سید محمد کفیل بخاری
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ۲۱؍ فروری ۲۰۱۸ء کو انتخابی اصلاحات ۲۰۱۷ء کیس کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی کی صدارت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق آرٹیکل ۶۲،۶۳ پر پورا نہ اترنے والا پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔ نااہل شخص پارٹی سربراہ بنے تو پارلیمانی نظام تباہ ہو جائے گا۔ ۲۸؍ جولائی ۲۰۱۷ء کے بعد سینیٹ امیدواروں کی نامزدگی سمیت تمام فیصلے کالعدم ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ نواز شریف کا نام پارٹی صدارت سے ہٹا دیا جائے۔ ن لیگ نے پارٹی چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق کے دستخطوں سے نئی ٹکٹیں جاری کیں جنھیں الیکشن کمیشن نے مسترد کرتے ہوئے انھیں آزاد امیدوار قرار دے دیا۔ اس طرح مسلم لیگ کو بطور سیاسی جماعت کے سینیٹ الیکشن سے باہر نکال دیا گیا۔
چند ماہ قبل میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیے گئے تو مسلم لیگ ن نے انتخابی اصلاحات ۲۰۱۷ء کا ترمیمی بل پارلیمنٹ سے منظور کر کے نواز شریف کی پارٹی صدارت برقرار رکھی لیکن سپریم کورٹ نے اسے بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ ’’آئین کی شق ۲۰۳ اور ۲۳۲ کو آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کے ساتھ پڑھا جائے گا۔
نواز شریف گزشتہ چھے ماہ سے عدالتی فیصلوں کے خلاف اپنا بیانیہ جاری رکھے ہوئے ہیں، دوسری طرف عدالت اور دیگر ادارے بھی پوری مستعدی اور مکمل یکسوئی کے ساتھ فیصلے صادر کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال پر عمومی تاثر یہی قائم ہوا کہ اداروں میں تصادم اور محاذ آرائی ہو رہی ہے، جس کا ملک کو نقصان ہو گا۔ ممتاز قانون دان علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ:’’کچھ عرصے سے عدالتی فیصلے لوگوں کو ذہنی پیچیدگی اور پریشانی میں مبتلا کر رہے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کا تبصرہ ہے کہ جمہوریت ڈوب رہی ہے۔ سینیٹ میں بحث کے دوران ارکان نے کہا کہ سیاسی ڈھانچہ خطرے میں ہے، اس پر ہم خاموش نہیں رہیں گے نوٹس نہ لیا تو کل سب روئیں گے۔‘‘
ہم عدالت عظمیٰ کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں تو نہیں لیکن موجودہ پیش منظر پر اپنی مثبت رائے کے اظہار کا حق ضرور رکھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نواز شریف یا کسی بھی شخص کو اس کا جرم ثابت ہونے پر ضرور سزاملنی چاہیے، آئین و قانون سے کوئی بھی بالا تر نہیں لیکن کسی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے بے دخل کرنا بھی تو آئین کے مطابق درست نہیں۔ کیا اس طرح سیاسی پارلیمانی نظام مضبوط ہو گا؟ ماضی میں ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی عمل سے نکالنے کے نقصانات پوری قوم نے بھگتے، منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر نتیجہ دیکھ لیا۔ اب بھی اس آموختے کو دہرا کر نقصان ہی ہو گا۔ شخصیات کا احتساب ضرور اور بلا تفریق ہونا چاہیے لیکن سیاسی نظام کو مضبوطی سے چلنے دینا چاہیے۔ تجزیہ نگار اپنی اپنی ذہنی ساخت اور رجحانات کے مطابق اظہارِ خیال کر رہے ہیں اور میاں نواز شریف کی نااہلی کے مختلف اسباب بتا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں نواز شریف مکافاتِ عمل اور عذابِ الٰہی کی زد میں ہیں اور اپنے کیے کی سزا پا رہے ہیں۔ انھوں نے تیسری بار نکالے جانے پر بھی اپنی غلطیوں سے عبرت حاصل کرنے، اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنے اور قوم سے معافی مانگنے کی بجائے مزید جری ہو کر سوال کھڑا کر دیا کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟ حالانکہ انھیں اپنے افلاطون مشیروں سے پوچھنا چاہیے تھا کہ مجھے دھکا کس نے دیا؟ انھیں کون سمجھائے کہ عقل بڑی یا بھینس؟ جبکہ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس! ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی خواہش، اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اقتدار میں رکھنے کی منصوبہ بندی اور اپنے آپ کو ملک کی ضرورت اور لازم و ملزوم قرار دینے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے جس سے موصوف دوچار ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ نے اپنے طویل دورانیے کے اقتدار میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو ڈھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسلام کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے اور اب لبرل پاکستان کا نعرہ لگا کر لبرلز اور سیکولرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر موجودہ سیاسی تنہائی تک ان کا سفر تضادات کا مجموعہ اور کہہ مکرنیوں سے آراستہ ہے۔ وہ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، وہی انھیں اقتدار میں لائی، بھاری مینڈیٹ کی بلندیوں سے گزاکر اب انھیں بند گلی میں لا کھڑا کیاہے۔
قرض اتارو، ملک سنوارو مہم کا دھوکا، اسلامی جمہوری اتحاد کے فورم سے ملک میں خلافتِ راشدہ کے قیام کی وعدہ خلافی، ممتاز قادری کو پھانسی (جسے پیپلز پارٹی پھانسی نہ دے سکی)، قادیانیوں سے یارانے اور ان کو اپنا بھائی قرار دینے، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو خلافِ آئین مسلمان قرار دے کر شعبہ فزکس کو اس کے نام سے منسوب کرنے، عقیدۂ ختمِ نبوّت کا مذاق، حلفِ ختمِ نبوّت میں تبدیلی، راجہ ظفر الحق رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے اور اصل مجرموں کو بچانے اور اب سینیٹ میں قانونِ توہینِ رسالت میں تبدیلی کی مذموم کوشش، آئین میں تمام اسلامی دفعات سے مسلسل چھیڑ چھاڑ اور انھیں ختم کرنے یا کم از کم غیر مؤثر کرنے کی مذموم سعی، جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے دینی جماعتوں کے مظلوم کارکنوں، دینی مدارس کے معصوم طلبا اور دیگر بے گناہوں کا قتل، دینی مدارس سے کے لیے مشکلات کھڑی کرنے، دینی قوتوں کو دیوار سے لگانے اور علماء پر عرصۂ حیات تنگ کر کے انھیں فورتھ شیڈول میں ڈالنے جیسے بے شمار جرائم ہیں جن کے ذریعے انھوں نے اﷲ اور اس کے بندوں کی ناراضی حاصل کی۔
آئندہ دنوں میں مدرسہ اصلاحات کے ذریعے جو کچھ ہونے والا ہے وہ اہلِ مدرسہ کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ طاغوتی قوتوں اور بیرونی آقاؤں کو خوش رکھ کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی سعی ٔ لاحاصل کرنے کی بجائے وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تو آج ان کے لیے اﷲ کی مدد بھی آتی۔ عبرت کا مقام ہے کہ اب قوم کے دل سے ان کے حق میں دعائیں بھی نہیں نکلتیں، کوئی بھولے سے کر دے تو قبول نہیں ہوتیں۔
سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلوں کے بعد انھوں نے چھوٹے میاں صاحب کو پارٹی سربراہ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ وہ کون سا اِن سے کم ہیں بلکہ چار قدم آگے ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے بعد مطلع اور صاف ہو جائے گا اور ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ آئندہ انتخابات میں مذہبی ووٹ انھیں نہیں ملے گا، انھوں نے لبرل پاکستان کا نعرہ لگا کر جو نئے دوست (لبرل فاشسٹ اور سیکولر انتہا پسند) بنائے ہیں وہ بھی وقتی مفاد کے لیے ان کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ اے کاش! نوا ز شریف اس حقیقت کو جان لیں کہ جو اﷲ رحیم و کریم کے وفادار نہیں وہ آپ کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور جو حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کے غدار ہیں وہ ملک و قوم کے دوست اور وفادار نہیں۔ جس دن انھیں یہ بات سمجھ آ گئی اور انھوں نے مان لی تو اﷲ تعالیٰ بھی معاف فرما دیں گے ورنہ عبرت کا نشان بنا دیے جائیں گے۔