بھارت سے پاکستان کو ایک بات سیکھنی چاہیے۔ بھارت میں گاندھی جی سے سیاسی اختلاف رکھنے والے امبیڈکر، بھگت سنگھ، ساورکر اور بوس برادران کا ذکر بھی نصابی تاریخ میں ہے اور ان کی تصاویر بھی بانیانِ قوم کے طور پر قوم کو دکھائی جاتی ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ “شخصی آمریت” کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اجتماعی فیصلوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ تصاویر وہ علامتیں بنتی ہیں جو ایسے سیاسی رجحانات اور مانڈسیٹ کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں کہ کوئی “فردِ واحد خود کو نجات دہندہ سمجھ کر آمر بن بیٹھے” یا عوام اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے کسی امام مہدی کے انتظار میں لمبی تان کر سو جائے۔ بھارت میں گاندھی کے ساتھ ساتھ گاندھی کے حریف رہنماوں کو بھی عزت دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی نیم فاشسٹ جماعت بھی “سب کا ساتھ سب کا ویکاس” کی بات کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
لہٰذا پاکستان میں بھی بھارت کی طرح قائداعظم کی “ایمان اتحاد تنظیم” کے ساتھ ساتھ باچا خان کی “عدم تشدد” کی تعلیمات کی بھی سرپرستی کی جانی چاہیے۔ پاکستان میں بھی مولانا عنایت اللہ المشرقی جیسے ڈسپلن کو مثال بناکر پیش کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بھی سید عطا اللہ شاہ بخاری کی جدوجہدِ آزادی قوم کو بتانی چاہیے۔
اگر پاکستان میں ایپی فقیر کی گوریلا جنگ کا ذکر ہوتا تو جنرل نیازی کو ہتھیار پھینکنے کی مثال نہ ملتی۔ اگر پاکستان میں مولانا مشرقی کو پڑھایا جاتا تو ترکی کی طرح پاکستان میں بھی مارشل لاوں کا راستہ روکنے والی منظم سول سوسائٹی ہوتی۔ اگر پاکستان میں عطا اللہ شاہ بخاری کو ہیرو بنایا جاتا تو ذات برادری ازم کی بجائے ورکنگ کلاس کے ایشوز کی سیاست ہوتی۔ اور باچا خان کو پڑھایا جاتا تو ہم سب میں ایک دوسرے کے لیے برداشت ہوتی۔
میرے نزدیک، سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سول اور فوجی آمروں نے قائداعظم کی اکیلی تصویر کا استعمال صرف شخصی آمریت کے لیے کیا ہے۔
اگر ہم نے اسکندر مرزا، ملک غلام محمد اور غلام اسحاق خان جیسے سول بیوروکریٹ حکمران دیکھے تو وہ بھی خود کو مسیحا سمجھنے والے ڈکٹیٹر نکلے تھے۔
اگر ہم نے جرنیل دیکھے تو وہ بھی ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کی طرح خود کو مسیحا سمجھنے والے ڈکٹیٹر نکلے تھے۔
اگر ہم نے جمہوری حکمران دیکھے تو وہ بھی لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو اور نواز شریف (پہلے دو ادوار) جیسے ڈکٹیٹر نکلے تھے۔ حتیٰ کہ اب تو ہم نے کٹھ پتلیاں بھی عمران خان جیسی ڈکٹیٹر دیکھی ہیں۔
فردِ واحد کو ہیرو ماننے والے کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم نے فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی جیسے شریک بانیاںِ پاکستان کو بھی غدار کا لقب دیا۔ اصغر خان جیسے محبِ وطن کی وفاداری پر بھی شک کیا۔ مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمٰن کو سچ مچ کا غدار بننے پر مجبور کیا۔ اور نواب اکبر خان بگٹی کو قتل بھی کردیا۔