ڈاکٹرعمرفاروق احرار
وائٹ ہاؤس اپنے اکہترسالہ پینتالیسویں صدر ڈونلڈٹرمپ کو خوش آمدید کہہ چکاہے۔حالیہ امریکی انتخابات میں دنیاکی توقعات کے برعکس ٹرمپ کی کامیابی نے امریکہ سمیت دنیابھرکوحیرانی سے دوچارکیا ،چونکہ امریکہ اپنے وسائل اوراپنی طاقت کی بناء پر دنیاکے معاملات پر اثراندازی کی قوت رکھتاہے۔اس لیے ٹرمپ کی صدارت نے دنیاکو امریکہ سے توقعات سے زیادہ خوف اورخدشات میں جکڑ دیاہے،کیونکہ انتخابات میں ٹرمپ کے جارحانہ بیانات نے اس کی متنازع شخصیت کی جو شناخت قائم کی ہے،اُس نے دنیاکو دہشت زدہ کررکھاہے۔خصوصاًٹرمپ کے مسلمانوں، سیاہ فاموں اور امریکا میں مقیم غیر ملکیوں کے خلاف تندوتیزاورمتعصبانہ لب ولہجے نے ان طبقات میں سراسیمگی اوربے چینی پیداکررکھی ہے۔عالم اسلام میں بھی ٹرمپ کے بارے میں تشویش و اضطراب بے جانہیں ہے ،کیونکہ ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھاتے ہی اسلام کو دہشت گردی سے جوڑدیاہے اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔‘‘ بعض سیاسی حلقے ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف بیانات کو انتخابی جذباتیت کہہ کر رسانیت کے ساتھ اس توقع کا اظہارکررہے تھے کہ ٹرمپ صدارت سنبھالتے ہی مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے اورنفرت کی خلیج کو پاٹنے میں اہم کرداراداکریں گے،مگرٹرمپ کے اس بیان نے تجزیہ کاروں کے اندازوں کو ملیامیٹ کردیاہے۔اشتعال اورتعصبات کامنہ زوردیواَنگڑائی لے کر تازہ دم ہوگیاہے۔یہ ٹرمپ ہی تھے جو اَپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے جہازبھرکر انہیں امریکہ سے باہرپھینکنے کے دعوے کرتے رہے اورڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو جی بھر کر مجروح کرتے رہے۔اسرائیل کی کھلم کھلاحمایت اورفلسطینیوں سے نفرت ان کی تقاریرکا مرکزی نکتہ رہی۔اب اقتدارکی کرسی پر براجمان ہوتے ہی ٹرمپ نے اسلام کے خلاف جس جارحانہ عزم کا اظہارکیاہے۔اس سے اُن کے مستقبل کے ارادے بھانپے جاسکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کی آگ بیرونی قوتوں ہی کی بھڑکائی ہوئی ہے۔داعش کی تشکیل سے لے کراُسے جدیداسلحہ سے لیس کرنے تک میں امریکہ کی کارفرمائی سب پر عیاں ہے۔ایک طرف سعودی عرب کو جنگی سازوسامان اوردوسری طرف یمن کو اَسلحہ کی ترسیل امریکہ ہی کی مرہون منت ہے۔عراق،شام،افغانستان،کشمیر اورفلسطین میں خونِ مسلم کی ارزانی اِسی دشمنِ جان واِیماں کے دستِ ستم کی کرشمہ فرمائی ہے۔ اسی امریکہ کے واشگاف متعصبانہ رجحان کے حامل نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ’’ وہ عراق وشام پر کارپٹ بمباری کرکے انہیں رزقِ خاک بنادیں گے،ایران کے ساتھ نیوکلیئرڈیل کو ختم کردیں گے اورپاکستان کو لگام ڈالیں گے ۔‘‘اب ٹرمپ کے اِن عزائم ہی کے پیش نظرعالم اسلام میں خوف زدگی کی کیفیت طاری ہے ۔ٹرمپ کی کامیابی نے اسلام مخالف قوتوں کے حوصلے بڑھادیے ہیں۔رونلڈٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعدیہ کہہ کر اِسرائیل کو خیر سگالی کا پیغام دیاتھا کہ مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل ہی جمہوری ریاست ہے ۔اب اسی کی شہ پاکرٹرمپ کی صدارت کے آغازکے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصہ میں بکتربندگاڑیوں اوربلڈوزروں سمیت فوج داخل کردی ہے اورمشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کیلئے مزید 566 مکانات تعمیر کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس کے باوجودفلسطینی صدر محمود عباس نے ٹرمپ کے برسراقتدارآنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں مشرق وسطیٰ تنازع حل کرانے کیلئے بھر تعاون کی پیش کش کی ہے۔دریں اثناء صدر ٹرمپ نے تازہ بیان میں افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا حکم بھی دے دیاہے۔ جس پر طالبان کا شدید ردعمل سامنے آیاہے۔
محض عالم اسلام ہی نہیں ،باقی دنیابھی ٹرمپ کے ماضی قریب کے انتہاپسندانہ بیانات کودیکھتے ہوئے اپنے گہرے تحفظات اورشدید خدشات کااظہارکررہی ہے۔ٹرمپ کی حلف برداری کے روزواشنگٹن اورنیویارک میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کیے گئے اورٹرمپ کی صدارت سے ناپسندیدگی کا اظہارکیاگیا۔ واشنگٹن میں خواتین مارچ کے لیے دو لاکھ مظاہرین جمع ہو ئے۔یہ ریلی دنیا بھر میں اُن 600 متوقع ریلیوں میں سے ایک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدۂ صدارت پر فائز ہونے کے پہلے دن سے نکالی جارہی ہیں۔جن کا مقصد خواتین کے حقوق کو اُجاگر کرنا ہے ۔مظاہرین کو خدشہ ہے کہ نئی انتظامیہ کے زیراثر اُن کے حقوق کو خطرہ لاحق ہے ۔ٹرمپ کے خلاف امریکہ سمیت دنیابھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق میکسیکو میں عوام نے بھاری تعداد میں گلی سڑکوں پر نکلتے ہوئے ٹرمپ کو برا بھلا کہا، کیونکہ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحدوں پر دیوار تعمیر کرنے کی بات کی تھا۔لاطینی امریکہ سے لے کر یورپ تک متعدد ملکوں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے کیے گئے ۔ارجنٹائن ، پیرو اور بولیویا میں بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے ۔سڑکوں پر نکلنے والے لاکھو ں کی تعداد میں لوگوں نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اُن کے ملکوں کے ساتھ احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے خیر سگالی کے تعلقات قائم کرے ۔ادھر برطانیہ سے لے کر سپین تک کئی ایک یورپی ملکوں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے۔مظاہرین نے ’’ٹرمپ اور نسل پرستی نہیں چاہیے ،‘‘جنگ نہیں چاہیے،‘‘جیسی تحریروں پر مبنی کارڈز اُٹھا رکھے تھے۔اِن مظاہروں میں ٹرمپ کی پالیسیوں کی بنا ء پر امریکہ میں نفرت آمیز جرائم کی تعداد میں اضافہ ہونے پر توجہ مبذول کرائی گئی۔بلجیم میں ٹرمپ کے خواتین کی تذلیل کرنے پر مبنی بیانات پر بھی شدیدنکتہ چینی کی گئی۔نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے تل ابیب میں اپنے سفارتخانے کو اَلقدس منتقل کرنے کی بحث کے خلاف دریائے اردن کے مغربی کنارے پر احتجاج کیا گیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اقدام اس کی اسرائیل نواز پالیسیوں کا واضح ثبوت ہے ۔اب تک ماسکو سے مانچسٹرتک دنیاکے سات سو سے زائدشہروں میں احتجاج کیاگیااورمظاہروں کا یہ سلسلہ آئندہ ہفتوں تک جاری رہنے کی اطلاعات ہیں۔
عوامی ردعمل نے حکمرانوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ دھونس ،دھاندلی،آمریت،جارحیت،تعصب،نسل پرستی اورفرعونی ہتھکنڈوں کے بل بوتے پرحکمرانی کے جھنڈے نہیں گاڑے جاسکتے۔اگر عوامی ردعمل کا یہ سلسلہ درازہوتاہے تو اُس کے نتیجے میں امریکی وحدت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔امریکی ریاستوں کی جاری علیحدگی پسند تحریکو ں میں شدت درآنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔جبکہ وسیع پیمانے پر نسلی اورمذہبی بنیادپر نزاعات سراُٹھاسکتے ہیں۔ٹرمپ کا چارسالہ دور صدارت داخلی انتشارمیں گھرانظر آتاہے ۔ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدربنے،دن ہی کیاگزرے ہیں کہ سی این این،اے بی سی نیوز سمیت نامور میڈیا گروپس کے ایک مشترکہ سروے نے انہیں امریکہ کا سب سے غیرمقبول صدر ظاہرکردیاہے۔سروے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں صرف 44 فیصد اَمریکیوں نے رائے دی ہے ۔ سی این این اور اے بی سی کے مطابق:’’ یہ گزشتہ 40سال میں کسی بھی امریکی صدر کی کم ترین ریٹنگ ہے ۔‘‘بیرونی دنیاکے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت میں دراڑیں گہری ہوسکتی ہیں،یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کادھارابدل سکتاہے ،کیونکہ ٹرمپ کے نیٹو کو فرسودہ کہنے پر امریکہ ،یورپ تعلقات کے بارے میں کئی سوالات پیداہوگئے ہیں اورٹرمپ کے بیان کے ردعمل میں جرمن چانسلر انجلینا مرکل نے مشرقی وسطیٰ میں مہاجرین کے بحران کا ذ مہ دار امریکہ کو قراردیاہے۔برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بھی کہہ دیاہے کہ’’ وہ ٹرمپ کو چیلنج کرنے سے نہیں ڈرتیں،ٹرمپ کے خواتین کے متعلق خیالات ناقابل قبول ہیں۔‘‘دنیاکے نئے منظرنامے کا انحصارٹرمپ انتظامیہ کے دیگرممالک کے ساتھ ان کے رویے اورسلوک پرمنحصر ہے،لیکن یہ بات نوشتۂ دیوارہے کہ ٹرمپ کا عہد صدارت امریکہ کے معاشی،سیاسی اورمذہبی بحرانوں اورمناقشوں سے بھرپورہوگا،کیونکہ ٹرمپ نے تصبات اورانتہاپسندی کو جوراہ دکھائی ہے۔اس کا انجام جلدیابدیر بالآخر امریکی جغرافیہ میں تبدیلی اوردنیامیں امریکہ کے سمٹتے ہوئے کردارکی انتہاء پر منتج ہوگا۔