منصور اصغر راجہ
باوثوق ذرائع کے مطابق چکوال انتظامیہ کی طرف سے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ قادیانیوں کے ساتھ ان کی شرائط پر تحریری صلح کر کے موضع دوالمیال کی متنازعہ مینار والی مسجد ان کے حوالے کردین۔ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں تاحال قید ۸۷؍مسلمانوں پر ذہنی ٹارچر کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب دوالمیال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے محمد نعیم کے قتل کی ایف آئی آر سیشن کورٹ کے حکم کے باوجود تا حال درج نہیں کی جاسکی ہے۔ علاقے میں اب بھی خوف و ہراس کی فضا برقرار ہے اور ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے باوجود سو سے زائد افراد غائب ہیں۔ دو روز قبل اہل علاقہ نے اجتماعی فیصلہ کیا کہ وہ کسی بھی صورت قادیانیوں سے صلح اور مینار والی مسجد سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ادھر قیدیوں کے ورثاء نے اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
چکوال سے باوثوق ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سانحہ دوالمیال کو ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے باوجود قصبے میں خوف و ہراس کی فضا ابھی تک برقرار ہے۔ مقامی افرد کو خدشہ ہے کہ پولیس کسی بھی وقت مزید گرفتاریاں کرسکتی ہے۔ قصبے کے سو سے زائد افراد اب تک غائب ہیں اور اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹے۔ جبکہ ۱۲؍ربیع الاول (۱۲؍دسمبر ۲۰۱۶ء) کوچکوال کے نواحی قصبے دوالمیال میں مسلمانوں اور قادیانیوں میں ہونے والے تصادم کے بعد گرفتار کیے گئے۸۷؍مسلمان ڈیڑھ ماہ بعد بھی جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں۔ ان گرفتار شدگان میں سولہ سال کے لڑکوں سے لے کر ۶۵ سال تک کے بزرگ شامل ہیں۔ ان میں متنازعہ مینار والی مسجد پر قادیانیوں کے قبضے کے خلاف گزشتہ بیس برس سے عدالتی جنگ لڑنے والے تینوں بھائی سید معید حسین شاہ، سبط الحسن شاہ اور توقیرالحسن شاہ بھی شامل ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے کو قادیانیوں کی مرضی و منشا کے مطابق سمیٹنے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں جیل میں بند افراد پر خاصی ’’محنت‘‘ کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں مختلف جھوٹی خبریں پھیلا کر دوالمیال کے مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیداکرنیکی کوشش بھی جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اڈیالہ جیل میں قید مسلمانوں کو اس سرد موسم میں بھی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رکھا گیا ہے اور ان کو ہراساں کرنے کے علاوہ ذہنی اذیتیں بھی دی جارہی ہیں۔ چند روز قبل ان گرفتار شدگان سے جیل میں ملاقات کرنیوالے معززین علاقہ کے وفد کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان گرفتار مسلمانوں پرانتظامیہ کی طرف سے مسلسل یہ دباؤ ڈالا جارہاہے کہ وہ اس کیس میں اپنی شرائط کی بجائے قادیانیوں کی شرائط پر ان کے ساتھ صلح کریں اور متنازعہ مینار والی مسجد بھی قادیانیوں کے حوالے کی جائے۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے ان قیدیوں کو کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ باہر موجود لوگ تو قادیانیوں سے صلح پر آمادہ ہیں، اب صرف تم لوگ رکاوٹ ہو۔ اور کبھی ان تک یہ ’’اطلاع‘‘ پہنچائی جاتی ہے کہ نعیم شہید کے ورثا تو دیت کے بدلے قادیانیوں سے صلح کے لیے تیار ہیں تم لوگوں نے خواہ مخواہ خود کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اس طرح کی باتیں سن کر بالآخر قیدیوں نے اپنی طرف سے پانچ نمائندہ افراد منتخب کیے کہ وہ جو فیصلہ کریں گے وہ سب کا متفقہ ہوگا۔ ذرائع کے مطابق ان پانچوں افراد کو الگ سیل میں بند کردیا گیا ہے اور امکان ہے کہ ان پر خاص ’’محنت‘‘ کی جارہی ہے۔ذرائع کے بقول چند روز پہلے علاقے کے ایک رکن پارلیمنٹ کی قیادت میں کچھ حکومتی معززین علاقہ پر مشتمل وفد نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے ملاقات کی تھی۔ مذکورہ وفد کی طرف سے قیدیوں کو واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ ان کی رہائی اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ قادیانیوں سے انھی کی شرائط پر صلح کر کے مینار والی مسجد ان کے حوالے کردی جائے اور دوالمیال میں ۱۲؍ربیع الاوّل سے پہلے کی صورتحال بحال کی جائے۔ اس پر قیدیوں کے نمائندوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ انھیں اور قادیانیوں کے نمائندوں کو آمنے سامنے بٹھایا جائے تاکہ وہ براہِ راست اس معاملے کو طے کرسکیں۔ اس پر مذکورہ وفد کی طرف سے جواب دیا گیا کہ آپ لوگ ہمیں ہی قادیانیوں کا نمائندہ سمجھیں۔ اس پر قیدیوں کے نمائندوں کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ہم دوالمیال میں پہلے جیسی صورت حال بحال کرنے کو تیار ہیں لیکن مسجد کی حوالگی کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔ جس پر وفد کی طرف سے جواب دیا گیا کہ مسجد کو قادیانیوں کے حوالے کرنا ضروری ہے اس کے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں خاص طور پر مینار والی مسجد کی ملکیت کے مقدمے کے مدعی تینوں بھائی سید معید حسین شاہ، سبط الحسن شاہ اور توقیرالھسن شاہ ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ کسی بھی صورت مسجد کو قادیانیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھیں جیل میں بھی باقی قیدیوں سے الگ رکھا ہوا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایاکہ جب یہ بات چیت قیدیوں سے کسی اکاد کاملاقات کے نتیجے میں باہر آئی تو اہل علاقہ چوکنا ہوگئے۔ لہٰذا ان حکومتی کوششوں کا توڑ کرنے کے لیے منگل ۲۴؍ جنوری کو علاقے کے معززین کے ایک وفد نے قیدیوں سے جیل میں خصوصی ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ ان تک صلح کی جو خبریں پہنچائی جارہی ہیں وہ محض پروپیگنڈا ہے۔ اہل علاقہ اور نعیم شہید کے ورثا قادیانیوں سے کسی بھی صورت صلح کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں دو روز پہلے دوالمیال یونین کونسل کی سطح پر اہل علاقہ کا ایک اہم اکٹھ ہوا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ قادیانیوں سے راضی نامہ ان کی شرائط اور مسجد کی حوالگی کی بنیاد پر ہرگز نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی حکومتی دباؤ کو خاطر میں لایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق جیل میں قید مسلمانوں کے ورثا نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اپنے پیاروں کے تحفظ اور ان کی رہائی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔ دوسری طرف نعیم شہید کے ورثا قادیانیوں کے خلاف قتل کی الگ ایف آئی آر درج کرانے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے دھکے کھا رہے ہیں، لیکن تاحال ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ جبکہ اس کیس میں صرف دو قادیانی گرفتار ہیں۔ اس سلسلے میں نعیم کے چھوٹے بھائی سعد رضا نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اس سانحے کے بعد ہم دوبار نعیم شہید کے قتل کی الگ ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانہ چوآسیدن شاہ گئے، لیکن متعلقہ پولیس افسر نے ہماری درخواست قبول نہیں کی۔ بعدازاں ہم نے دی پی اوآفس رابطہ کیا تو وہاں ہماری درخواست تو وصول کر لی گئی لیکن اس پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس پر ہم نے ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ چکوال سے رجوع کیا تو ۱۹؍جنوری کو عدالت نے پولیس کو ہماری درخواست پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا۔ لیکن ہمارے بار بار تھانہ کے چکر لگانے کے باوجود تا حال نعیم شہید کے قتل کا الگ مقدمہ درج نہیں کیا جاسکا‘‘۔’’ امت‘‘ کی اطلاعات کے مطابق چکوال سے ہی تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم بھی علاقے میں امن بحال کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس معاملے پر ان سے بات کرنے کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فون اٹینڈ کیا نہ ایس ایم ایس کا جواب دیا۔ (روز نامہ ’’امت‘‘کراچی، ۲۷؍ جنوری ۲۰۱۷ء)