محمد قاسم چیمہ
پانامہ کیس کا فیصلہ آچکا ہے عوام کے ووٹ سے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والے جمہوری وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قراردیا جاچکا ہے اورآج ایک بار پھر ٹی وی سکرینز پر مٹھائیوں کے مناظر دکھائے جارہے ہیں ۔پاکستان کی مکمل سیاسی تاریخ کاتجزیہ کرنا ممکن نہیں ،البتہ تاریخ کو دوزاویوں میں سمویا جاسکتا ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے ۔
ہم ان نقطوں پر غور کرکے اپنے بے شمار فکری قبلے درست کرسکتے ہیں ،ہم پہلے جمہوریت کی طرف آتے ہیں ،پاکستان میں ستر برسوں میں 23سویلین وزیر اعظم آئے چھ وزراء اعظم نگران اور 17باقاعدہ وزیر اعظم بنے ان وزراء اعظم میں سے کوئی اپنی مدت پوری نہیں کرسکا ،یہ تمام لوگ خوف ناک انجام کا شکار بھی ہوئے ،آپ خان لیاقت علی خان سے شروع کرلیجئے ،یہ چار سال وزیر اعظم رہے راولپنڈی میں شہید کردیئے گئے ،خواجہ ناظم الدین دوسال وزیر اعظم رہے ،ہٹا دیئے گئے اور باقی زندگی مشرقی پاکستان میں گمنامی میں گزاردی ،محمد علی بوگرہ سال سال کے دورانیے میں دوسال وزیر اعظم رہے ،ہٹادیئے گئے اور خاموشی سے ڈھاکہ میں فوت ہوگئے ،چودھری محمد علی ایک سال وزیر اعظم رہے ہٹا دیئے گئے اور باقی زندگی مسرت میں گزار دی ،حسین شہید سہروردی ایک سال وزیر اعظم رہے ،ہٹا دیئے گئے مایوس ہوکر وطن چھوڑا اور لبنان میں انتقال کرگئے ،اسماعیل چندریگر دوماہ وزیر اعظم رہے ،ہٹا دیئے گئے اور مایوسی میں لندن میں فوت ہوئے ،فیروزخان نون دس ماہ وزیر اعظم رہے ،ہٹا دیئے گئے سیاست سے کنارہ کش ہوئے اور اپنے گاؤں نورپورنون میں انتقال کرگئے ،نورالامین تیرہ دن کے لئے وزیر اعظم رہے ،ہٹا دیئے گئے اور راولپنڈی میں گمنامی میں انتقال کرگئے ،ذوالفقارعلی بھٹو پہلے تین سال سات ماہ وزیر اعظم رہے ،پھر چار ماہ کے لئے وزیر اعظم بنے ،ہٹائے گئے اور پھانسی چڑھادیئے گئے ،محمدعلی جونیجواڑھائی سال وزیراعظم رہے ،ہٹادیئے گئے اور مایوسی میں انتقال ہوا،بے نظیر بھٹو دوبار وزیر اعظم بنیں دونوں باراڑھائی اڑھائی سال بعد ہٹا دی گئیں ،جلا وطن رہیں اور آخر میں شہید ہوگئیں ،میاں نواز شریف دوبار وزیر اعظم بنے ،دونوں بار اڑھائی اڑھائی سال بعد ہٹادیئے گئے ،جلا وطن ہوئے واپس آئے تیسری بار وزیر اعظم بنے اور ہٹائے جارہے ہیں ،میر ظفراللہ جمالی واحد بلوچ وزیراعظم تھے ،پونے دوسال بعد ہٹا دیئے گئے ،اور مایوسی ،تاسف اور گمنامی میں زندگی گزاررہے ہیں ،شوکت عزیز تین سال وزیراعظم رہے ،ملک سے باہر گئے اور دوبارہ واپس نہیں آئے ،یوسف رضا گیلانی چار سال وزیراعظم رہے ،ہٹا دیئے گئے ،عدالتوں میں کیس بھگت رہے ہیں اور راجہ پرویز اشرف آٹھ ماہ وزیر اعظم رہے ،یہ بھی اس وقت نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں ،وزراء اعظم کی اس تاریخ سے تین باتوں کا پتہ چلتا ہے ،اول،ہماراکوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرتا ،یہ ہٹایا جاتا ہے اور یہ ہٹائے جانے کے بعد عبرت اور مایوسی کی زندگی گزارتا ہے ،دوم،ہماراہر وزیراعظم عدالتوں میں دھکے ضرورکھاتاہے اور یہ دھکے کھاتے کھاتے آخر میں گمنامی میں مرجاتا ہے اور سوم ملک کے17وزراء اعظم میں سے گیارہ انتقال کرچکے ہیں قوم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکے علاوہ کسی کی قبر سے واقف نہیں ،یہ تمام قصہ پارینہ بن چکے ہیں اب آپ تاریخ کے دوسرے رخ پر غور کریں۔
پاکستان میں چار مارشل لاء لگے ،جنرل ایوب خان ،جنرل یحیٰ خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر بنے ،جنرل یحیٰ خان کے سوا تین جرنیلوں نے دس دس سال حکومت کی ،جنرل ضیاء الحق کا اقتدار شہادت کے بعد ختم ہوا جبکہ باقی تینوں جرنیل عوامی تحریک کے ذریعے فارغ ہوئے تینوں کے خلاف مقدمے بنے ،لیکن کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا ،کسی کو سز انہیں ہوئی ،پاکستان میں جب بھی فوجی حکومت آئی خطے میں کوئی نہ کوئی جنگ ضرورہوئی امریکا نے پاکستان کو اپنا اتحادی بنا کر اس جنگ میں ضرور جھونکا اور آخر میں پاکستان اور فوجی آمردونوں کو اکیلا چھوڑ دیا ،جنرل ایوب کے دور میں امریکہ اور سویت یونین کی ’’کولڈ وار‘‘ہوئی،پاکستان روس کے خلاف امریکا کا اتحادی بنا،ہم نے اپنے فوجی اڈے تک دیئے اور ایوب خان کے دور میں 1965ء کی جنگ بھی ہوئی،امریکا نے یحی ٰ خان کو چین کے لئے استعمال کیا ،1971ء کی جنگ ہوئی پاکستان ٹوٹ گیا اور امریکا نے یحیٰ خان کو بھی اکیلا چھوڑ دیا ،جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان وار ہوئی امریکا نے پاکستان کو جی بھر کر استعمال کیا اور اکیلا چھوڑ دیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہوئی ،پاکستان اس بار بھی امریکا کا اتحادی بنا اور خوف ناک نقصانات اٹھائے۔ضرورت ختم ہونے پر امریکہ نے پرویز مشرف اور پاکستان دونوں کو چھوڑ دیا ۔اب تو سنا ہے کہ فوجی امداد بھی روکی جارہی ہے آخر ستر سالہ تاریخ کا تجزیہ تو بنتا ہے کہ عالمی استعماری قوتوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے جمہوری حکومتوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ۔عوام کے ووٹ کو پاؤں تلے روند دیا گیا ۔آئین ردی کا حصہ بنا اور نتیجے میں ہمیں دہشت گردی جیسی لعنت سے واسطہ پڑا ،اور یہ سب کچھ انجام دینے والے آج بھی احتساب سے بالا ہیں ،یہی پاکستان کے سیاسی نظام کی ناکامی ہے۔فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہیں یا پھر منتخب جمہوری حکومت کے وزیر اعظم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو کندھا فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔