سید محمد کفیل بخاری
موجودہ حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے قوم سے جتنے وعدے کیے، ان میں سے ایک بھی پورا نہ کیا۔ تبدیلی کے جو خواب دکھائے سب ادھورے رہ گئے، بے گھروں کو گھر ملے نہ بے روزگاروں کو روزگار، معیشت وتجارت تباہی کے دہانے پر اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو مدینہ سے دور کرنے کا بیرونی ایجنڈا پورا کیا جارہا ہے۔ حکمرانوں سے ہماری کوئی ذاتی لڑائی نہیں لیکن قوم ظلم کی جس چکی میں پس رہی ہے اس میں ہم بھی شامل ہیں۔ کسی حکمران کے لیے اڑھائی سال بہت ہوتے ہیں لیکن کوئی ایک کارنامہ بھی تو ایسا نہیں جسے موجودہ حکمرانوں کے لئے قابل فخر قرار دیا جائے۔ ادھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے ملک بھر میں حکومت مخالف جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سے ہوتے ہوئے 30 نومبر کو ملتان میں اپنی سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ 13 دسمبرکو لاہور میں بڑا معرکہ ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ پی ڈی ایم موجودہ حکمرانوں کو تسلیم ہی نہیں کر رہی ان کا موقف ہے کہ 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی جس کے نتیجے میں پی ڈی آئی کو سلیکٹ کر کے قوم پر مسلط کیا گیا ایک سوال پی ڈی ایم کی قیادت سے بھی ہے کہ جب پارلیمنٹ اور حکومت ہی ناجائز ہے تو آپ اس پارلیمنٹ میں ابھی تک کیوں بیٹھے ہیں؟ حکمرانوں سے استعفے کا مطالبہ کرنے سے پہلے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو خود اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہیے۔ اپوزیشن جلسوں کو آئندہ الیکشن کی تیاری تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے ذریعے حکومت گرانے کا دعوی ممکن نظر نہیں آتا۔ مولانا فضل الرحمن کا اعزاز یہ ہے کہ ان کا دامن مروجہ سیاسی آلودگیوں سے پاک ہے۔ انہوں نے اڑھائی برسوں میں جمیعت علماء اسلام کو عوامی جماعت بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ پارلیمنٹ میں بہتر پوزیشن حاصل کریں گے ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا معاملہ ہی مختلف ہے۔ مولانا فضل الرحمن روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دیں ۔ بلکہ پیپلز پارٹی کی ایک اے پی سی میں انہوں نے سندھ حکومت سے بھی مستعفی ہونے کی تجویز دی تھی۔ ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے دستبردار ہو یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہو ۔ یہی حال مسلم لیگ ن کا یے۔ دونوں بڑی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور رابطوں کے ذریعے محفوظ راستوں کی تلاش میں ہیں۔ جس کو جہاں راستہ مل گیا وہ نکل جائے گی۔ اپوزیشن ارکان استعفی دینے یا عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت ختم کرنے کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ عمران خان کو لانے والی قوتیں ہی انہیں کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں یا عمران خان خود اسمبلیاں توڑ دیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ کوئی معجزہ تو ہوسکتا ہے لیکن بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں۔ حکمران اپنے وعدے پورے کریں اور اپوزیشن کی تنقید کو برداشت کریں۔ جلسہ وجلوس آئنیی وقانونی حق ہے۔ حکومت تصادم سے گریز کرے۔