فرحان الحق حقانی
بلاشبہ اسلام ہر انسان کے جان و مال کے تحفظ کا ضامن ہے۔ تمام انسانوں کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ اسلام کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے ماتحتوں پر ظلم کرے یا انہیں غلام بنا کر رکھے۔ انسانی جان و مال کے تحفظ پر مشتمل اسلامی عائلی قوانین کی موجودگی میں کسی بھی معاشرے کو نئے قوانین بنانے کی ضرورت پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے باوجود گذشتہ دنوں وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایوان بالا (سینٹ) میں ڈومیسٹک وائیلینس بل (گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کا بل) کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔ معاشرے کے ہر فرد کو تحفظ فراہم کرنے کے متعلق حکومتی سوچ اور اقدام واقعی قابل ستائش ہے، مگر اس کا طریق کار غلط اور نا قابل تسلیم ہے، کیونکہ ایکٹ کے مطابق والدین اپنی اولاد کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ کہ اس قانون کے نتیجے میں اولاد کے کسی معاملے میں شک کا اظہار کرنا یا کسی غلط کام پر منع کرنا، نافرمانی کی وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ کرنا جرم ہوگا۔ اسی طرح خاوند کا اپنی بیوی سے غصے سے بات کرنا اور اونچی آواز میں بولنا جرم تصور ہوگا۔ اس جرم پر والدین اور خاوند کو گھر سے دور رہتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہوں گی۔ اس پورے بل کا خلاصہ یہ ہے کہ گھر کے کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنے چھوٹے کو کسی غلطی پر سرزنش کرے۔ گھر کا ہر فرد اپنے معاملے میں آزاد ہوگا، چاہے گھر کا نظام ہی کیوں نہ برباد ہو رہا ہو۔ اسی طرح لڑکے، لڑکیوں کو کھلے عام ملنے جلنے اور ان کے ناجائز تعلق کو تحفظ دینے، والدین کا بچوں کو اچھے برے سے ڈانٹنے پر والدین کیخلاف قانونی کار روائی اور بیوی کی شکایت پر خاوند کو کڑا پہنانے اور ہتھکڑیاں لگانے سے معاشرہ ٹھیک ہونے کی بجائے مزید تباہی کا شکار ہوگا۔ لامحالہ یہ بل خاندانی نظام کو تباہ کرنے، خونی رشتوں کا پاس ختم کرنے اور معاشرے میں بے حیائی کی کھلی اجازت دینے کے مترادف ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ بعض خاندانی روایات میں عورتوں پر بلاوجہ ظلم کرنے اور وٹہ سٹہ نامی ایسی رسومات شامل ہیں جن کا سد باب انتہائی ضروری ہے مگر گاؤں اور دیہات کے اکا دکا پر تشدد واقعات کو بنیاد بنا کر ایسے قوانین متعارف کروانا جن میں رشتوں کا تقدس ہی نہ رہے، نا قابل تسلیم ہیں۔ گھریلو تشدد بل کی مخالفت کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ گھر کے سربراہ کو کھلے عام تشدد کی اجازت دے دی جائے یا شوہر کو اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی بیوی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ یہاں تنقید صرف طریقہ کار پر ہے۔ کیا ہی خوب ہوتا کہ ان قوانین کو مغرب کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرنے کی بجائے اسلامی عائلی قوانین اجاگر کئے جاتے اور اس پر عملدرآمد کروانے کی مہم چلائی جاتی۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا کہ مذہبی طبقہ کی جانب سے بھی اس اقدام کو سراہا جاتا اور منبر و محراب سے بھی اس کی تائید کی صدا بلند ہوتی، مگر حکومت نے اسلام اور قوانین اسلام کو پس پشت ڈالتے ہوئے انتہائی سرعت کے ساتھ مغربی آقاؤں کے دباؤ میں آ کر مشرقی تہذیب کو مغربی تہذیب میں ڈھالنے کی کوشش میں غیر اخلاقی اور قرآن و سنت کے منافی قوانین پاس کر کے فکری غلامی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اگر واقعی خاندانی نظام کو بہتر بنانے کی سوچ اور نظریہ ہوتا تو قطعی طور پر اس طرح کا بل پاس نہیں ہوتا۔ اس بل کا مقصد مغربی آقاؤں کی غلامی میں بے حیائی کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔
اگر حکومت واقعی گھریلو شہریوں کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنا چاہتی تو اس کے کئی اور طریقے اور ذرائع ہو سکتے ہیں۔ اس کا ایک ذریعہ تو شعور پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ اگر میڈیا بار بار مثبت انداز میں شعور بیدار کرے تو کوئی بعید نہیں کہ معاشرہ انتہائی تیزی کے ساتھ امن و سکون کی راہوں کی جانب رواں دواں ہو سکے۔ اسی طرح پاکستانی ڈراموں میں خاندانی اور گھریلو جھگڑے اجاگر کرنے کی بجائے ان مسائل کا حل اور جھگڑے ختم کرنے کے طریقے بتائے اور دکھائے جائیں، زوجین کے درمیان ہونے والی معمولی معمولی باتوں کو نظر انداز کرنے پر ذہن سازی کی جائے، تو اس سے بھی انتہائی تیزی سے بہتری آنے کی امید ہے۔