لاہور(پ ر) ملی مجلس شرعی جوسارے دینی مکاتب فکر کے علماء کرام کی ایک علمی مجلس کے قائدین نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئے روز حکومتیں اور سیکولر سیاسی جماعتیں مغرب کے دباؤ پر غیر اسلامی قوانین عجلت میں اور انگریزی زبان میں بناتی رہتی ہیں تا کہ ارکان کو پتا بھی نہ چلے جس کی حالیہ مثال ٹرانس جینڈرا یکٹ کی ہے جس میں خنثوں کے حقوق کے نام پر ہم جنس پرستوں کو قانونی چھتری مہیا کی گئی ہے۔ ہرفردکو حق دے دیا گیا ہے کہ وہ نادرا کے دفتر جا کر اپنی جو جنس چاہے مقرر کرائے اور نادرا کو پابند کیا گیاہے کہ وہ اس کے مطالبے کوتسلیم کرتے ہوئے اسے قومی شناختی کارڈ جاری کرے کوئی شخص چاہے تو اپنے پہلے شناختی کارڈ کی جنس بھی اپنی مرضی سے تبدیل کرواسکتا ہے۔
علماء کرام نے کہا کہ اس قانون نے مردوں کے مردوں سے نکاح اور عورتوں کے عورتوں سے نکاح کو قانونی چھتری مہیا کر دی ہے جس سے ملک میں ہم جنس پرستی اور فحاشی وعریانی کوفروغ ملے گا۔ نکاح کے علاوہ یہ قانون اسلامی نظام وراثت کے لیے بھی تباہ کن ہے کیونکہ کوئی بھی عورت خود کو مردقرار دے کر وراثت میں دگنا حصہ لے سکتی ہے۔ علماء کرام کا موقف تھا کہ یہ قانون اہل مغرب نے اپنےLGBTQ کے ایجنڈے کی حمایت اور اسلامی معاشرت اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے بنوایا ہے۔انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو منسوخ کیا جائے اور اگر مخنثوں کے حقوق کے لیے کوئی قانون سازی کرنی ہے تو وہ الگ سے کی جائے۔جن علماء کرام نے اس قرارداد کی حمایت کی ان میں گوجرانوالہ سے مولانا زاہد الراشدی(صدرمجلس)، فیصل آباد سے مولانا یاسین ظفر (ناظماعلی وفاق المدارس السلفیہ)، چیچہ وطنی سے حاجی عبدالطیف چیمہ (نائب امیر مجلس احرار اسلام پاکستان)، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین (ناظم علی)، حافظ عبدالغفار روپڑی،مولا نا ملک عبدالرؤف، حافظ عبدالرحمن مدنی،مولانا عبدالمالک، مولانا عبدالرؤف فاروقی،ڈاکٹر فرید احمد پراچہ،مولانامفتی شاہد عبید،مولانا سردار محمد خاں لغاری،مولانا غضنفر عزیز،مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا قاری زوار بہادر،مولانامحمد عمران طحاوی، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر علی اکبر الازھری، صاحبزادہ محمد فاروق قادری، حافظ محمد نعمان حامد، مولانا محمد اسلم نقشبندی، ڈاکٹر حافظ محمد سلیم مولانا عثمان رمضان، ڈاکٹر عتیق الرحمن، مفتی محمد طاہر بلال،مولانامحمد حذیفہ حبیب، مولانا الطاف حسین گوندل اور دیگر علماء کرام شامل بھی تھے۔