امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ
رات لیلۃ القدر بنی سنوری ہوئی نکلی اور خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرِِکی بانسری بجاتی ہوئی ساری دنیا میں پھیل گئی ۔ موکلان شب قدر نے مِنْ کُلِّ اَمرِِ سَلَام کی سیجیں بچھا دیں۔ ملائیکان ملاء الا علیٰ نے تَنَزَّ لُ الْمَآءِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا کی شہنائیاں شام سے بجانی شروع کردیں ۔ حو ریں بِاِذْنِ رَبِّھِمْکے پروانے ہاتھوں میں لے کر فردوس سے چل کھڑی ہوئیں اور ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِکی میعادی اجازت نے فرشتگانِ مغرب کو دنیا میں آنے کی رخصت دے دی ۔تارے نکلے اور طلوع ماہتاب سے پہلے عروسِ کائنات کی مانگ میں موتی بھر کر غائب ہو گئے ۔ چاند نکلا اور اس نے فضا ئے عالم کو اپنی نورانی ردائے سیمیں سے ڈھک دیا ۔ آسمان کی گھومنے والی قوسیں آپ اپنے مرکز پر ٹھہر گئیں ۔ بروج نے سیاروں کے پاؤں میں کیلیں ٹھونک دیں ۔ ہواجنبش سے‘ افلاک گردش سے ‘زمین چکر سے اور دریا بہنے سے رک گئے ۔ کارخانۂقدرت کسی مقدس مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لئے رات کے بعد اور صبح سے پہلے بالکل خاموش ہوگیا ۔ انتظام و اہتمام کی تکان نے چاند کی آنکھوں کوجھپکا دیا ، نسیم سحری کی آنکھیں جوشِ خواب سے بند ہونے لگیں ۔ پھولوں میں نگہت ،کلیوں میں خوشبو ، کونپلوں میں مہک محوِ خواب ہوگئی ۔ درختوں کے مشام خوشبو ئے قدس سے ایسے مہکے کہ پتا پتا مخمور ہو کر سربسجود ہوگیا ۔ ناقوس نے مندروں میں بتوں کے سامنے سرجھکانے کے بہانے آنکھ جھپکائی ۔برہمن سجدے کے حیلے سر بہ زمین ہوگیا۔ غرضیکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور قطرہ قطرہ ایک منٹ کے لئے غیر متحرک ہوگیا ۔ اس کے بعد وہ لمحہ آگیا ،جس کے لئے یہ سب انتظامات تھے ۔ فرشتوں کے پرے خوشیوں سے بھرے آسمانوں سے زمین پر اترنے لگے اور دنیا کے جمود میں ایک بیدارانقلاب پوشیدہ طور پر کام کرتا ہوا نظر آنے لگا۔ ملہم غیب نے منادی کی کہ افضل البشر ، خاتم الانبیاء ، سراپردۂ لاہوت سے عالم ناسوت میں تشریف لانے والے ہیں ۔ رات نے کہا : میں نے شام سے یکساں انتظار کیا ہے کہ اس گوہرِ رسالت کو میرے دامن میں ڈال دیا جائے ۔ دن نے کہا : میرا رتبہ رات سے بلند ہے ، مجھے کیوں محروم رکھا جائے ۔ دونوں کی حسرتیں قابلِ نوازش نظر آئیں ۔ کچھ حصہ دن کا لیا ، کچھ رات کا ۔ نورکے تڑکے نورعلیٰ نور کی نورانی آوازوں کے ساتھ دستِ قدرت نے دامنِ کائنات پر وہ لعل با بہار رکھ دیا ، جس کے ایک سرسری جلوے سے دنیا بھر سے ظلمت کدے منور اور روشن ہوگئے ۔ سرزمین حجاز جلوۂ حقیقت سے لبریز ہوگئی۔ دنیا جو سرورد جمود کی کیفیت میں تھی اک دم متحرک نظر آنے لگی ۔ پھولوں نے پہلو کھول دیے ، کلیوں نے آنکھیں وا کیں ، دریا بہنے لگے ، ہوائیں چلنے لگیں ، آتش کدوں کی آگ سرد ہوگئی ، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی ، لات و منات ،حبل و عزّا کی توقیر پامال ہونے لگی، قیصر وکسریٰ کے فلک بوس بروج گر کر پاش پاش وگئے ، درختوں نے سجدۂ شکرسے سر اٹھایا ، رات کچھ روٹھی ہوئی سی ،چاند کچھ شرمایا ہواسا ،تارے نادم و محجوب ہوکر رخصت ہوئے اور آفتاب شان و فخر کے ساتھ مسرت و مباہات کے اجالے لئے ہوئے کرنوں کے ہارہاتھ میں ، قندیل نورتھال میں ، ہزاروں ناز وادا کے ساتھ اُفقِ مشرق سے نمایاں ہوا، حضرت عبداللہ کے گھر میں ، آمنہ کی گود میں ،عبدالمطلب کے گھرانے میں ،ہاشم کے خاندان میں اور مکہ کے ایک مقدس مکان میں خلاصۂ کائنات ،فخر موجودات ، محبوب خدا، امام الانبیاء ، خاتم النبیین ، رحمۃ اللعلمین یعنی حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ا تشریف فرمائے بصد عزو جلال ہوئے۔ سبحان اللہ ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ کتنی مقدس جس نے ایسی سعادت پائی اور پیر کاروز کتنا مبارک تھا جس میں حضورا نے نزولِ اجلال فرمایا :
فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ