خطبہ استقبالیہ سید محمد کفیل بخاری (نائب امیر مجلس احرار اسلام)
’’مجلس احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام بیالیسویں دو روزہ سالانہ تحفظ ختمِ نبوت کانفرنس 12-11 ربیع الاوّل 1441ھ 10-9/نومبر 2019ء بروز ہفتہ، اتوار مسجد احرار، چناب نگر میں امیر مرکزیہ ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کی سرپرستی اور مرکزی نائب امیر جناب پروفیسر خالد شبیر احمد کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ 12؍ ربیع الاوّل کی صبح تقریب پرچم کشائی کے موقع پر سرخ پوشانِ احرار سے خطاب کرتے ہوئے جو معروضات پیش کیں، وہ کانفرنس کے خطبۂ استقبالیہ کے طور پر قارئین کی نذر ہیں‘‘
مجلس احرارِ اسلام اپنے قیام سے ہی عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اکابر احرار بیک وقت دعوت و تبلیغ اور تحریکی و سیاسی میدان میں سرگرم عمل رہے۔ انھوں نے ہمیشہ اعتدال کا دامن تھامے رکھا۔ ایک طرف غیر مسلموں خصوصاً قادیانیوں کو دعوت اسلام کا فریضہ ادا کیا تو دوسری طرف انگریزی استعمار کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے تحریک آزادی میں قوت پیدا کر کے کامیابی سے ہمکنار کیا۔
آج کی ختمِ نبوت کانفرنس دراصل 1934ء کی احرار تبلیغ کانفرنس قادیان اور’’ مسجد احرار‘‘( چناب نگر)، ’’مسجد ختم نبوت‘‘ (قادیان) کا تسلسل ہے۔ہمیں خوشی اور فخر ہے کہ ہمارے اکابر نے جس مشن کا بیڑہ اٹھایا اور جس عزم وخلوص سے پرچم احرار بلند کیا، اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ہم عاجزوں نے وہ بیڑہ پار لگایا اور پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ اپنوں اور بیگانوں کی مخالفت ہی کسی جماعت کے وجودکا ثبوت اور کامیابی کا زینہ ہوتی ہے۔ مخالفت تو جماعت کے قیام سے ہی شروع ہو گئی اور تا ایں دم پوری شد و مد سے جاری ہے۔ اکابر احرار نے مخالفتوں اور مزاحمتوں کے طوفانوں سے استقامت کے ساتھ جماعت کو نکالا، دو درجن تحریکوں کی قیادت کر کے طوفانوں کا رخ ہی نہیں موڑا بلکہ منہ توڑ کر رکھ دیا۔
احرار اور تحفظ ختمِ نبوت لازم و ملزوم ہیں۔ تحریکِ مقدس تحفظِ ختم نبوت، احرار کی پہچان، شناخت اور طرۂ امتیاز ہے۔ بانیٔ احرار حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ نے 13؍ اپریل 1919ء کے حادثۂ جلیانوالہ باغ امرتسر سے تنہا اپنی تحریکی زندگی کا آغاز کیا۔ مسجد خیر الدین امرتسر میں امامت و خطابت اور تعلیم کے دوران یہ حادثہ پیش آیا۔ جنرل ڈائر نے ایک احتجاجی جلسے کے شرکاء پر فائرنگ کر کے درجنوں افراد کو قتل کیا۔
مسلمان شہداء کے کفن و دفن اور نمازِ جنازہ میں شرکت و خطاب سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا۔ پھر تحریک خلافت (1919تا 1924ء) میں بھرپور حصہ لیا۔ دسمبر 1919ء میں خلافت کانفرنس امرتسر میں پہلی سیاسی تقریر مولانا شوکت علی کی صدارت اور مولانا محمد علی جوہر کی موجودگی میں کی۔
14؍ اپریل 1920ء کو بندے ماترم ہال امرتسر میں قادیانیوں کے جلسے میں مرزا بشیر الدین کو حدیث غلط پڑھنے پر تنہا کھڑے ہو کر ٹوکا اور حدیث صحیح پڑھنے کا مطالبہ کیا۔ مرزا بشیر الدین تقریر چھوڑ کر بھاگ گیا اور امیر شریعت نے ہال سے باہر آ کر مسلمانوں کے اجتماع میں خطاب کیا۔ قادیانیوں کے دھوکے اور دجل سے آگاہ اور اس فتنے سے اپنے ایمانوں کی حفاظت کی نصیحت کی۔
یکم ،2اور 3؍ اپریل 1924ء کو انجمن اسلامیہ قادیان کا پانچواں سالانہ تین روزہ تبلیغی جلسہ منعقد ہوا۔ 3؍ اپریل کی صبح آخری اجلاس محدثِ کبیر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ نے اس اجلاس میں پہلی مرتبہ قادیان میں خطاب کیا۔ اس جلسے پر قادیانیوں نے حملہ کر کے کئی مسلمانوں کو زخمی بھی کیا، لیکن جلسہ جاری رہا۔ حضرت امیر شریعت نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ:
’’ہم امن کے داعی اور عدم تشدد کے علم بردار ہیں، قادیانیوں نے ظلم و تشدد کر کے ہمیں مظلوم اور طاقت ور بنا دیا ہے۔ ہمیں صبر کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، ان شاء اﷲ آئندہ برس زیادہ قوت کے ساتھ جلسہ ہو گا۔ قادیانیوں پر ہاتھ نہیں اٹھانا، اپنے اور مسلمانوں کے ایمانوں کو بچانا ہے، قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دینی ہے۔ یہی ہمارا مقصد اور نصب العین ہے‘‘۔
قادیان میں مجلس احرار اسلام کا شعبۂ تبلیغ قائم ہو چکا تھا۔ 23؍ مارچ 1934ء کو مجلس احرار اسلام قادیان کا تبلیغی جلسہ ہوا، جس میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے ولولہ انگیز خطاب فرمایا۔
23-22-21؍ اکتوبر 1934ء کو قادیان میں احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہندوستان بھر سے مسلمان شریک ہوئے۔ ملک بھر سے علماء و مشائخ اور دینی و سیاسی رہنماؤں کی شرکت و خطاب سے کانفرنس کو بہت پذیرائی اور شہرت ملی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اﷲ علیہ کی صدارت میں امیر شریعت کا شہرہ آفاق خطاب ہوا۔ اس موقع پر 16قادیانیوں نے اسلام قبول کیا۔ مجلس احرار اسلام کا مستقل دفتر قادیان میں قائم ہو چکا تھا اور مسجد ختمِ نبوت و مدرسہ محمدیہ کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔ 1935ء میں حضرت ماسٹر تاج الدین انصاری رحمہ اﷲ کی دعوت پر (جو اس وقت مستقل قادیان کے احرار مرکز میں مقیم تھے) حضرت امیر شریعت تیسری بار قادیان تشریف لے گئے اور ایسا رقت انگیز خطاب کیا کہ جسلے میں موجود قادیانی بھی قرآن کریم کی تلاوت اور حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سن کر آبدیدہ ہو گئے۔
قیام پاکستان کے بعد مجلس احرار اسلام نے اپنی تمام تر توجہ عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ اور تبلیغی سرگرمیوں پر مرکوز کر دی۔ 1952ء میں قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے پاکستان میں ’’احمدی سٹیٹ‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا اور ریاست کے خلاف سازشیں شروع کیں تو حضرت امیر شریعت نے اُسے للکارا۔ 1952ء کی آخری رات چنیوٹ کی احرار تبلیغ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مرزا بشیر احمد! تمھارا 52ء ختم ہو گیا اور بخاری کا 53ء شروع ہو گیا، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ میں تمھارا خواب چکنا چور کر دوں گا‘‘۔
چنانچہ 1953ء میں تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت برپا ہوئی۔ دس ہزار مسلمانوں نے گولیاں کھا کر عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ بظاہر تشدد کے ذریعے تحریک کچل دی گئی، لیکن اسی قربانی میں کامیابی مضمر تھی۔
مئی 1974میں قادیانیوں نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مسلمان مسافر طلباء پر حملہ کر کے بہیمانہ تشدد کیا، جس کے نتیجے میں تحریک چلی، مسئلہ قومی اسمبلی میں پہنچا۔ قادیانیوں کی طرف سے مرزا ناصر پیش ہوئے۔ مولانا مفتی محمود اور علامہ شاہ احمد نورانی رحمہم اﷲ نے اپنے رفقاء کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندگی کی اور کئی روز کی طویل بحث کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے دونوں ایوانوں کی ایک متفقہ قرار داد کو آئین کا حصہ بنا کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
سرفروشانِ احرار!
آج آپ مسجد احرار میں جمع ہیں۔ 27؍ فروری 1976ء بروز جمعہ، جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور خطاب فرمایا۔ ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ نے مختصر خطاب، خطبہ و نمازِ جمعہ پڑھائی۔ اس موقع پر دونوں بزرگ گرفتار کر لیے گئے۔ ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم نے اپنے رفقاء کے ساتھ اس تقریب کا اہتمام و انعقاد کیا۔ ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المومن بخاری رحمہ اﷲ ملتان سے سرخ پوشانِ احرار کا ایک بڑا قافلہ لے کر یہاں پہنچے۔ مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اﷲ نے نمازِ جمعہ سے قبل خطاب فرمایا۔ یہ ایک تاریخی اجتماع تھا جو مشکل ترین حالات میں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر کے منعقد ہوا۔ آج یہاں کی رونق اور آبادی دراصل شہداءِ ختمِ نبوت، اکابر و کارکنانِ احرار کی قربانیوں کا صلہ ہے۔ ہم اُن کے وارث ہیں اور اس امانت کی بہرصورت حفاظت کریں گے۔
احرارِ وفادار! میں آپ کی وفاؤں اور استقامت کو سلام پیش کرتا ہوں۔
مخالفتوں سے مت گھبراؤ، کسی ملامت اور خوف کی پروا نہ کرو اور مایوسیوں کو قریب بھی نہ آنے دو۔ اسلاف احرار کی امانت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہٗ کی قیادت میں ہم کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان شاء اﷲ ہم اسی جادۂ حق پر چلتے رہیں گے۔
ہیں احرار پھر تیز گام اﷲ اﷲ