پروفیسر خالد شبیر احمد
دین اسلام نے کیا کچھ نہیں دیا۔ کاش ہم دین اسلام کی راہ پر چلتے لیکن ہم نے تو زندگی کے ہر ایک پہلو میں خواہ وہ معاشی ہو یا پھر سیاسی ، تمدنی ہو یا پھر اخلاقی، اسلام سے عملی بغاوت کر کے اپنے آپ کو نفاق وافتراق کی بے پناہ گہرائیوں میں گرالیا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کی جو صورت حال ہے اس کو نثر میں بیان کرنا قدرے مشکل نظر آتا ہے۔ شدت احساس کی عکاسی اشعار کی صورت میں مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے اور بہتر طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے ملکی حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ اور ہمارے ملک کے اندر کیا صورت حال ہے۔
خزاں چمن پہ چھا گئی بہار اشک بار ہے ادھر بھی انتشار ہے ادھر بھی انتشار ہے
پھول پھول وادیاں زمیں میں دب کے رہ گئیں بشر بشر الم زدہ ہے شہر سوگوار ہے
قدم قدم پہ کربلا ادھر لہو ادھر لہو برس پڑا فلک سے خوں زمیں خوں فشار ہے
آخری امت کو نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغام پہنچایا تھا وہ ہماری عملی زندگی کے لیے ہر لحاظ سے باعثِ خیر و برکت تھا۔ قرآنِ مجید خالق کائنات کی طرف سے گراں قدر عطیہ تھا اور آج بھی ہے جس کے مسلمہ اور فطری اصول جس طرح اس وقت مؤثر تھے آج بھی ہیں۔ قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ اس طرح ہے:
’’تم ان لوگوں کی طرف نہ ہو جانا جو واضح ہدایات کے باوجود تفرقہ اور اختلاف کا شکا رہوئے او رعذاب عظیم میں مبتلا ہوگئے‘‘
اتفاق واتحاد جس طرح گھر سے لے کر ملکی سطح اور بین الاقوامی سطح تک باعثِ عزت وافتخار ہے اسی طرح نفاق و افتراق باعثِ ندامت و زحمت ہوتا ہے۔
ملک کے اندر جب اتفاق، یکجہتی، تعاون اور حسنِ سلوک نہ رہے تو ایسے ہی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن سے ہمارا ملک جو بڑی جدوجہد اور قربانیوں سے بنا تھا گزر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے بڑا نقصان قومی سطح پر ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ منزل نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم کس منزل کے راہی تھے کن مقاصد کے حصول کے لیے کس طرف چلے تھے او رکدھر کو ہم نے منہ کر لیا ہے۔
اس وقت ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو بالکل نظر انداز کر چکے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ملک پامانہ سے جو فتور آف اشور کمپنیوں کے عنوان سے ایک طوفان کی صورت اٹھا ہے اس نے ہمارے ملک کو بھی پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سر جوڑ کر ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کا کوئی حل نہیں کرتے۔ ہمارے سیاست دانوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنے جماعتی مفاد، ذاتی اغراض کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقعہ سمجھ کر ایک دوسرے کے خلاف اپنے آپ کو صف آرا کر لیا ہے۔ یعنی ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد کے حصول کے ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو سرے سے قبول ہی نہیں کیا۔ایسے حالات پیدا کرنے کی ہر کوشش کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ مقاصد عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔ جس کے بعد ہم سیاست کے میدان میں جو چاہیں کرتے رہیں۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے پاک و ہند کے مسلمانوں کا مقصد محض قیام پاکستان نہیں تھا بلکہ مقاصد کے حصول کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت تھی۔جس کے ذریعے وہ اپنا ملی تشخص برقرار رکھنا چاہتے تھے اور اس تشخص کے تقاضے کے تحت پاکستان کے اندر اسلام کے نفاذ اور اتحاد بین المسلمین کی منزل تک پہنچنا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حزب اقتدار کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے نہ حزب اختلاف کو۔ قومی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ دونوں سیاسی دھرے یکساں طور پر اس شدید اختلاف کو دیدہ و دانستہ پیدا کرنے کے مجرم ہیں۔ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں شاید اب سیاسی جماعتیں نہیں رہیں ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت کے دو قبائل ہیں جو ایک دوسرے سے سر بگریباں ہیں۔ نہ انھیں اپنی عزت اور نیک نامی کا خیال ہے اور نہ ہی ملکی وقار و شہرت کا کچھ دھیان۔ اقتدار کی کرسی ہلا کر اقتدار والوں کو گرانے کی کوشش نے اقتدار والوں کو محض اور صرف اپنی کرسی بچانے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ نہ صاحبِ اقتدار کو اپنے فرائض کا احساس ہے نہ حزب اختلاف کو۔ اور احساس ہو بھی تو کیونکر کہ انھیں تو پاکستان کی نعمت مفت مل گئی ہے۔ ان لوگوں کے اسلاف نے پاکستان کے قیام کے لیے کونسی قربانی دی ہے کہ یہ احساس ان میں پیدا ہوسکے۔ دونوں دھڑوں کو اس بات کی کیا پرواہ ہے کہ ان کی اس سرد جنگ کے اس ملک اور ملک کے عوام کے لیے کیا مشکلات اور کیا مسائل پید اہوسکتے ہیں اور ملک و قوم کے لیے کس قدر خطرناک صورت کا باعث بن سکتے ہیں۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ اسے جمہوریت کا حسن قراردیا جارہا ہے۔ کیا یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ ایک دوسرے کے لیے مصیبت بن جاؤ۔ اجتماع، دھرنے، ہڑتالیں، راستے روک کر عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنا، پھر جماعتیں تبدیل کرنا کبھی کسی جماعت سے اتحاد کرلینا او ر اس اتحاد کو توڑ کر کسی دوسری جماعت سے کرلینا۔ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایک جماعت کو طلاق دے کر دوسری جماعت سے نکاح کرلینا کیا اسی کا نام جمہوریت ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوریت ہے کیا وہاں پر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ملک کی سیاست میں اس وقت ہورہا ہے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی اس مفاداتی سیاست نے اب عوام کے اندر دین سے دوری ہی نہیں بلکہ حب الوطنی کے جذبے کو بھی سرد کر دیا ہے۔ یہ سیاست دان دینی ذہن رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں جذبہ حب الوطنی موجود ہے۔ یہ سیاسی قیادت کا وہ تحفہ ہے جو انھوں نے اپنے عمل سے پاکستان کو عطا فرمایا ہے اور یہ صورت حال اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ہمارے سیاست دان خلفشار، نفاق، حرص و ہوس اور مفادات کی دلدل میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اس دلدل سے ان کا نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ایسے حالات میں ہمیں یہی کہنا پڑتا ہے کہ
کیسا وقارِ زیست پہ آیا زوال ہے قحط الرجال ہے یہاں قحط الرجال ہے
لابہ گروں کی زد پہ ہے تاج و سریر آج رہبر ہوئے ہیں گورکن اب ایسا حال ہے
اقبال تیرے خواب کی دنیا اجڑ گئی خطہ تیرے خیال کا رو بہ زوال ہے
ننگِ وطن ہی ان دنوں عزت مآب ہیں ہر عیب ہے، عروج پہ حزن و ملال ہے
دکھ زندگی کے روح کی تہہ تک اتر گئے جینا محال ہے مجھے مرنا محال ہے
شیریں سخن نہیں ہو تمہیں ایک واعظو سالوسِ بد نصیب بھی شیریں مقال ہے
شاخِ وطن کو چاہیے خونِ رگِ حسینؓ رمزِ حسینیت میں ہی اوج و کمال ہے
خالدؔ تیرے کلام میں ہے اس لیے گداز محور تیری نگاہ کا سوزِ بلال ہے