ڈاکٹرعمرفاروق احرار
لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہیں کہ مہنگائی نے جینا مشکل کردیاہے،مگر لوگوں کی بات سنتاہی کون ہے؟بات سننے کے لیے وقت دیناپڑتاہے اورجاہل عوام کو معلوم ہی نہیں کہ حکمرانوں کا ایک ایک سیکنڈقیمتی ہوتاہے۔حکمرانی کرنا بھلاکوئی آسان کام ہے !رعایا تو ہروقت توجہ چاہتی ہے ۔اگر ساراوقت عوام ہی کے لیے دینا ہے تو اِنتخابات میںکروڑوں روپے لگاکر کُرسیٔ اقتدارتک پہنچنے کا انہیں کیافائدہ۔حکمرانوں کو اپنی پڑی ہے اورعوام ہیں کہ بس حکمرانوں کی ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔اُن کا ایک شورہے کہ ہرطرف سنائی دیتاہے: ’’مہنگائی نے ماردیا۔مہنگائی نے ماردیا۔‘‘ارے بھئی !سُکھ کا سانس تو لینے دیں، بے چارے حکمرانوں کو۔تمہیں مہنگائی کی پڑی ہے اورانہیںکمائی کی فکرہے۔ان کی جیبیں بھریں گی تو وہ دوسری طرف نظرکرسکیں گے۔سنا نہیں تم نے کہ کسی نے چاندکی طرف اشارہ کرکے ایک بھوکے سے پوچھاتھا کہ بابا!یہ آسمان پر گول گول سا کیاچمک رہاہے ؟توبھوک سے نڈھال باباجی نے جواب دیاتھاکہ’’ مجھے تو آسمان پر گول گول سی روٹی ہی نظرآرہی ہے۔‘‘باباکی طرح حکمران جب تک دولت سمیٹ، سمیٹ کر ’’اپنے پاؤں‘‘ پر کھڑے نہیں ہوجاتے ،تب تک مہنگائی کی پسی ہوئی عوام کو صبر سے کام لینا چاہیے کہ حکمرانوں کو بھوکے بابا کی طرح اقتدارمیں آکرعوام نہیں،بس دولت ہی دکھائی دیتی ہے اورانہیں صرف اپنے ہی پیٹ کی فکرلاحق ہوجاتی ہے کہ اسے بھرناہے توکیسے بھرناہے؟اسی لیے تو وہ عرصۂ اقتدارمیں عوام کے مسائل سے بے خبر اوراُن کے احوال سے بے نیازرہتے ہیں۔
اقتداریوں کی بھوک کب مٹا کرتی ہے!سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ سر کاری کارکردگی کا قصہ یوں سنا رہی ہے کہ’’ اگست 2016ء میں مہنگائی کی رفتار 3۔6 فیصد رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنی ہے ۔ماہرین کے مطابق شرح سود کم ہونے کے باوجود برآمدات اور دیگر شعبوں میں بہتری نہیں آئی۔ اجناس اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی کی شرح بڑھی ہے ۔سٹیٹ بینک نے وفاقی حکومت کی مالی اور معاشی حکمت عملیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں غیر تسلی بخش قرار دیااور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کوئی قابل ذکر ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ۔جبکہ حکومتی فضول خرچیوں کیلئے قرضوں کا حجم 8کھرب روپے تک بڑھا دیا گیاہے۔‘‘ماضی کی حکومتوں کی لوٹ ماراوربدعنوانیوں سے کسے انکارہے،مگرموجودہ حکومت اس لیے عوامی ناراضی کا باعث بن رہی ہے کہ عوام کو موجودہ حکومت سے بہت ہی توقعات وابستہ تھیں، عوام اس خوش فہمی میں مبتلاتھے کہ میاں برادران چونکہ عوام کے متوسط طبقے سے اٹھ کر اقتدارکی انتہاتک پہنچے ہیں ۔اس لیے وہ عوام کی مشکلات ومصیبتوں کاخاطرخواہ احساس رکھتے ہیں اوروہ ان کے ازالے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھا کر ان کی پریشانیوں کا سدباب کریں گے ،لیکن ابھی تک کوئی ایسامؤثر قدم نہیں اٹھایاگیا کہ جس سے عوام کے قلبِ پریشاں کی تسکین ہوسکے۔لگتاہے کہ مقتدرطبقے کو عوام کے احساسات کا ذرہ بھر احساس نہیں ہے ۔باوررہے کہ جب توقعات ٹوٹنے لگیں تو پھر اقتدارکے مضبوط پائے بھی ہلنے لگتے ہیں۔کاش صاحبانِ اختیار!اس حقیقت کاادراک کرلیں، کیونکہ مخلوقِ خداکی مظلومیت تو عرشِ الٰہی کو بھی لرزادیتی ہے۔
روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔نرخوں میںمسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ا ٓٹا، چینی،گھی، چاول،دودھ ،دالیں، سبزیاں اورگوشت کے ساتھ ساتھ موجودہ دورمیںبجلی،گیس،پٹرول اورادویات بھی بنیادی انسانی ضروریات ہیں۔جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی انسانی حق ہے۔ ہمارااُوپری طبقہ ہر معاملے میں امریکہ اوریورپ کی نقالی کی حدتک پیروی کرنا ضروری سمجھتاہے ،لیکن اس طبقہ نے کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ امریکہ اوریورپ میں اشیائے خوردونوش پر حکومت نے کنٹرول کررکھاہے اوروہاں کی حکومتوں اور سپرمارکیٹ بزنسز کااس بات پر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمت کم رہنی چاہیے ،کیوں کہ یہ چیزیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ان ممالک کے علاوہ متحدہ عرب امارات میںبھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں۔ وہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء حکومتی کنٹرول کی وجہ سے برس ہا برس سے بڑھنے نہیںپاتیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش ہیں،کیونکہ ان کویہ بنیادی ضروریات بہ آسانی اورسستے داموں حاصل ہوجاتی ہیں ۔اس کے برعکس ہمارے ہاں خوردونوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ہردوکان میں اپنی مرضی کے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔قوتِ خریدکی ابتری سے حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ کچھ برس پہلے جو لوگ آٹا چینی، گھی، چاول، دال ہفتے یا مہینے کے لیے اکٹھا خریداکرتے تھے،آج وہ روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں پایاکہ گورنمنٹ کی رٹ کہاں پر قائم ہے۔اگر یوٹیلیٹی سٹوروں پر سب سڈی دے کر چیزیںبازارسے نسبتاً سستے داموں مہیاکی جاسکتی ہیں توآخرکیاامرمانع ہے کہ وہی اشیاء عام دکانوں یابازاروں میں سستے نرخوں پر کیوںفراہم نہیں کی جاسکتیں۔بے شک حکومت بازارمیں بکنے والی اشیاء پر سب سڈی نہ دے ، مگر وہ اتناہی کردے کہ بڑی منڈیوں کو مکمل کنٹرول میں لے آئے اورذخیرہ اندوزوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرے تو یقین مانیں کہ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء ہر آدمی کی قوتِ خرید کے مطابق مل سکتی ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کون کرے؟اختیارات حکومت کے پاس ہیں تو مہنگائی پر حکومت ہی قابو پاسکتی ہے۔کیا کوالٹی کنٹرول اورپرائس کنٹرول ادارے صرف بھتہ خوری یارشوت خوری ہی کے لیے باقی رہ گئے ہیںاورظالم منافع خورتاجروں اورسٹے بازدلالوں کوعوام کی رگوں میں بچ جانے والے چندخون کے قطروں کو بھی نچوڑ لینے کے لیے کھلا چھوڑ دیاگیاہے۔اے اربابِ اقتدار!اللہ کے غیظ وغضب سے ڈریے ۔وقت قریب ہے کہ جب آپ سے آپ کی رعایاکے بارے میں سوال ہوگا اورآپ سے کوئی جواب بن نہ پائے گا۔اگرآپ مخلوقِ خداکی خدمت عبادت سمجھ کرکریں گے تو دُکھی مخلوق کی پُرخلوص دعائیں بھی لیں گے اوراجروثواب بھی آپ کا مقدرہوگا۔وگرنہ آخرت کی دائمی ذلت ونامرادی سے دامن چھڑایا نہ جائے گا۔یادرکھیے! کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشادکیاکہ سات قسم کے خوش قسمت انسان، روزِ حشر، جب کوئی سایہ سوائے عرش الٰہی کے سائے کے، دستیاب نہ ہوگا،اُس سایۂ عرش میں جگہ پائیں گے۔اُن میں پہلے نمبر پر عادل حکمران ہوگا۔حکمرانوں کی نیک نیتی اورصاف دلی سے عوام پر رحمتِ الٰہی برستی ہے جو ملک میں سکون وطمانیت کی باد ِبہاری کے سندیسے اوراہل وطن کے لیے خوشحالی کے پیغام لاتی ہے۔ اللہ ہمارے اربابِ اختیارکو بھی قوم وملک کی فلاح وترقی کے لیے کچھ کر گزرنے کی توفیق عطاء کرے ۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے ، وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو