گزشتہ دنوں جناب وجاہت مسعود نے اپنی ویب سائٹ ’’ہم سب ڈاٹ کام‘‘پرایک مضمون بعنوان’’مظہر برلاس، گورداسپور اور جماعت احمدیہ‘‘ تحریرکیاہے جو مظہربرلاس کے کالم کی اس سطر کا کہ’’مخصوص مکتبہ فکر کے ان علما اور قادیانیوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا‘‘جواب ہے۔ وجاہت مسعود نے لکھا کہ:’’قادیانی گروہ پر پاکستان کی مخالفت کا الزام بالکل غلط ہے۔ پاکستان کے قیام کی جو مخالفت کرتے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد اپنے دیرینہ مؤقف پر دُھول ڈالنے کے لئے قادیانیوں پر پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا۔ اس الزام کی تائید میں کوئی ایک ثبوت کبھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ ایک دلیل گورداسپور کے الحاق کے ضمن میں دی جاتی ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے کے موقع پر پنجاب کی تقسیم کے لیے بنائے گئے پنجاب باؤنڈری کمیشن اور پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفر اللہ کی مساعی کاتفصیلی تذکرہ کیا اور آخر میں وجاہت مسعود نے مجلس احرار اسلام پر بھی ’’نگاہِ کرم‘‘ کی ہے اورمجلس احرار اسلام کے مؤقف کو پیش کر کے اُس پر بحث کرنے کی بجائے یہ تحریر کیا کہ ’’قیام پاکستان کے بعد ماضی روایت کے عین مطابق ظفر اللہ خان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے کہ ان کی نااہلی اور بدنیتی کے باعث بہت سے علاقے پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ الزام تراشی کی اس مہم میں مجلس احرار کے شعلہ بیاں مقررین پیش پیش تھے جو سرے سے تقسیم ہند کی مخالف جماعت تھی۔‘‘
عجیب بات ہے کہ وجاہت مسعود نے ایک مقدمہ پیش کیا اورخود ہی منصف بن گئے اور اپنی مرضی کا فیصلہ بھی صادر کر دیا۔ جب تاریخ پر بات کی جائے تو ضروری ہوتا ہے کہ تاریخ کے دونوں رُخ سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ وجاہت مسعود نے اپنے مضمون میں سر ظفر اللہ خان کی باؤنڈری کمیشن میں’’ خدمات‘‘ کے لیے کسی مستند ماخذ کی بجائے خود ظفر اللہ خان ہی کی خود نوشت ’’تحدیث نعمت‘‘ کے طویل اقتباسات نقل کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ظفراللہ خان پر اعتراضات کی صفائی میں اُن کی اپنی گواہی کی بجائے کسی غیرجانبدار ماخذ کی مدد سے اپنے کیس کو مضبوط کیا جاتا۔ تا کہ کھرا کھوٹا نکھر کر سامنے آتا اور اپنا فیصلہ سنانے کی بجائے قاری کو کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا، چونکہ متحدہ پنجاب کی تقسیم ایک بہت ہی اہم مرحلہ تھا۔ اس لیے اس پر ٹھوس دلائل کے ساتھ سنجیدہ گفتگو کی اشد ضرورت باقی ہے، کیونکہ تقسیم پنجاب کے وقت گورداس پور کے انڈیا کی تحویل میں چلے جانے سے پاکستان کے وجود کو شدید نقصان پہنچا اور ہمارا ملک دریاؤں کے پانی روک دینے جیسے مسائل سے آج بھی دوچار ہے، اس لیے اس اہم علاقے کو بھارت کے سپرد کرنے میں ملوث کرداروں کا تعین بہت ضروری ہے۔
قادیانی جماعت جسے میرے فاضل دوست محب وطن اور تحریک پاکستان کی حامی جماعت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ قادیانیوں کے سربراہ مرزا بشیرالدین محمود نے اپریل 1947 کو اخباری نمائندوں کے اس سوال پر کہ ’’کیا پاکستان کا قیام عملی طور پر ممکن ہے؟‘‘جواب میں کہا تھا کہ’’سیاسی اور معاشرتی نکتہ نگاہ سے یہ ممکن ہوسکتا ہے، تاہم میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ملک کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (قادیانی اخبار:’’الفضل‘‘،قادیان۔12؍اپریل 1947) قادیانی اکھنڈ بھارت کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے مرزا بشیر الدین نے کہا تھا کہ ’’یہ خدا کی مرضی ہے کہ ہندوستان متحد رہے۔ اگر ہم ہندوستان کی تقسیم پر راضی ہوئے تو خوشی سے نہیں، بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائیں۔‘‘ (’’الفضل‘‘،قادیان۔16؍مئی 1947) رہی بات مجلس احراراسلام کے ظفراللہ خان کے خلاف پروپیگنڈے کی تو گزارش ہے کہ یہ درست ہے کہ مجلس احراراسلام تحریک پاکستان میں شریک نہ تھی، لیکن ظفراللہ خان کے باؤنڈری کمیشن میں کردارکے بارے میں میرے پیش کردہ حوالہ جات کسی احراری رہنما کے نہیں، بلکہ خود قادیانیوں کے روزنامے، کمیشن کے مسلمان اراکین اور مسلم لیگی رہنماؤں کے ہیں۔ اس معاملے میں تمام ملبہ احرار پر ڈالنا حقیقت سے آنکھ چرانے کے مترادف ہے۔ احرار نے ظفراللہ خان کے بارے میں اگر کوئی بات کی تو آنے والے وقت میں کمیشن کے ارکان اور لیگی رہنماؤں نے احرار کے دعوؤں کی تائید کر کے قادیانیوں کی پاکستان اور اسلام سے بے وفائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ علاوہ ازیں جناب وجاہت مسعود نے اپنے مضمون میں قادیانیوں کو ’’احمدیہ مسلمان‘‘ لکھ کر مسلمانوں کے جذبات اور آئین کی توہین کی ہے۔ انہیں احرار کی اوٹ میں قادیانیوں کی نمائندگی اور ترجمانی کی بجائے اسلامیانِ پاکستان کے عقائد و نظریات کا دفاع کرنا چاہیے۔ قادیانیوں کی ملک دشمنی سے پردہ سرکانا ضروری ہے اوراُن کی اصلیت کا پول تو علامہ اقبال نے 1935 میں پنڈت نہرو کے نام اپنے خط میں یہ لکھ کر کھول دیا تھا کہ ’’قادیانی ملک اور اسلام دونوں کے غدار ہیں۔‘‘
جب تین جون 1947 کو مسلم لیگ نے تقسیم پنجاب وبنگال کے منصوبے کو مان لیا تو تیس جون 1947 کو سر ریڈکلف کی سربراہی میں تقسیم کے لیے حدبندی کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔ کمیشن کے پنجاب کے اراکین میں دو غیر مسلم ممبران کے علاوہ جسٹس محمد منیر اور جسٹس دین محمد شامل تھے۔ جب کہ مسلم لیگ کی طرف سے سر ظفراللہ خان وکیل تھے۔ ظفراللہ خان اگرچہ مسلم لیگ کے نمائندے تھے، مگر وہ اوّل وآخر سکّہ بند قادیانی بھی تھے۔ اس لیے وہ بہرصورت اپنے قادیانی سربراہ کی ہدایات کے پابند تھے۔جب قادیانی سربراہ مرزا بشیرالدین محمود نے حدبندی کمیشن کے قیام کے بعدحدبندی کی تقسیم کی اکائی ضلع کی بجائے تحصیل کو قرار دینے پر زور دیا تھا (’’الفضل‘‘،قادیان۔19؍جون1947) تو ظفراللہ خان نے بھی اسے حکم جان کر باؤنڈری کمیشن میں حد بندی کے لیے تحصیل ہی کو ایک اکائی منتخب کر لیا تھا۔ جس کا بظاہر یہ جواز تراشا گیا تھا کہ ’’مجھے [مسلم لیگی رہنماؤں میں سے ] کوئی بھی گائیڈ لائن دینے پر تیار نہ ہوا تو خود ہی اپنے ساتھی وکلا کی مشاورت سے تحصیل کو حدبندی کی اکائی کے طورپر منتخب کرلیا۔‘‘(سرظفراللہ: ’’تحدیث نعمت‘‘،صفحہ:505 ) ظفراللہ نے مسلم لیگ کی یادداشت میں تحصیل کو حدبندی کی اکائی بنانے پر زور دیا۔حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پٹھان کوٹ ایک ہندو اکثریتی تحصیل ہے اور وہ اس طرح مغربی پنجاب کی بجائے مشرقی پنجاب کی جھولی میں جاگرے گی۔ جس کی بدولت مستقبل میں ہندوستان کو جموں وکشمیر تک رسائی ملنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ اس عاقبت نااندیشانہ فیصلے کا مقصد کشمیر جنت نظیر کا چوراسی ہزار مربع میل کا خِطہ ہندوستان کا حصہ بنا دینے کے سوا کچھ نہ تھا۔ سید نور احمد کے بقول ’’تحصیل کو بنیادی اکائی قراردینے کے فیصلے نے پٹھان کوٹ کی قسمت کا فیصلہ مشرقی پنجاب کے حق میں کردیا۔‘‘ (’’مارشل لاسے مارشل لاتک‘‘،صفحہ 318) ضلع گورداس پور ایک مسلمان اکثریتی ضلع تھا۔ اس کی تحصیل پٹھان کوٹ میں غالب آبادی ہندو تھی۔ اگر ضلع کی بنیاد پر حدبندی کی جاتی تو ضلع گورداس پور پاکستان میں شامل ہوجاتا اور انڈیا کو کبھی کشمیر کا راستہ نہ ملتا۔ اس طرح ہندوستان کو پاکستان میں آنے والے دریاؤں کے پانی کا منبع مفت میں ہاتھ نہ آتا اورنہ پاکستان کو بھارت سے جنگ کرنا پڑتی۔ قادیانیوں کا رُوحانی مرکز قادیان بھی گورداس پور کی تحصیل بٹالہ کا ایک قصبہ تھا۔ قادیانی چاہتے تھے کہ قادیان ہندوستان میں شامل رہے۔ اس آرزو میں ان کا اکھنڈ بھارت نظریہ کار فرما تھا۔ باؤنڈری کمیشن کے ممبر جسٹس محمد منیر کا یہ سوال قابل غور ہے کہ’’کیا گورداس پور کو اِس لیے بھارت میں شامل کیا گیا کہ اس وقت بھی بھارت کو کشمیر سے منسلک رکھنے کا عزم و ارادہ تھا۔ (جسٹس محمد منیر: ڈیز ٹُورِی ممبر۔ پاکستان ٹائمزلاہور۔ 24؍جون 1964) حدودبندی کمیشن کے تین فریق تھے: ہندو، سکھ اور مسلمان مگر قادیانیوں نے مسلم لیگ کے کیس کو کمزور کرنے کے لیے ایک الگ فریق کی حیثیت سے کمیشن کو مسلم لیگ سے علیحدہ ایک میمورنڈم پیش کیا تھا۔جس پر باؤنڈری کمیشن کے رکن جسٹس محمد منیر بھی حیرت زدہ ہو کر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ گورداس پور کے متعلق احمدیوں نے اس وقت ہمارے لیے سخت پریشانی پیدا کر دی۔‘‘ (جسٹس محمد منیر:ڈیز ٹُو رِی ممبر۔ پاکستان ٹائمزلاہور۔ 24؍جون 1964) پنجاب کی حدبندی کے لیے مسلم لیگ کا جو کیس سرظفراللہ خان کے سپرد کیا گیا تھا۔ ظفراللہ خان اسے جیتنے میں ناکام رہے۔ جس کے پس پشت ان کی قادیان سے وفاداری کا عنصر غالب تھا۔ باؤنڈری کمیشن کے رکن جسٹس دین محمد کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ ’’سر ظفر اللہ نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا ہے، لیکن انہیں پوری طرح بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ وکیل تو بہرحال وہی تھے اور دعوے کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنا ان کا فرض اوّلین تھا۔ جس میں وہ بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔‘‘ (ماہنامہ’’ سیارہ ڈائجسٹ‘‘لاہور۔جنوری 1976) ظفراللہ خان کے رویے اور کردار نے مسلم لیگ کے سنجیدہ حلقوں میں بھی سراسیمگی کی لہر دوڑا دی تھی۔ تحریک پاکستان کے اور مسلم لیگ کے ممتاز رہنما میاں امیر الدین کو کہنا پڑا کہ ’’ظفراللہ کی تعیناتی لیگی قیادت کی فاش غلطی تھی۔ جس کے ذمہ دار لیاقت علی خان اور چودھری محمد علی تھے۔ (ہفت روزہ ’’چٹان‘‘لاہور کو انٹرویو:06؍اگست 1984) جناب وجاہت مسعود کی خواہش پر قادیانیوں کی پاکستان سے غداری کے شواہد پیش خدمت کر دیے گئے ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول’’ یہ شواہد تاریخ کی امانت ہیں۔‘‘
(کالم نگارمجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں۔)