عبداللطیف خالد چیمہ
تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد حریت پسند رہنماؤں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، چودھری افضل حق، مولانا ظفر علی خان، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی اظہر، عبد الرحمن غازی، شیخ حسام الدین رحمتہ اﷲ علیہم اور دیگر نے 29؍ دسمبر 1929ء کو لاہور میں دریائے راوی کے کنارے ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی۔ بنیادی مقاصد قیام حکومت الہیہ، انگریز سامراج کے ہندوستان سے انخلاء اور عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ طے ہوئے، پھر ہندوستان کے عوام کے دلوں سے برطانوی سامراج کا خوف اتار پھینکا اور آزادیٔ وطن کے لیے ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد تمام اختلافات کو ختم کر کے حفاظت وطن کے لیے سربکف ہو گئے، انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کر کے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ملک کو قادیانی ریاست بننے سے بچانے کے لیے مارچ 1953ء میں تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت چلائی، دس ہزار فرزندان اسلام کی قربانی دی، جماعت پر پابندی لگ گئی، 1958ء میں چند روز کے لیے پابندی اٹھی تو حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ نے بیماری وضُعف کے باوجود سرخ قمیض پہن کر، احرار رضاکار کا بیج اپنے بازو پر سجا کر ملتان میں پرچم کُشائی فرمائی اور جماعت کے احیاء کا اعلان کیا۔ احرار کی بحالی میں دشمن کی چیرہ دستیوں اور اپنوں کی مسلسل بے وفائیوں نے مُشکلات پیدا کیں۔ مگر یہ قافلۂ سخت جاں نئی صف بندی کر کے محض اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جہاں تک پہنچا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ بہت سی غلطیوں اور دشواریوں کے باوجود ہم روز بروز دو قدم آگے بڑھ رہے ہیں، دشمن تو دشمن اپنا کہلوانے والے اب تک کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے اور جوں جوں شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کی سرگرمیاں ترقی پذیر ہیں، توں توں طرح طرح کے بہتان تیز رفتاری سے لگ رہے ہیں۔ ایسے میں احرار صبر کے راستے پر گامزن ہیں۔ اﷲ کی مدد ہمارے ساتھ ہے اور یہی ہماری کامیابی ہے۔ وفادارانِ احرار اِن شاء اﷲ تعالیٰ 29 ؍ دسمبر 2019ء اتوار کو ’’یوم تاسیس احرار‘‘ منائیں گے اور تجدید عہد کریں گے کہ اِس قافلۂ ختم نبوت کو ہم سب نے مل کر چلانا ہے اور 2029ء میں ملک گیر اجتماع کارکنان احرار منعقد کرکے حق کا بول بالا کرنا ہے۔ اِن شاء اﷲ تعالیٰ