عبدالمنان معاویہ
آج کل انتخابی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں ،ہر امیدوار اپنے مخالف امیدوار پر ،ہر پارٹی دوسری پارٹیوں پر الزامات کی بوچھاڑ کررہی ہے اور ایک دوسرے کے لئے سب وشتم کا بازار گرم ہے ،ملک پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا جارہا ہے ،انتہاء ہوگئی ہے کہ اقتدار سے بوریا بستر گول کرنے والی جماعت کے امیدوار بھی اپنے کارہائے نامہ کی فہرست پیش کرنے کی بجائے مخالفین پر کیچڑ اچالنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں ،حالانکہ پاکستان کے معروضی حالات باہمی جنگ وجدل ،دست وگریباں ہونے کے ہر گز ہرگز محتمل نہیں ہیں ،انڈیا پاکستان کے پانی پر قابض ہوچکا ہے ،پاکستان کی زمینوں کی پیداوار کی اوسطاً پہلے کی نسبت بہت کم ہوئی ہیں ،لیکن الیکشن میں سرگرم امیدوار باہمی منافرت پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ،اپنے دورِ اقتدار میں غائب رہنے والے اس وقت عوام الناس میں مارے مارے پھر رہے ہیں ،یہ تو ملک پاکستان کی قدیمی روایت ہے کہ انتخابات کے ایام میں امیدوار مارے مارے پھرتے ہیں اور یہ دورانیہ کوئی دو یا تین ماہ کا ہوتا ہے ،پھر پورے زمانہ اقتدار میں عوام کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتیں ہیں ،اس سب کے باوجود ’’کتنے سادہ لوح ہیں میرے شہر کے لوگ ‘‘کے مصداق عوام پھر بغیر سوچے سمجھے قوم کے وڈیروں ،جاگیرداروں ،پنڈ کے چودھریوں ،نوابوں اور جعلی پیروں فقیروں کے اشارۂ ابرو پر ووٹ ڈال دیتے ہیں ،جبکہ عوام الناس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں اور کس غرض سے ووٹ ڈال رہے ہیں ،ووٹ آپکی گواہی ہے اور اس بابت روزِ محشر ہمیں جوابدہ ہونا ہے ۔
مجلس احرار اسلام اس نظام سیاست(مغربی جمہوریت) کی مؤ ید نہیں لیکن چونکہ ارض پاک میں یہی نظام رائج ہے ،اس لئے اس نظام سے مکمل کنارہ کش رہنا بھی مذہبی حلقوں کے لئے مفید نہیں ہے ،اس لئے مجلس احرار اسلام کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں از خود حصہ لینے کے بجائے متحدہ مجلس عمل کے صحیح العقیدہ اور صحیح الفکر امیدواروں کی مجموعی طور پر تائید وحمایت کی جائے ،جہاں ایم ایم اے کے امید وار نہیں ہوں گے وہاں کے علاقائی سطح پر بہ اعتبار مناسب امیدوار کی اپنے طور حمایت کی جاسکتی ہے ،لیکن آغاز میں ہی امیدوار سے تحریری عہد لیا جائے کہ وہ اسمبلی میں پہنچ کر نفاذ اسلام کی جدوجہد کی حمایت کریں گے ،تحفظ ناموس رسالت ،تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس صحابہؓ ،کے لئے کی گئی قانون سازی کو کسی صورت سبو تاژ نہیں ہونے دیں گے اور ملکی سلامتی وحدت کے لئے اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر سرگرم عمل رہیں گے ۔
مجلس احرار اسلام پاکستان نے اس حوالے سے 30 ۔جون 2018 ء ہفتہ کو دارِ بنی ہاشم ملتان میں اپنی مرکزی عاملہ (ایگزیٹو باڈی) کا ایک اجلاس منعقد کیا ،جس کی صدارت امیر مرکزیہ حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری اور نائب امیر سید کفیل بخاری نے کی جس کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ :’’مجلس احرار اسلام موجودہ نظام سیاست پر عدم اعتماد کے باوجود معروضی صورتحال کے پیش نظراپنا حق رائے دہی استعمال کرے گی ،اور نفاذ اسلام ،تحفظ ناموس رسالت ،تحفظ ختم نبوت اور استحکام پاکستان پر یقین رکھنے والے امیدواروں کی حمایت کی جائے گی ،اجلاس میں فیصلہ کیاگیاکہ سیاسی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صفوں سے دین اور وطن دشمن عناصر کو نکال باہر کریں ،قادیانیت نواز امیدوار چاہے کسی بھی جماعت سے ہو ں مجلس احرار ان کو بے نقاب کرے گی اور ان کی مخالفت بھی کرے گی ،اجلاس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی تاریخی کامیابی پر ان کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان کی مکمل اخلاقی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ترکی خلافت عثمانیہ کی طرف واپس لوٹے گا ،اجلا س میں پاکستان کو ’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالم کفر کی طرف سے پاکستان پر اقتصادی ومعاشی دباؤ بڑھانے کی سازش قرار دیا تاکہ پاکستان ان کے ایجنڈے کے تابع رہ سکے ‘‘۔
مجلس احرار اسلام کا قادیانیت نواز امیدواروں کے خلاف یہ فیصلہ کوئی نیا نہیں ،بلکہ مجلس احرار اسلام نے اپنی بِنا کے روز اول سے ہی تعاقب قادیانیت کو اپنا ماٹو قرار دیا ہو اہے کہ قادیانی جس راہ سے امت مسلمہ کے حق پر شب خون مارنے کی سعی کریں گے تو مجلس احرار اسلام ان کا راستہ روکے گی ،اور تاریخ پاکستان کے مختلف ادوار گواہ ہیں کہ مجلس احرار اسلام ،پاکستان میں قادیانیوں اور قادیانیت نواز لوگوں کے سامنے سدّ سکندری ہے ،جس نے مسلمانوں کا ایمان بچانے کی خاطر اور عقیدہ ختم نبوت اور مقام ومنصب صحابیت کے تحفظ کے لیے انتھک محنت کی ہے ،مسلمانوں میں مذہبی شعور بیدار کیا ہے ،مجلس احرار اسلام کے رہنماؤں نے جماعتی وذاتی مفادات پر دین اسلام کو مقدم رکھا ،اس کے لئے جیل کی کال کوٹھڑیاں کو آباد کیا،مصائب وآلام کی وادیوں سے گزرے ،اپنے اور پرایوں کی مخالفت برائے مخالفت کا نشانہ بنے، لیکن ان کے پائے استقامت میں لرزش واقع نہ ہوئی ، اوربقول شاعرؔ
زمانہ معترف ہے اب بھی ہماری استقامت کا
نہ ہم نے قافلہ چھوڑا، نہ ہم نے رہنماء بدلا
آج بھی رضاکارانِ احرار کو قیادت کی جانب سے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے جو 1988 ء میں قا ئد احرار سید عطاء المحسن شاہ بخاری ؒ نے دیا تھا کہ’’ موجودہ انتخابی میدان میں آپ کو بھرپور جہاد کرنا ہوگا ،احرار کارکن گلی گلی ،محلہ محلہ اور ایک ایک گھر جاکر مسلمانوں کے بے دین امیدواروں کے سیاہ کردار سے آگاہ کریں اور ان میں یہ جذبہ پیدا کریں کہ جب امیدوار لوگوں کے گھروں میں جائیں تو لوگ ان سے نفاذ اسلام کی بات کریں اور صاف لفظوں میں یہ مطالبہ کریں کہ ہم آپ کوصرف اسی صورت ووٹ دیں گے کہ آپ ہمیں یہ حلف دیں کہ آپ صرف نفاذِ اسلام کی جدوجہد کریں گے ،مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کریں کہ وہ موجودہ انتخابات میں دین کے باغیوں اور ملک کے غداروں ،بہروپیوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کو تاریخی اور عبرتناک شکست سے دو چار کردیں ،احرارؔ کارکنو! ہمارا مقصد صرف الیکشن نہیں مکمل اسلامی نظام کا قیام ہے ‘‘۔
اجلاس کے بعد احرار کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ اور سید محمدکفیل بخاری نے میڈیا کو اجلا س کے فیصلوں سے آگاہ کیا ،اور بتایا کہ اجلا س کی قرار دادوں میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں توہین آمیز خاکوں کی نمائش کے اعلان اور مسلم خواتین پر نقاب کی پابندی کی مذمت کی گئی اور اسے پرسنل لاء اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے منافی قرار دیا گیا ،دوسری قرار داد میں نگران حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قادیانیوں کو آئین کے دائرے میں رہنے کا پابند بنائے اور چناب نگر کے داخلی وخارجی راستوں پر قادیانیوں کی طرف سے رکاوٹوں کو فی الفور ختم کیا جائے ،ایک قرار داد میں مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کی طرف سے مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ مداخلت کرکے کشمیری مسلمانوں کو حق رائے دہی دلوایا جائے ،اجلا س میں ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنا آبی جارحیت قرار دیا گیا اور اس کی شدید مذمت کی گئی ۔عبداللطیف خالد چیمہ نے پریس بریفنگ میں یہ بھی بتایا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک ختم نبوت کو ملکی اور عالمی سطح پر منظم کیا جائے گا اور قادیانی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا جائے گا ،انہوں نے الزام عائد کیا کہ نگران حکومت کے عبوری دور میں بھی قادیانی سرگرمیاں پہلے کی طرح جاری ہیں ،اور ملتان ،ڈیرہ غازی خان سمیت کئی مقامات پر قادیانی افسران تعینات کرکے قادیانیت نوازی کی جارہی ہے ،جس کی اجلاس میں مذمت کی گئی ہے ،انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام اگست میں ’’امیرشریعت کانفرنسز‘‘اور ستمبر میں ’’یوم قرار داد اقلیت‘‘ (یوم تحفظ ختم نبوت) کے حوالے سے ملک گیر پروگرام کیے جائیں گے، جبکہ 6 ستمبر کو مجلس کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس اور 7 ستمبر کو یوم تحفظ ختم نبوت مرکزی سطح پر لاہور میں منایا جائے گا ،انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں یہ بھی طے ہو اہے کہ 29 دنبوت وناموس رسالت کا تحفظ ،سودی نظام کے خاتمے اور فحاشی وعریانی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی روک تھام کے لئے کام کریں گے ،اور دینی وقومی مقاصد کے لئے پارٹی پالیسی سے بالاتر ہوکردین اور ملک وقوم کے مفاد کو ترجیح دیں گے ،ان رہنماؤں نے یکم جولائی کو دفتر مجلس احرارا سلام لاہور میں باہمی مشاورتی اجلاس کے بعد اس کا فیصلہ کیا جو مجلس احرار اسلام کے نائب امیر مولانا سید محمد کفیل بخاری کی دعوت پر منعقد ہوا ،ان رہنماؤں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد اکثر ارکان اجتماعی ،ملی وقومی مقاصد ومفادات سے بے خبر ہوجاتے ہیں اور ملک کے دستور ونظریہ کے تقاضوں کو بھی نظر اندازکردیتے ہیں ،اس امر کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ الیکشن میں باقاعدہ اس بات کاعہد لیا جائے اور بعد میں بوقت ضرورت اس بابت باز پرس کا اہتمام بھی کیا جائے ،تما م رہنماؤں نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ووٹ دیتے وقت دینی وملی ترجیحات کا لحاظ رکھیں ۔ سمبر ملک بھر میں یوم تاسیس احرار روایتی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جائے گا ،بتایا گیا کہ 2028 ء میں مجلس احرار اسلام کے صدسالہ یوم تاسیس کے حوالے سے ملک گیر اجتماع عام ہوگا،علاوہ ازیں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور دینی رہنماؤں مولانا زاہد الراشدی ،سید محمد کفیل بخاری ،مولانا زبیر احمد ظہیراور قاری محمد زوار بہادر نے ملک بھر کے ووٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت متعلقہ امیدواروں سے اس امر کا تحریراً وعدہ لیں کہ وہ منتخب ہونے کے بعد دستور کے مطابق نفاذِ اسلام ،عقیدہ ختم