مولانا زاہدالراشدی
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کے دوران جب ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف یورپی حکومتوں کی سازشیں صاف طور پر نظر آنے لگیں اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے آثار نمودار ہوئے تو برصغیر (پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش) کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ خلافت عثمانیہ نے کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی خدمت کی ہے اور حرمین شریفین مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کی پہرہ داری کا مقدس فریضہ سر انجام دیا ہے۔ مشرقی یورپ جہاں کچھ عرصہ قبل بوسنیا اور کوسووو کے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے اس خطہ میں صلیبی قوتوں کو عرصہ تک خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں شرمناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہودیوں نے عالمی سطح پر طے شدہ پروگرام کے مطابق عثمانی خلیفہ سے فلسطین کی زمین کا کچھ حصہ مانگا تاکہ وہاں وہ اپنا مرکز قائم کر سکیں تو خلیفہ عثمانی سلطان عبد الحمید ثانیؒ نے یہودیوں کو زمین دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ یہودیوں کو فلسطین کی ایک انچ زمین دینے کے روادار بھی نہیں ہیں۔
اس پر یہودیوں نے پینترا بدلا اور صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں یورپی اقوام کی مسلسل شکستوں کے پس منظر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کر دیا۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ بیک وقت عربوں اور ترکوں میں قوم پرستی کی تحریکیں کھڑی کر کے خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کر دیا گیا۔ عرب ممالک میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف کام کرنے والے مختلف گروپوں کی پشت پناہی کی گئی۔ عرب قوم پرستی کے نام سے خطہ عرب سے ترک افواج کو باہر نکال کر چھوٹی چھوٹی کئی عرب حکومتیں قائم کی گئیں اور ان میں سے اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست نکال لی گئی جو آج پورے عالم اسلام کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خلاف یورپی حکومتوں کی بڑھتی ہوئی سازشوں سے مضطرب ہو کر متحدہ ہندوستان میں تحریک آزادی کے قائدین نے ’’تحریک خلافت‘‘ شروع کی جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کے ہاتھ میں تھی۔ اس تحریک نے ترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچانے میں تو کامیابی حاصل نہ کی، البتہ اس جوش و خروش میں برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور تحریک آزادی کو جوش و جذبہ سے سرشار راہنماؤں اور کارکنوں کی ایک تازہ دم کھیپ مل گئی اور اس طرح وہ بعد کی تمام سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کی نرسری ثابت ہوئی۔
پنجاب میں تحریک خلافت کے سرکردہ راہنماؤں میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ ، چوہدری افضل حقؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نمایاں تھے۔ جب استنبول میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور مصطفی کمال اتاترک نے آخری عثمانی خلیفہ کو جلاوطن کر کے خلافت کا باب بند کر دیا تو خلافت کے تحفظ کے لیے متحدہ ہندوستان میں چلائی جانے والی تحریک بھی غیر مؤثر ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی قومی سطح پر تحریک آزادی کے حوالہ سے بعض مسائل پر مرکزی تحریک خلافت اور پنجاب کی تحریک خلافت میں اختلافات نمودار ہونے لگے۔ جس کے نتیجے میں پنجاب کی تحریک خلافت کے لیڈروں نے مرکز سے اپنا راستہ الگ کرتے ہوئے ’’مجلس احرار اسلام ہند‘‘ کے نام سے نیا پلیٹ فارم قائم کر لیا۔ احرار راہنما مکمل آزادی کے جذبہ سے سرشار تھے اور انہیں چوہدری افضل حقؒ کا دماغ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا جوش عمل اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی ساحرانہ خطابت میسر تھی۔ اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں احرار کا طوطی بولنے لگا۔
تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں برصغیر کی تحریک آزادی میں ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے پرجوش کردار کا ہمیشہ معترف رہا ہوں اور تحریک آزادی میں احرار راہنماؤں کو چار باتوں کے کریڈٹ کا مستحق سمجھتا ہوں:
(1) پورے برصغیر بالخصوص پنجاب میں عوامی سطح پر مسلمانوں کو آزادی کی تحریک کے لیے بیدار کرنا احرار راہنماؤں کا ہی کام تھا جنہوں نے اپنی ولولہ انگیز خطابت سے عام مسلمانوں میں آزادی کی خواہش کو ابھارا، انہیں سڑکوں پر لا کر فرنگی حکمرانوں کے خلاف صف آرا کیا، اور آزادی خواہ راہنماؤں اور کارکنوں سے جیلیں بھر دیں۔
(2) انگریز حکمرانوں سے مراعات حاصل کرنے والے طبقوں مثلاً جاگیرداروں، نوابوں اور زمینداروں کے خلاف غریب اور کمزور طبقات میں بغاوت کے جراثیم کی پرورش کی اور انہیں آزادی کی جدوجہد کا حوصلہ بخشا۔
(3) آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف مذہبی شعور کو اجاگر کیا بلکہ مختلف مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں کو یکجا کر کے مشترکہ قیادت فراہم کی۔ چنانچہ مجلس احرار اسلام کے اس دور میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ اور مولانا مظہر علی اظہرؒ صف اول کی قیادت میں دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ مجلس احرار اسلام کی مرکزی قیادت میں شیخ حسام الدینؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ اور چودھری افضل حقؒ کی موجودگی کی وجہ سے وہ ایک طبقاتی جماعت کے تاثر سے بھی پاک رہی۔
(4) فرنگی حکمرانوں نے اس خطہ کے مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا کرنے کے لیے قادیانی نبوت کا ڈھونگ رچایا تو اسے بے نقاب کرنے کے لیے اگرچہ علمی حلقوں میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے خاصا کام کر لیا تھا مگر عوامی سطح پر اس سازش کو ننگا کرنے کا سہرا احرار راہنماؤں کے سر ہے جنہوں نے برصغیر کے طول و عرض میں اس فتنہ کے خلاف عوامی نفرت کا طوفان کھڑا کر دیا۔
(5) جموں و کشمیر میں ڈوگرہ مہاراجہ کے مظالم کے خلاف کشمیری عوام کی ۱۹۳۱ء کی جدوجہد آزادی کو پورے برصغیر سے سپورٹ فراہم کر کے اسے ایک عوامی تحریک کی شکل دی جس میں ہزاروں لوگوں نے گرفتاریاں اور قربانیاں پیش کیں۔
(6) اور احرار راہنماؤں نے پارٹی کے اندر اختلاف رائے کے آزادانہ اظہار کے ماحول کو فروغ دیا، کسی معاملہ میں مختلف آرا ہونے پر مباحثہ بلکہ مجادلہ بھی ہوتا تھا، پھر بھی پارٹی کے اندر ہی رہتے تھے اور باہمی احترام و معاونت میں فرق نہیں آتا تھا۔
ایک دور ایسا تھا جب پنجاب میں مجلس احرار اسلام سب سے بڑی سیاسی قوت شمار ہوتی تھی، اور اگر احرار راہنما یونینسٹ حکومت کی طرف سے ’’مسجد شہید گنج‘‘ کے عنوان سے بچھائے گئے دام ہمرنگ زمین کا شکار نہ ہو جاتے تو چوتھے عشرہ کے وسط میں ہونے والے انتخابات میں مجلس احرار اسلام پنجاب کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آتی، مگر پنجاب کے وزیر اعلٰی سر فضل حسین نے یہ دعوٰی کیا کہ میں نے احرار کو مسجد شہید گنج کے ملبہ میں دفن کر دیا ہے، جبکہ تاریخ کی ستم ظریفی کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس مسجد شہید گنج کی آڑ میں احرار کے خلاف طوفان کھڑا کیا گیا وہ آج بھی لاہور میں لنڈا بازار کے پڑوس میں موجود ہے، اسے ابھی تک مسجد نہیں بنایا جا سکا اور اب بھی وہ گوردوارہ کی شکل میں ہے، البتہ احرار کو الیکشن میں اس چال کے ساتھ ہروانے کے باوجود ختم نہ کیا جا سکا اور وہ اپنے وجود اور جدوجہد کا تسلسل اب تک بحمد اللہ تعالٰی جاری رکھے ہوئے ہے۔
احرار کی تاریخ تحریکات کی تاریخ ہے، اور تحریک کشمیر سے لے کر تحریک ختم نبوت تک پرجوش عوامی تحریکات کا ایک لمبا سلسلہ ہے جس کے تمغوں سے مجلس احرار اسلام کا سینہ مزین ہے۔ حتیٰ کہ احرار کارکنوں کے بارے میں ایک دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ کسی احرار کارکن کی جیب میں پانچ روپے ہوں تو وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ کون سی ریاست کے نواب کے خلاف تحریک چلانی چاہیے۔
تحریک پاکستان میں مجلس احرار مخالف کیمپ میں تھی۔ یہ احرار راہنماؤں کا اپنا موقف تھا اور انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور کھل کر کی۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے احرار قائدین نے کھلے بندوں اپنی شکست تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور پھر خود کو پاکستان کے استحکام و سالمیت، اسلامی نظام کے نفاذ، اور ختم نبوت کے تحفظ کے لیے وقف کر دیا، چنانچہ وہ مختلف دینی و قومی تحریکات میں متحرک کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ اللہ تعالٰی ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری مدظلہ کی امارت میں جانبازوں کے اس گروہ کو اپنے ماضی کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق سے نوازتے رہیں، آمین یا رب العالمین۔