مدثر حسین احمد
ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پر آج وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ۔ اس نوٹیفکیشن میں پرویز رشید صاحب کی وزارت سے چھٹی اور طارق فاطمی صاحب کے خراج کا کہا گیا ۔ ڈان اور سرل المیدا کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کیا گیا ہے ۔
فوج نے پچھلے نوٹیفکیشن کو رد کرنے والے ٹویٹ کو بھی ایک پریس ریلیز کے ذریعہ واپس لے لیا۔۔ ڈان لیکس کو قومی سلامتی کا مسلہ بتایا جا رہا تھا ۔ کمیٹی کی تحقیقات منظر عام پہ لائی جانی چاہیئں ۔بتایا جانا چاہیے کہ ڈان کی ایک سٹوری سے ملکی سلامتی کو کیا خطرات در پیش تھے جو کہ انڈیا ، افغانستان اور ایران سے درپیش خطرات سے بھی زیادہ مہلک ہو سکتے تھے ۔ وزیر اعظم کی بات ماننا جمہوریت کی فتح ہے لیکن یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ آخر اس نوٹیفکیشن اور پچھلے میں فرق کیا ہے ؟؟
جو ایکشن وزیر اعظم پہلے لے چکے ہیں اس کو نوٹیفکیشن میں شامل کروانے کا مقصد کیا ہے ؟
کیا آپ اتنے ہی پروفیشنل ہیں کہ نام شامل نا ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم کا نوٹیفکیشن ایک ٹویٹ سے رد کر دیں ۔ اور پھر بہادری ایسی کہ معمولی سی تبدیلی سے انے والے نئے آرڈر کو تسلیم کر کے اپنا کیا ہوا ٹویٹ واپس لے لیں ۔
قومیں نا انصافی سے برباد ہوتی ہیں ۔ آج تک پاکستان میں کسی بڑے مگرمچھ کو سزا نہیں مل سکی ۔ اور یہی روش اس بار بھی اختیار کی گئی ہے ۔ ایک کاروبار بند کر کے دوسرا چلا لینا سزا نہیں خوش قسمتی ہوتی ہے ۔ ملکی سلامتی کے معاملے پہ سزائیں بھی کچھ ایسی ہی دی گئی ہیں۔
اللّه اللّه کر کے پاکستان میں جمہوریت کی پیدائش ہوئی ہے ۔ لگتا ہے کے اس جمہوریت کا معدہ ل”کڑ ہضم پتھر ہضم” ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی رپورٹ بھی ردی کا ٹکڑا ثابت ہوئی تھی ۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں کہا تھا یہ اشرافیہ پاک فوج کو بھی پنجاب پولیس بنا کے چھوڑیں گے ۔
اللّه پاکستان اور اسکی عام عوام کا حامی و ناصر ہو ۔