سید محمد کفیل بخاری
سینیٹ انتخابات کا تماشا مکمل ہوا۔ کھیل ختم اور پیسہ ہضم حسب سابق انتخابی نتائج قبول نہ کرنے کی ہماری تاریخی وسیاسی روایت بر قرار رہی۔ حکومت اپنی تمام ترطاقت کے باوجود سینیٹ کے انتخابی طریقۂ ’’واردات ‘‘ کو تبدیل کرانے میں نا کام رہی۔ سپریم کورٹ میں دہائی دی تو فاضل عدلیہ نے الیکشن کمیشن کو ذمہ داری سونپ دی کہ وہ آئینی طریقۂ کا ر کے مطابق سینیٹ الیکشن کرائے۔ سینیٹ انتخاب میں حزب اختلاف نے خفیہ رائے شماری اور چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین کے انتخاب میں کھلے عام ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ جبکہ حکومت اس کے برعکس مطالبہ کرتی رہی۔ وزیر اعظم اور حکومتی جماعت الیکشن کمیشن پر برستے اور کوستے رہے۔ لیکن حزب اختلاف اسے سراہتی رہی۔ نتیجتاً الیکشن کمیشن نے بھی اپنی ’’استقامت‘‘ کار یکار ڈ برقرار رکھا۔
چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے انتخاب میں حکومتی امیدواروں کے ووٹ کس طرح زیادہ ہوئے اور قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کے ووٹ کیسے زیادہ ہوئے؟ مقتدر قوتوں نے دونوں مواقع پر ایک ہی کلیہ استعمال کیا۔ یہی اس انتخابی ناٹک کا راز اور جان ہے۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ والا معاملہ ہوا۔
اس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکہ کھایا
یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں رائج انتخابی نظام پر عوام کو اعتماد ہے نہ عوام کے منتخب نمائندوں کو ۔عام انتخابات سے لے کر سینیٹ کے انتخاب تک پورا نظام خرابیوں کا مجموعہ ہے ’’اِک معمہ ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘ کشتیٔ اقتدار کے ’’کھیون ہار‘‘ اگر نظام کی بہتری چاہتے ہیں تو سیاست دانوں سے شراکت اقتدار کا مستقل معاہدہ کرلیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو ایک پیچ پر لاکر سینیٹ انتخاب کے ’’طریقہ وار دات‘‘ کو تبدیل کرکے طریقۂ کار پر اتفاق رائے کرلیں تو شاید کشتی کنارے لگ جائے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی مالیاتی اداروں نے موجودہ حکمرانوں کے ذریعے اپنے کئی معطل منصوبوں پر عمل در آمد کرالیا ہے اور دباؤ بڑھا کر مزیدمطالبات منوا رہے ہیں۔ خارجی محاذ پر مسئلہ کشمیر کے حل کا باب بظاہر ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے ۔ پاکستان کے اہم ترین دوست ممالک چین اور سعودی عرب آج پاکستان سے سخت ناراض ہیں۔ سی پیک پر کام تقریباً بند ہوچکا ہے۔ چین نے ایران میں 25سال کے عرصے کے لیے 400ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں ۔ گریٹراسرائیل کے منصوبے پر عمل در آمد کے لیے امریکہ، عرب ممالک کو پہلے ہی گھائل کر چکا ہے۔ اب صرف ایٹمی پاکستان کی رکاوٹ باقی ہے جسے دھیرے دھیرے معاشی زنجیروں میں جکڑ کر تنہا کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف کی نت نئی شرائط اور مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ہم بچھے چلے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکمران سیاسی، معاشی اور مذہبی شعبوں میں عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو من وعن قبول کرکے ہمہ گیر تباہی کے راستے پر گامزن ہیں۔ ناقص انتخابی نظام، عالمی سودی قرضے اور مدارس و مساجد ومدارس کو حکومتی تحویل میں لینے کا پاس ہونے والا بل ،ایف اے ٹی ایف کی پالیسیوں کو قبول کرنے ہی کی کڑیاں ہیں۔
9مارچ 2021ء کو رات کی تاریکی میں وفاقی کا بینہ کے اجلاس میں ایک ایسی سمری پیش کرکے اس پراتفاق کیا گیا جس کے تحت سٹیٹ بنک آف پاکستان اب خود مختار ادارہ بن جائے گا ۔گورنر سٹیٹ بنک، صدر مملکت، وزیراعظم، پارلیمنٹ اور کسی بھی ریاستی تحقیقاتی ادارے کو جواب دہ نہیں ہوگا۔ وہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کو جواب دہ ہوگا۔ گویا ریاستی بینک ریاست سے آزاد ہوگا۔ آرڈی نینسس کی بیسا کھیوں کے سہارے چلنے والی حکومت یہ کڑوی گولی بھی کسی شوگر کوٹڈ آرڈ ینینس کے ذریعے قوم کو کھلادے گی۔ گورنر سٹیٹ بینک ایک مالیاتی وائسرائے کے طور پر پوری آزادی کے ساتھ حقِ ملازمت ادا کرے گا۔ اور وہی پاکستان کا اصل حکمران ہوگا۔
ایٹمی پاکستان کی آزادی وخود مختاری کا گلا گھونٹ کر پوری قوم کو سودی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑنے کا استعماری منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ سٹیٹ بینک ،ایف بی آر اورو زارت خزانہ براہ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دینے کی منصوبہ بندی بڑی تیزی کے ساتھ مکمل کی جاری ہے۔ اس کے لیے ’’سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء کے عنوان سے جو بل پیش ہونے والا ہے اس کی تفصیلات انتہائی بھیانک، خوفناک اور ہلاکت خیز ہیں۔یہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی دائمی غلامی میں دینے کی شرمناک دستاویز ہے۔
اخباری ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے عوام پر 9ارب ڈالر کے نئے ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب پاکستانی عوام 900ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرکے مہنگائی کی چکی میں پسنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی غلامی انجوائے کرے گی۔
ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً ’’حکومت ساز‘‘ طاقت ور اداروں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وطن عزیز اور اس میں بسنے والی مظلوم عوام پر ترس کھائیں اور جینے کی راہیں سوچیں ۔ غلامی موت اور آزادی زندگی ہے۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادی کے چرچے ہیں آسمانوں میں