پروفیسر ابوطلحہ
وہ فزکس کا نوبل انعام یافتہ پروفیسر تھا۔ وہ اپنے تجربات میں مگن تھا بیوی اخبار لیے لیبارٹری میں د اخل ہوئی ’’اے جناب آپ کو تو نہ نماز کی فکر نہ اور کسی دینی سماجی کام کی۔ بس لیبارتری ہے یا چودہویں صدی کے نبی اور اس کے خلیفہ کی باتیں کرتے رہتے ہو۔ اس میں کسی کا کیا بھلا ہے یہ دیکھو اخبارنے لکھا ہے کہ آپ انتقال فرما گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بے توجہی سے جواب دیا۔ بس میری طرف سے مرنے والے کو پھولوں کی چادر بھجوا دو اور مجھے نہ چھیڑو کیونکہ میں آج کل سپر طاقت کے نیو ورلڈ آرڈ میں معاون کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ انھوں نے مجھے اچھی تنخواہ پر ملازم رکھا ہے۔ ناگا ساکی اور جاپان کے دوسرے شہروں میں لاکھوں باغی مرے تھے مگر اب اس سے کئی سو گنا بڑے منصوبے پر سوچا جارہا ہے اور جن لوگوں نے چودہ سو سال قبل آنے والے کو نبی مانا اور ہمارے حضرت صاحب پر ایمان نہیں لائے تمہیں معلوم ہے سپر طاقت نے ان کے علاج کے لیے تشخیص و تجویز میرے ذمے لگائی ہے اور بڑے سائنسدانوں کے ایک گروپ کو مدد کے لیے میرے ساتھ کر دیا ہے اور مجھ پر اس لیے بھی خصوصی نظر ہے کہ مجھے ان نام نہاد مسلمانوں ہی کی کمیونٹی میں شمار کیا جاتا ہے۔ مجھے نوبل انعام دیا جانا بھی میرے اسی امتیاز کی بنا پر ممکن ہوا۔ اچھا جاؤ، مجھے جلد اپنا منصوبہ بڑی سرکار کو پیش کرنا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر صاحب پھر اپنے کام میں جٹ گئے۔ وہ اپنی جنم بھومی بارہا آتے رہتے یہاں انتہا پسندوں کی کارگزاریاں اورا پنے ملک و قوم کے لیے ان کی پرخلوص خدمات کے راز معلوم کرتے، عوامی اتحاد، سادہ لوح دیہاتیوں کی مذہب سے وابستگی اور دینی رہنماؤں کی وعظ و نصیحت اور عام لوگوں کو دین پر پختگی پر اکسانا دیکھتے پھر یہ ساری کار گزاری واپس جا کر اپنے مربی سپر طاقت کے خفیہ اداروں کو پہنچاتے اور اونچے سے اونچا انعام پاتے۔ انتقال تو وہ فرماچکے تھے یعنی مر چکے تھے مگر یہ موت جسمانی نہیں، دل و نگاہ اور روح کی موت تھی۔ مقام محمود پر فائز محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک نقوش پا کو اس پروفیسر کی نظر نہیں دیکھ سکی تھی۔ اس کے دل میں وَلِکن رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النّبِیّن کا دل آویز مفہوم نہیں آسکا تھا اس کی روح قُل ھُوَ اللّٰہ اُحَدَ اور قُل یاَ یُّھَا الکَافِرون میں ابدی سرمدی مذکور و رسالت تک پرواز نہ کر سکتی تھی۔ اے کاش! وہ ختم نبوت کا حقیقی معنی جان لیتا۔ اے کاش! اس نے جتنا فزکس میں دماغ کھپایا وہ یہ بھی سوچتا کہ تمام آسمانی کتب اور صحائف محفوظ نہ رہے، آخر قرآن کیوں چودہ سو سال گزرنے پر بھی محفوظ ہے۔ اس کا ایک حرف ایک دندانہ تک بھی کیوں محفوظ ہے۔ آج کی جدید تہذیب، سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں کسی نبی کیا آنے کی حاجت ہوتی تو قرآن اور اس پر ایمان رکھنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان کب کے مٹ چکے ہوتے۔ آج قرآن کلمہ اسلام لَا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ اور محمد رسول اﷲ کی گونج رُبع سکوں کے ہر گوشے میں ہر لمحے سنائی دے رہی ہے ان کو بھی جو ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو بھی جو پروفیسر ڈاکٹر مذکور ہے مودب شاگرد یا نام لیوا ان کی طرح پھولوں کی چادر بھیجے جانے کے محتاج بن چکے ہیں۔ ان کو لاکھ سمجھاؤ کہ موت اور حیات حقیقت ہیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے محمد علیہ السلام کی غلامی میں آناپڑتا ہے پھر کسی اور کی غلامی بدذوقی کے سوا کے کچھ نہیں رہ جاتی۔