے آپ
ایماں کے ا س سفر میں بھتیجا بھی ساتھ تھا
حاضر ہوئے جنابِ رسالت مآب میں
یوں صدقِ دل سے آپ نے اظہارِ حق کیا
میں مانتا ہوں ربِ جہاں لا شریک ہے
میں مانتا ہوں آپ ہیں پیغمبرِ خدا
ڈالی نظر عدو پہ سعادت سمیٹ کر
جوشِ غضب سے خونِ وہب موجزن ہوا
دیوانہ وار گھس گئے قلبِ غنیم میں
اس وقت سر پہ شوقِ شہادت سوار تھا
شمشیر تاب دار سے صف چیرتے گئے
دشمن کو ان کے غیض سے بچنا محال تھا
برقِ تپاں تھے خرمن کفار کے لیے
میداں میں ان کی تیغ تھی ہر سمت شعلہ زا
واﷲ ان کی شانِ تہور تھی دیدنی
کہتے تھے آسماں پہ ملائک بھی مرحبا
آخر کو مشرکین نے اک چال یہ چلی
ان کو چہار سمت سے گھیرے میں لے لیا
تھے سر بسر نبی کے صحابی فگار اب
سارے بدن پہ تیغ کے چرکے تھے جا بجا
آخر کو چور زخموں سے ہو کر گرے وہب
آخر کو وقتِ جامِ شہادت بھی آ گیا
تشریف انکی لاش پر لائے حضور خود
فرمایا ـ’’تجھ سے دوست رضامند میں ہوا‘‘
نطقِ نبی سے ان کی رضا کی نوید لی
آئے تھے ڈھور بیچنے جنت خرید لی