یعقوب غزنوی
دل نہیں مانتا کوئی کتنا ہی روشن خیال اور جمہوریت پرستی کا دلدادہ کیوں نہ ہو، اگر سچا مسلمان ہے تو سندھ اسمبلی میں گزشتہ جمعرات کی قانون سازی کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا جہاں اقلیتوں کی آڑ میں شعائر اسلامی کا قتل عام کرتے ہوئے مائنارٹی رائٹس کمیشن بل ۲۰۱۵ء نہ صرف منظور کیا گیا ، بلکہ سینئر وزیر پارلیمانی امور نثار کھوڑونے اسلامی اقدار کی پامالی کے اس تازیانے پر خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے سندھ اسمبلی کی توجہ ، محنت اور جدوجہد کا ثمر جانا اور پورے ایوان کو مبارکباد کا مستحق بھی قرار دے ڈالا۔
صدحیف ! یہ کون سے مسلمانوں کی اسمبلی ہے؟ انھی کی جنھوں نے قیام پاکستان کی قرارداد سب سے پہلے منظور کر کے مسلم حمیت کی تاریخ رقم کی تھی اس پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی، جس کا واضح نعرہ لا الہ الااﷲ کی عملی تفسیر ہے جس کی تشریح مسلمانوں کی ایک آزاد اور خود مختار اسلامی سلطنت ہے۔ مذکورہ بالابل کی منظوری پر ہر گز یہ یقین نہ آیا اور سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا یہ اسی سندھ دھرتی کی اسمبلی ہے جسے برصغیر کی تاریخ میں ’’باب الاسلام‘‘ کا درجہ حاصل ہے؟ تو پھر کیوں بنا کسی ردوکد یہاں قبول اسلام پر قد غنیں لگا کر اسلاف کے کارناموں کو ملیامیٹ کیا جارہا ہے، کیوں ترویج اسلام کی راہ میں روڑے اٹکا کر بے باکانہ انداز میں قانون سازی کی جارہی ہے؟
موجودہ سندھ اسمبلی میں کتنے غیرت مند مسلمان ہیں، مذکورہ بل کی کثرت رائے سے منظوری نے اس کا ہی بھانڈہ نہیں پھوڑا، بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ اسمبلی سے باہر بیٹھی سیاسی لیڈر شپ اپنے دین و مذہب سے کتنی سنجیدہ ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کی مصلحت پسندی سے تو سب واقف ہیں، مگر پریشان کن صورت حال اس اعلیٰ مذہبی قیادت کی طرف سے بھی لاحق ہے جو مذکورہ معاملے سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے اور جس نے مذکورہ بل کی منظوری پر کسی سخت رد عمل کا اظہار نہ کر کے اپنی عیش کوشی کو ظاہر کردیا۔ ایسے لیڈر ان کی خاموشی تا حال سوالیہ نشان ہے۔ کیوں کہ یہی تو وہ طبقہ ہے جو عوام الناس میں خود کو دین کا نگہبان باور کراتے نہیں تھکتا اور پھر ان کے کارناموں کی اپنے قلم کی نوک سے خدمت کرنے والے ’’دانشورانِ ملت‘‘ جو ان کی اسلامی، مذہبی خدمات کا ڈھنڈورا کچھ یوں پیٹتے ہیں کہ سحر طاری ہوجائے، یہ اور ان ملت ایک لنچ یا ڈنر پر قصیدہ خوانی کا ایسا خوشامدی خوان جماتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ سندھ اسمبلی کی قانون سازی پر میں حضرت مولانا فضل الرحمن کے ویسے ہی جار حانہ رد عمل کا ابھی تک منتظر ہوں، جیسا رد عمل حضرت والا جمہوریت کو خطرہ لاحق ہونے پر دیتے آئے ہیں مگر ابھی تک مجھے اس حوالے سے مایوسی کا ہی سامنا ہے۔ حرف اگر جمہوریت پر آئے تو حضرت گرامی سوتے سے جاگ پڑتے ہیں او رمصالحت کے لیے اپنی زنبیل لے کر صوبہ در صوبہ ہی سفر نہیں کرتے، بلکہ بیرون ملک دوروں سے بھی احتراز نہیں فرماتے۔ کوئی جناب سراج الحق کو بھی چٹکی بھر کر جگادے جو دیگر مسائل پر تو گاہے بگاہے احتجاج، مظاہروں اور ٹرین مارچ کا سلوگن ساتھ لیے پھرتے ہیں، مگر سندھ اسمبلی کے اس مسلم دشمن بل پر مہر بہ لب ہیں۔ کہاں ہیں صاحبزادہ حامد رضا کاظمی اور ان کے پیروکار؟ کہاں ہیں مذہبی امور کے گدی نشیں سردار یوسف؟ کیوں خاموش ہیں منبر و محراب کے وارثین و جانشین اور ان سے بھی کہیں بڑھ کر ان کے وہ ’’حوارین، دانشور ان ملک و ملت‘‘ جو ان سب کو اور ان ہی جیسے نہ جانے کتنوں کو دین و مذہب کار کھوالا اور اسلام کی اساس کہنے ، لکھنے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں یہی اب ہم مسلمانوں کے نجات دہندہ ہیں، لہٰذا ہم ان پر بھول کر بھی معترض نہ ہوں ، مباد ا وہ ناراض نہ ہوجائیں او رلذت کام و دہن کا وسیلہ بھی ہاتھ سے جائے۔
میری یہ بات گستاخی کے زمرے میں ہی شمار کی جائے گی، مگر میں ابھی تک نہیں بھولا جب پارلیمنٹ لا جزاسلام آباد میں شراب و شباب کی ایک مخلوط و فحش محفل کے انعقاد پر رکن قومی اسمبلی جمشید خان دستی نے اپنے دست و بازو پھیلا کر واویلا مچایا تھا۔ اس محفل کی خفیہ ریکارڈنگ بھی عرصے تک سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی تھی، پھر اس معاملے کی سرکاری سطح پر تحقیقات بھی کرائی گئی مگر معاملہ چوں کہ صاحب حیثیت او ربااختیار لوگوں کا تھا ، لہٰذا نہایت ڈھٹائی سے اس کو جھٹلا کر دفن کردیا گیا۔ اس وقت اس واقعے پر تو حضرت مولانا فضل الرحمن اس طرح خاموش نہ تھے جس طرح سندھ اسمبلی سے غیر اسلامی بل کی منظوری پر خاموش ہیں۔ جمشید دستی کے پارلیمنٹ لاجز کے واویلے پر مولانا نے میڈیا کے کسی چبھتے ہوئے سوال کے جواب میں اپنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’میں اگر ہوتا تو (جمشید دستی کی طرح) اس واقعے کا واویلا یوں نہ کرتا‘‘ مولانا کا یہ فرمان اس وقت بالکل ایسا ہی تھا جیسے بگڑی ہوئی بدمست اولاد کی طرف داری میں کسی صاحب اختیار باپ کی شفقت پدری عود کر آتی ہو۔ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون) میں اس وقت بھی مولانا کے خاموش رہنے کی تلقین پر معترض ہوا تھااور آج سندھ اسمبلی کے متنازعہ بل پر ان کے کسی دبنگ رد عمل کے نہ آنے پر بھی معترضین کی صف میں ہی کھڑا ہوں۔
سندھ اسمبلی سے منظور کیے جانے والے بل کی حقیقت میری نظر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بل ہمارے اپنے مذہب بے زاروں اور غیروں کی اسلام سے خوف کی علامت ہے۔ مسلمانوں میں ، مسلم دشمنی کے فروغ کے لیے ایک پورا مائنڈسیٹ کار فرما ہے، جو اسمبلیوں میں براجمان لوگوں کو مراعات دے کر اپنے کام نکلوا رہا ہے۔ سند اسمبلی میں اسلام مخالف بل لانے کا سہرا فنکشنل لیگ کے سر منڈھا گیا جس کے ہندو رکن نندکمار نے اقلیتوں کی آڑ میں خالصتاً ہندو کمیونٹی کے مفادات کا بل پیش کر کے نریندر مودی کو بھی نیچا دکھادیا کہ جو کام بڑا مودی بھارت میں نہ کرسکا وہ کام چھوٹے مودی نے سندھ اسمبلی میں کردکھایا، مبارکباد صرف اسی کا حق نہیں، بلکہ مبارکباد کے مستحق تو اسپیکر سندھ اسمبلی بھی ٹھہرتے ہیں کہ سب کچھ ان کی سرپرستی میں ہی ہوا۔ ہندو تو خیر سے راجہ داہر کا بدلہ لے رہے ہیں اور یہ بات کسی حد تک سمجھ میں بھی آتی ہے مگر یہ مسلم اراکین اسمبلی کو کیا ہوا ان کی غیرت و حمیت کون سے کمبل میں لپٹی سوتی رہی؟ وہ کیوں سندھ کے مسیحا محمد بن قاسم کی اصلاحات اور اس کی سندھ میں خدمات کو فراموش کر بیٹھے؟
غیر جانب دارانہ انداز فکر ا گرچہ اب چہار سو فقدان ہے مگر پھر بھی تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ حکمرانوں سمیت وزرا، مشیر اور اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان کا اصل کام اسلامی اقدار کو نقصان پہنچا کر یہود و ہنود کو خوش کرنا رہ گیا ہے۔ مذکورہ مائنارٹی بل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھئے کہ غیر مسلم خواہ وہ کسی بھی عقیدے او رمذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں، اسلام کی حقانیت دیکھتے ہوئے اپنی آئندہ نسلوں کے مسلمان ہونے کے خوف سے دو چار ہیں اور انھیں مسلمان ہونے سے بچانے کی وہ ہر طرح سے پیش بندی کر رہے ہیں۔ اسلام کے پرچار نے اغیار کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ مذکورہ بل کے حوالے سے بعض مضحکہ خیز باتیں بھی سامنے آئیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں کہ اس کے لیے ایک کمیشن قائم ہوگا، جو اقلیتوں کی شکایات کے ازالے کے ساتھ ساتھ ان کی بہتری کے لیے تجاویز دے گا۔ اقلیتوں کی اقتصادی و سماجی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے بھی اقدامات کرے گا۔ کمیشن اقلتیوں کے تمام حقوق کو تحفظ فراہم کرنے اور برابری کی بنیاد پر انھیں حقوق دینے اور مذہبی ہم آہنگی کے اقدامات کا بھی ذمہ دار ہوگا وغیرہ۔ ان نقاط کا تو صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ حکومت اب تک اقلیتوں سے مساویانہ سلوک میں ناکام رہی ہے، جبھی تو اسے مذکورہ اقدامات کی ضرورت پیش آئی۔ جب کہ اسلام تو قلیتوں کو ان کے جائز حقوق ۱۴۰۰ ؍سال قبل ہی دے چکا۔ نہ صرف دے چکا، بلکہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ مسلمان تو مسلمان، کوئی غیر مسلم بھی اسلام کی اس حقانیت کو چیلنچ نہیں کر سکتا۔ سندھ اسمبلی میں مائنارٹی بل پاس ہونے پر شادیانے تو پوری اسمبلی نے بجائے، مگر حقیقتاً کامیابی ہندوؤں کو ہوئی۔ اس کامیابی سے جو بات میری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم سے بغض کی آگ صدیاں گزرنے کے باوجود ہندوؤں کے ذہن و دل کو جھلسا رہی ہے اور یہ آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوسکی، بالکل اسی طرح بھارتی نیتا بھی تقسیم ہند کی آگ میں جل رہے ہیں۔ انھوں نے بھی آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پے درپے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے سازشی تانے بانے بننے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
گستاخی معاف! ذرا سنجیدگی سے سوچئے توہماری قوم کے رہنما کہلانے والے قوم کی رہنمائی کا کلاہ بھی سر پر سجائے رکھنا چاہتے ہیں او رمغرب ، بالخصوص غیر اسلامی طاقتوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے کہ اسی میں ان کی لیڈری کی بقا مخفی بیماریوں کی طرح پوشیدہ ہے۔ سندھ اسمبلی نے قبول اسلام پر پابندی کا بل منظور کر کے دین فطرت سے دست درازی کی کوشش کی ہے۔ یقین کامل ہے کہ ایسے لوگ جلد یابدیررب کائنات کی پکڑ میں ضرور آئیں گے۔ خدا کی پناہ ایسے کالے قوانین تو یہود و ہنود کے ممالک میں بھی نہیں بنے، جب کہ ہمارا تو آئین ہی قرآن و سنت کے تابع ہے تو پھر اس جرأت کا مظاہرہ کیوں کر ممکن ہوا؟ عوام منتظر ہیں، کیا ظلم کے خلاف کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما زنجیر عدل ہلائے گا؟ آئین کا کوئی محافظ، جوکوئی منصف اعلیٰ اس پر احتساب کا درواکرے گا؟ مجھ سمیت پوری قوم منتظر ہے۔(وما توفیقی الاباﷲ)
(بہ شکریہ :روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی)