ڈاکٹرعمرفاروق احرار
چناب نگردریائے چناب کے کنارے پر آبادہے جو چنیوٹ سے8 کلومیٹراورسرگودھا سے 47کلومیٹرکی مسافت پر واقع ہے۔اکثریتی قادیانی مکینوں پر مشتمل چناب نگرکی آبادی پچاس ہزاراورموجودہ رقبہ 24مربع کلو میٹرکے لگ بھگ بتایاجاتا ہے۔جب ہندوستان کی تقسیم کے بعد قادیانی قادیان سے نقل مکانی کرکے پاکستان آئے تو پنجاب کے انگریزگورنر سرفرانسس موڈی نے قادیانیوں پر خصوصی مہربانی کی اورجون 1948میں قادیانی جماعت کو ایک ہزارچونتیس ایکڑکاچک ڈہگیاں کایہ علاقہ برائے نام قیمت پرعطاء کردیا۔جسے قادیانیوں نے اپنا ہیڈکوارٹربنانے کے لیے ربوہ کا نام دیااوروہ تیزی سے یہاں آکر آبادہوتے چلے گئے۔قادیانیوں کے یہاں آنے کی دیرتھی کہ حکومت نے اس علاقہ میں ریلوے سٹیشن،سکول،تارگھر،ہسپتال،سڑکیں،بجلی کی فراہمی اوردیگرسہولیات فراہم کرنے میں دیرنہ لگائی۔قادیانی سربراہ مرزابشیرالدین کی سرپرستی میں یہ علاقہ ویٹی کن سٹی کی طرزپر مکمل قادیانی ریاست میں تبدیل ہوگیا۔جہاں عدلیہ ،انتظامیہ اورمقننہ اُن کی اپنی قائم کردہ تھیں اوروہاں کسی مسلمان کا آبادہونا تودرکنار،بلکہ مسلمانوں کے لیے ربوہ میں داخل ہونا ہی ممنوع ٹھہرا۔
1974 میں قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلہ سے قادیانیوں کی شناخت بحیثیت غیرمسلم اقلیت کے ہوئی توربوہ کو کھلاشہرقراردیاگیا،مگر قادیانی تسلط ربوہ پرپھربھی برقراررہا۔حضرت امیرشریعت سیّدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزندمولاناسیّدعطاء المحسن بخاریؒ 1976میں ربوہ میں مسجدکے لیے زمین خریدنے میں کامیاب ہوگئے ۔یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔آخر کار 27فروری1976ء کو قائد احرار،جانشین امیرشریعت مولانا سیّدابوذربخاریؒ کی قیادت میں ربوہ میں مسلمانوں کے فاتحانہ داخلہ کے بعدمسلمانوں کی پہلی مسجد’’جامع مسجداحرار‘‘کا سنگ بنیادرکھاگیا۔یوں ربوہ کے دارُالکفرمیں تکبیرکی صدائے رستاخیزبلندہونے لگی،قادیانی غروروتکبردم توڑنے لگا اورختم نبوت کا پرچم بلندسے بلندترہوتاگیا۔اب الحمدللہ!ربوہ ، چناب نگربن چکاہے اوریہاں پرمسلمانوں کے کئی مراکزاورمساجدقائم ہیں۔جہاں سالانہ ختم نبوت کانفرنسیں منعقدہوتی ہیں۔مجلس احراراسلام کے مرکزمسجداحرارمیں بھی سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس 12ربیع الاوّل کو اِنعقادپذیرہوتی ہے،جس میں ملک بھر سے علماء ،مشائخ اوردینی وسیاسی جماعتوں کے رہنما خطاب کرتے ہیں،یہ کانفرنس اب بھی صبح تا نمازظہر منعقدہوئی ،مگر یہاں کی منفردتقریب کانفرنس کے بعدجلوس کا برآمدہوناہے۔روایتی میلادی جلوسوں کے برعکس یہ جلوس اسلام کی دعوت کا پیغام قادیانیوں تک پہنچانے کے لیے نکالاجاتاہے۔ جلوس حسبِ دستورِ سابق اس سال بھی صاحبزادہ حضر ت خواجہ عزیزاحمدمدظلہ(کندیاں شریف)نائب امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی رقت آمیزدعاسے شروع ہوا۔جلوس کا آغازظہرکی نمازکے بعدمسجداحرارسے ہوا۔جلوس کی قیادت حضرت امیرشریعت کے فرزند،قائداحرارمولاناسیدعطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم نے کی ۔جلوس کو چاروں طرف سے مجلس احرارکے چاک وچوبندسُرخ قمیص اورسفیدشلوارمیں ملبوس رضاکاروں نے حفاظتی حصارمیں لے رکھاتھا۔ جلوس میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعدمائکروفون سے سرخ پوش نوجوان، کاغذپر مخصوص لکھے ہوئے نعرے لگوارہے تھے۔جن میں نعرہ تکبیراللہ اکبر،ختم نبوت زندہ باد،فرماگئے یہ ہادی،لانبی بعدی،صلی اللہ علیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اورمجاہدین ختم نبوت زندہ باد شامل تھے۔
جلوس کچھ آگے بڑھا تو بائیں طرف ایک جدید تعمیرشدہ عمارت نظرآئی ۔یہ قادیانیوں کی جماعت تحریک جدید کی عمارت تھی۔جہاں اب دیگرقادیانی دفاتربھی منتقل کیے جارہے ہیں۔یہ قادیانی جماعت، مجلس احرارکے قادیان میں فاتحانہ داخلہ(1934)کے فوراً بعد اَحرارکا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔اس کی عمارت مسجد احرارکے بالکل سامنے،مسجدہی کے رُخ پر بنائی گئی ہے۔جہاں متعدد قادیانی جلوس پر نظر جمائے کھڑے تھے۔جلوس چناب نگر کے مرکزی بازارمیں داخل ہونے کے لیے مڑاتوایک قادیانی عبادت گاہ اقصیٰ دکھائی دی۔یہ بیت المقدس یعنی مسجداقصیٰ کی مناسبت سے قائم کی گئی ہے۔یہاں کچھ عرصہ پہلے تک قادیانیوں کا سالانہ جلسہ منعقدہوتاتھا ۔اب جلسہ پر پابندی لگنے کے بعدقادیان(انڈیا)میں یہ جلسہ دسمبرمیں منعقدہوتاہے۔جس میں پاکستان سے بھی قادیانی شریک ہوتے ہیں۔قادیانیوں کے اکھنڈبھارت عقیدے کی وجہ سے اُن کا انڈیاجانا سنجیدہ حلقوں کے نزدیک باعث تشویش ہے۔اقصیٰ چوک میں مختصر پڑاؤ ہوا ،اور حضر ت امیرشریعتؒ کے پوتے مولاناسید عطاء المنان بخاری نے خطاب کیا۔ جلوس قادیانیوں کے اہم مرکز’’ایوانِ محمود‘‘کے سامنے پہنچا تو وہاں پر جلوس میں بہت جوش وخروش پیداہوگیا۔نعرہ ہائے تکبیر اورختم نبوت زندہ باد سے چناب نگر کی پہاڑیاں گونج اٹھیں،کیونکہ یہاں قادیانیوں کو دعوتِ اسلام دینے کا مقدس فریضہ دہرایاجانے والاتھا۔قادیانی آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں اورسڑک کے کناروں پر کھڑے ،اس جلوس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اورجلوس کی وڈیوبھی بنارہے تھے۔یہاں پر قائد احرار سید عطا ء المہیمن بخاری ،مولانا مفتی محمد حسن ،عبداللطیف خالد چیمہ ،سید محمد کفیل بخاری ،مولانا محمد مغیرہ اور ڈاکٹر شاہدمحمود کاشمیری نے انتہائی محبت بھرے لہجے میں قادیانیوں کو دعوتِ اسلام دی۔مقررین نے کمال متانت ،سنجیدگی اورنرم اندازمیں قادیانیوں کو اسلام کی طرف پکارا۔انہوں نے قادیانیوں کو اَپنی لُٹی ہوئی متاع قراردیا اوراُن سے درخواست کی کہ وہ کفرکی راہ چھوڑ کراسلام میں واپس آجائیں۔علاوہ ازیں قادیانیوں پرزوردیاگیاکہ وہ اپنے پیشوا مرزاقادیانی کی زندگی اوراُن کی کتب کا مطالعہ کریں تو اُن پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قادیانیت اسلام کی ضد ہے ۔اس طرح اُن پر قادیانیت کا بے بنیاد ہونا اوراسلام کا حقیقت پر مبنی ہوناآشکاراہوجائے گا۔ قائد احرارحضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری نے قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد اورپوری قادیانی جماعت کو اسلام کی دعوت پیش کی اور کہا کہ ہم تو تمہارے خیرخواہ اور ہمدرد بن کر یہاں آئے ہیں ۔تاکہ تم سلامتی کی راہ پر آجاؤ اور مرزا قادیانی کے دھوکے اور گمراہی سے نکل کر جنابِ محمد کریم ﷺ کے قدموں پر ڈھیر ہوجاؤ ،کیونکہ یہ راستہ جنت کی طرف جاتا ہے۔ہم تمہیں خیرکی دعوت دینے اورشرسے چھٹکارادلانے کے لیے کے لیے تمہارے دروازے پر آئے ہیں۔قادیانی ہمہ تن گوش مسلمان رہنماؤں کی دعوتِ اسلام کو سُن رہے تھے ۔ہدایت کی طلب ہوتو اللہ ہدایت ضرورعطافرماتاہے،چونکہ چناب نگرکی زمین مرزاقادیانی کے خاندان کی ملکیت ہے ۔اس لیے قادیانی عوام اپنی رشتہ داریوں،معاشی مجبوریوں اورقادیانیوں کے ظلم وتشدد کے خوف سے قادیانیت ترک کرنے سے ڈرتے ہیں۔اگر حکومت چناب نگر کے مکینوں کواُن کی زمینوں کے مالکانہ حقوق دے دے تو یقیناًان کی اکثریت قادیانی وڈیروں کے تسلط سے آزادہوکر اسلام قبول کرلے گی۔بہرحال مسلمانوں نے اکابراحرارکی قیادت میں دعوتِ اسلام کا فرض بحسن وخوبی اداکیا۔جلوس نعروں کی گونج میں اورزیرلب کلمہ طیبہ اوردرودشریف کا وِردکرتاہواچناب نگر کے اڈہ (سرگودھاروڈ)پر پہنچاتو حضرت مولانا مفتی محمد حسن مدظلہ امیرمجلس تحفظ ختم نبوت لاہور کی پُرسوزدعاء کے بعدشرکاء جلوس امن وامان کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو واپس روانہ ہوگئے۔
ان رُوح پرورمناظرکو دیکھ کر یہ احساس مزیدپختہ ہوگیاکہ ہمیں قادیانیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تحریروں اورتقریروں کا اسلوب بدلنے کی ضرورت ہے۔اگرقادیانی مبلّغین اپنے مصنوعی اخلاق کے ہتھیار سے ارتدادپھیلاسکتے ہیں تو ہمیں اسلام کے عطاکردہ سچے اخلاق کی مددسے، اسلام کاپیغام قادیانیوں تک پہنچانے کے لیے نرمی،شیریں مقالی اوردردمندی سے کام لیناچاہیے ،ایک داعی کبھی غصہ میں نہیں آتا اورنہ وہ تندوتیزی اورشعلہ گفتاری کا اظہارکرتاہے۔داعی کا کردار،اخلاق اوررویّہ سخت دلوں کوبھی موم کرلیتاہے۔اگرسوشل میڈیامیں ختم نبوت کے محاذپر سرگرم نوجوان بھی نرم خوئی اورراست گفتاری سے کام لیں تو اِن شاء اللہ اس کے نتائج خاطرخواہ نکلیں گے،کیونکہ رزم ہو یا بزم ہو ،مؤمن نرم دمِ گفتگو اورگرم دمِ جستجو ہوتاہے جو اِسلام کا مقصودبھی ہے اورمطلوب بھی۔