محمد وقاص حیدر
آج سے 75سال قبل 1945میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا تھا کہ ”خالق کا نظام مخلوق کے لیے“ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت غور کیا لیکن مجھے ”الحمد“سے ”والناس“تک کہیں بھی یہ نہیں ملا کہ مسلمان غیر مسلم کی رعایا بن کر کیونکرزندگی بسر کریں۔البتہ اسلامی حکومت میں غیر مسلم کے ساتھ طرزِ عمل کا ذکر ضرور ملتاہے،افسوس ہے کہ ایک ایسی قوم جو کرہئ ارض کی حکومت کے لیے پیدا کی گئی ہے آج سرابِ منزل میں گرفتار ہو کر سیدھی راہ بھٹک چکی ہے۔اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے حضرت شاہ جی کی جد وجہد پر ایک نظر۔
آزادیئ ہند کی تحریک میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کیلئے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لا زوال و بے مثال ایثار وقربانی اور ایمان وعزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احراراسلام سر فہرست ہے، جس کی جرأت استقامت بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر درج ہیں، یہ وہ وقت تھا کہ امت مسلمہ میں غلامی کے مسموم اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے اور جاہل صوفیوں ان پڑھ عاملوں اور بد کردار گدی نشینوں کے ہتھے چڑھ کر عقل و بصیرت اور ایمان وعصمت کے گو ہر آب سے محروم ہورہے تھے، ہندوآنہ رسوم ورواج توہمات وخرافات سرعت کے ساتھ پروان چڑھ رہاتھا،بزدلی بے دینی اسلامی اخلاق وتعلیمات سے دوری مسلمانوں میں اپنے قدم جمارہی تھی، جبکہ انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبہ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کیلئے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا، ایسے سنگین حالات کے پیش نظر اسلام کے مصدقہ اصولوں کے تحت ایک بہادر اور جری دینی عوامی جماعت کی اشد ضرورت تھی،جو مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقات کے غیور اور جفاکش لوگوں کی اپنی آواز ہو، غیر مسلم جماعتوں کی شر انگیزیوں اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں کا سد باب کرے،اسی سلسلہ میں 29 دسمبر1929 کودریائے راوی کے کنارے لاہور میں تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے رہنماؤں بطل حریت،جرأت وغیرت کے مینار، امیر شریعت حضرت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ، رئیس الاحرار مولاناحبیب الرحمان لدھیانویؒ،مفکر احرار چودھری افضل حقؒ، شیخ حسام الدینؒ، مولانا مظہرعلی اظہرؒ، سید محمدداوؤد غزنویؒ مولانا ظفرعلی خانؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ جیسے سربکف وجان باز مجاھدوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک نئی انقلابی جماعت کے قیام کا اعلان کیا، عوام نے مسر ت آمیز جذبات کے ساتھ اس کا پر جوش خیر مقدم کیا، بطل حریت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری قافلہئ احرار کے اوّلین سالار اور حدی خواں مقرر ہوئے۔کفن بردوش سرخ پوش مجاھد سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے بغاوت کیلئے شھادت کے گیت چھیڑ کر میدان عمل میں قدم رکھنے کیلئے رواں دواں ہوئے، جبکہ مقابلہ میں انگریز سامراج اپنے تمام تر ظلم واستبداد اور قہر سامانی کے ساتھ تعذیب خانوں کے دروازے کھول دیئے گئے، پھانسی کے تختوں، مشین گنوں، لاٹھی چارج، پولیس، فوج، ڈندا فورس سے لیس ان وفا شعار مجاھدوں اور جفا کش رضا کاروں کے استقبال کیلئے موجود تھا، ادھر مجلس احراراسلام کے قیام کے اگلے سال ہی قادیانی مرزا بشیرالدین نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرکے کشمیر کو مرزائی سٹیٹ بنانے کی سازش کی تو مجلس احراراسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا،قادیانی سازشیں بڑھ رہی تھیں اور قادیان کو مسلمانوں کیلئے نو گو ایریا بنادیا گیا تھا، اس کے توڑ کیلئے مجلس احراراسلام نے قادیان میں سب سے پہلے اپنا دفتر قائم کر کے اس جمود کو توڑا،اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی الوالعزم قیادت میں احرار کا جانثار قافلہ قادیان میں داخل ہوا 11,12,13,رجب 1353ھ،مطابق21,22,23, اکتوبر 1934ء بروز اتوار، سوموار، منگل، قادیان میں 3روزہ احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہندوستان کے طول و عرض سے احرار کارکنوں اور علماء کرام مشائخ عظام نے شرکت کی،
احرار کی اس یلغار سے انگریز ی نبوت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا، مرزائیت کی غنڈہ گردی ختم ہوئی خصوصاً قادیان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز ہوگیا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی تین دن کی تقریروں نے استعماری ایجنٹ قادیانیوں کی چولیں ڈھیلی کر دیں، تحریک پاکستان بڑی شد و مد سے چل رہی تھی اسی اثنا ء میں قادیانیوں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے تقسیم ہند کا ایک علیحدہ فارمولہ پیش کر کے گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کی حیثیت متنازعہ بنانے کی سازش کی، اس سازش وتلبیس کے خلاف مجلس احراراسلام نے پورے ہندوستان میں احتجاج کیا اور بھر پور جدوجہد کی جبکہ مسلمانوں کی جماعتوں یونینسٹ اور مسلم لیگ کی چپ نے مرزائیوں کو اس سیاسی چال چلنے کا موقع دیدیا،قیام پاکستان کے بعد مجلس احراراسلام نے حکمت عملی اور پالیسی طے کی کہ مجلس احراراسلام عارضی طور پر ملک کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، جبکہ مجلس احراراسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کو تحرک بخشنے کا فیصلہ کیا۔1953 ء میں مرزائیوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش کے اگلے مر حلے پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے سازبازکرکے پاکستان کو تباہ کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی مذموم کوشش کی تو مجلس حراراسلام کے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کی مختلف مذہبی جماعتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت پر امن طور پر چلائی گئی، جبکہ اس وقت کی حکومت نے 5 مارچ 1953 ء کو لاہور میں مارشل لا ء لگا کر عاشقان ختم نبوت پر بڑی بے دردی سے گولیاں چلائیں،لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، ملتان،ساہیوال کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شمع رسالت کے پروانے لہو میں نہا گئے، بقول شورش کاشمیریؒ مرحوم،
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
بظاہراس تحریک کو کچل دیاگیا لیکن حضرت امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا کہ میں تو زندہ نہ رہوں گا، مگر تم دیکھوگے کہ شہیدوں کا خون بے گناہی رنگ لا کر رہے گا، میں اس تحریک کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ٹائم بم فٹ کرچکاہوں جو وقت آنے پر پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچاسکے گا، چنانچہ 1974 ء میں ایسا ہی ہوا تحریک تحفظ ختم نبوت بھر پور انداز میں چلی اور قادیانی و لاہوری مرزائیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد غیر مسلم قرار دیدیا گیا، جبکہ 26 اپریل 1984 ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانونا ًروک دیا گیا تحریک تحفظ ختم نبوت کے تناظر میں آج بھی مجلس احراراسلام قائد احرار حضرت پیر جی سید عطا ء المہیمن بخاری،جناب سید محمد کفیل بخاری،جناب پروفیسر خالد شبیر احمد،جناب عبداللطیف خالد چیمہ،جناب میاں محمد اویس، جناب سید عطاء اللہ شاہ ثالث،جناب قار ی محمد یوسف احرار،جناب ڈاکٹر عمرفاروق احرار اورمولانامحمد مغیرہ کی پرعزم اور بے داغ قیادت میں سرگرم عمل ہیں، اور 29دسمبر2020ء کو پورے 91برس جماعت کو بنے ہوئے ہو جائیں گے، اسی دن کی مناسبت سے منگل کو لاہور، ملتان، چیچہ وطنی، ساہیوال، بوریوالا، چناب نگر، ٹوبہ، کراچی، گجرات، گجرانوالہ، رحیم یار خان، تلہ گنگ،، ڈیرہ اسماعیل خان، حاصل پور، جتوئی، اور دیگر مقامات پریوم تاسیس احرارکی پر وقار تقریبات پرچم کشائی منعقد ہوں گی جن میں قافلہئ احرارکورواں دواں رکھنے کے لیے تقاریروبیانات ہوں گے اورسرخ پوشان احرار سرخ پرچم کے سائے میں تجدید عہد کریں گے اوردنیا پر واضع ہوجائے گا کہ
ہیں احرارپھرتیز گام اللہ اللہ ہوئی تیغ حق بے نیام اللہ اللہ